پاکستانی : ایک بے حس قوم ؟

دسمبر یعنی سال کا آخری مہینہ شروع ہو چکا ہے …. دو ہزار سولہ اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہا ہے …
پیچھے مڑ کر دیکھا جائے تو 22 جون کا دن ہے ،دوپہر کا وقت ہے اور امجد صابری کی خون میں لت پت لاش ہے …..
اور آس پاس لوگوں کا ہجوم ہے جو ان کی تازہ تازہ خون میں ڈوبی لاش کی تصاویر کھینچ رہے ہیں . ویڈیو بنا رہے ہیں . بڑی ہی دلچسپ بات ہے کہ یہاں ان کے شہید ہونے کی خبر آئی اور دس منٹ میں سوشل میڈیا پر ان کی تصاویر اور ویڈیو لگ چکی تھیں .
کتنی اپیلوں کے بعد بھی وہ تصاویر نہ ہٹ سکیں . ان کے بچوں کو پورے رمضان مختلف رمضان ٹرانسمیشن میں بلوایا گیا اور ان سے والد کے بارے میں تب تک سوال کیا گیا جب تک ان کے آنسوؤں نے ان کا حلق خشک نہ کردیا ….
پھر 8 اگست کا دن آیا ، ایڈوکیٹ بلال انور کاسی کو کوئٹہ میں گولیوں کا نشانہ بنایا گیا اور جب ان کو دیکھنے اور ڈیڈ باڈی لینے وکلا برادری ہسپتال پہنچی تو وہاں خود کش دھماکہ ہوا اور 70 سے زائد وکیل، ڈاکٹرز ، نرسز اور مریض مارے گئے . ( آپ بیشک انھیں شہید لکھ لیجئے ، کہہ لیجئے لیکن جن کے پیارے گئے ہیں یقین جانئے آپ کے شہید کہنے سے انکا غم کم نہ ہوگا ) .
130 سے زائد زخمی ہوۓ . حکومت اور خفیہ ایجنسیوں کو تو سارا سال بہت کچھ کہا گیا . یہ حقیقت ہے کہ نہ دشمن کی کمر توڑی جا سکی نہ اس کے بچوں کو پڑھانے کی کوشش کامیاب رہیں .
لیکن ہم بذات خود کہاں کھڑے ہیں ، معاشرے کو درست کرنے ، اپنے ارد گرد کے حالات کو بہتر کرنے میں آپ کا اور میرا کیا ہاتھ ہے ؟
اگر آپ سے پوچھا جائے دو ہزار سولہ میں آپ نے اپنے ملک کے لئے یا اپنے آس پاس رہنے والوں کے لئے یا سب سے اہم بات خود کے لئے کیا کیا ؟ تو جواب میں آپ کے پاس حکومت اور پاکستانی عوام کے لئے شکوے تو ہوں گے لیکن کوئی حل کوئی راہ کوئی مشورہ نہ ہوگا .
کہیں کوئی بھی حادثہ ہو ، آپ کیا کریں گے ؟ مدد کی کوشش ؟ ارے نہیں ، آپ اپنا موبائل نکالیں گے اور سو چیں گے کہ کس ایکشن سے تصویر کھینچیں یا ویڈیو بنے تو واقعہ اچھے سے کیمرے کی زینت بنے اور آپ سوشل میڈیا پر دھوم مچاسکیں .کہیں آگ لگے ، سیلاب آۓ یا زلزلہ آ جائے, کوئی عمارت زمین بوس ہو جائے . ہمارا پہلا فریضہ تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈالنا ہے . مدد تو بعد میں کی جاسکتی ہے . تصویر کہاں ملے گی ؟
مرا ہوا بلی کا بچہ ہو یا اسی سالہ بوڑھا, انسان آپ کی ہمدردی صرف تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا کی زینت بنانے تک ہے .
دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد دو ہو یا دو ہزار ، ہمیں تو صرف تصویر سے مطلب ہے . کہیں ٹریفک حادثہ ہو یا کسی کا قتل ، ہماری اکثریت کی نظر صرف تصاویر پر ہی ہوتی ہے . جس خبر کی تصاویر ہاتھ نہ لگے وہ خبر ہی نہیں رہتی .
اپنے حکمرانوں اور دشمن پڑوسی ممالک پر تنقید کرتے کرتے یہ قوم اس قدر بے حس ہو چکی ہے کہ کبھی کبھی تو پاکستانی قوم کو قوم کہتے ہوۓ بھی ہونٹ لرزتے ہیں.
دوستوں کے ساتھ تصاویر کھینچتے کھینچتے اس قوم کو کیا ہوا کہ ہر حادثہ پر تصویر کھینچ کر سوشل میڈیا پر ڈالنا ضروری ہو گیا ؟
یہ رویہ ہمیں کہاں لے جارہا ہے ، ہم کب سمجھیں گے ؟
ہر لمحے پاکستان پر طنزیہ گفتگو کرنا ، حالات و معاملات پر جملے کسنا ہمارا شیوہ بن چکا ہے . آخر یہ رویہ ہم کب تبدیل کریں گے ؟
آنے والے سال خود سے یہ وعدہ کریں کہ اس رویے کو تبدیل کریں گے . کوئی حادثہ آنکھوں کے سامنے ہوں تو تصویر کھینچنے سے پہلے مدد کو پہنچیں گے .
بظاہر عام سی بات آپ کے اندر اور اس ملک میں کتنی تبدیلی لا سکتی ہے . ایک بار آزما کر دیکھ لیجئے ….

Facebook Comments

آمنہ احسن
کتابیں اور چہرے پڑھنے کا شوق ہے ... معاملات کو بات کر کے حل کرنے پر یقین رکھتی ہوں ....

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply