پنجاب میں متروک ہوتا پٹواری کلچر

کندھے پر بستہ لٹکائے ہاتھوں میں پرانا نوکیا موبائل پکڑے ایک بزرگ کو خستہ حال کپڑوں میں سڑک کنارے کھڑے دیکھ کر میں نے بے اختیار جیپ رکوا لی۔ انہوں نے ایک گاؤں میں جانا تھا جو کہ میرے راستے میں ہی پڑتا تھا اس لیے انہیں گاڑی میں بیٹھنے کی درخواست کی جسے انہوں نے شکریہ کے ساتھ قبول کرلیا اور گاڑی میں سوار ہوگئے۔۔ راستے میں بابا جی بار بار بستے سے ایک پرانی کاپی نکالتے اس میں سے نمبرز دیکھتے اور کسی نا کسی کو فون ملا دیتے۔ ہر ایک سے التجا آمیز لہجے میں درخواست کرتے کہ میں آ رہا ہوں کچھ وقت دیں اور آج پیسے ضرور دے دیں مہربانی ہو گی۔۔میں نے تجسس کے مارے پوچھ ہی لیا کہ وہ کس کام کے لیئے پیسے طلب کر رہے ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ وہ گاؤں کے نمبردار ہیں اور اردگرد کی آبادیوں سے ماملہ(ایک قسم کا زرعی ٹیکس جسے مالیہ بھی کہتے ہیں اور یہ سالانہ صرف پندرہ بیس روپے فی ایکڑ ہوتا ہے)کی وصولی پر نکلے ہوئے ہیں۔ان کے اس انکشاف پر میں حیران ہو کر رہ گیا کہ ایک نمبردار اور اس کی یہ حالت یہ وہ لوگ ہیں جن کا کسی زمانے میں بہت رعب ہوا کرتا تھا۔۔۔ میرے مزید کریدنے پر باباجی پھٹ پڑے اور بقیہ تمام راستہ موجودہ حکومت کو مختلف صلواتیں سناتے رہے اور اپنی مشکلات و زبوں حالی کا رونا روتے رہے یہاں تک کہ ہم ان کے مطلوبہ مقام پر جا پہنچے، میں انہیں گاڑی سے اتارنے کے بعد واپسی پر سارا وقت یہ ہی سوچتا رہا کہ پنجاب میں نمبردار اور پٹواری نظام تقریباً متروک ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بھلے وقتوں کی بات ہے جب پٹواری کے حلقے میں آنے کا غلغلہ ایک ہفتہ پہلے ہی مَچ جایا کرتا تھا۔ گاؤں کے نمبردار اور چوھدری سمیت ہر زمیندار کی خواہش ہوتی تھی کہ پٹواری صاحب ان کے ہاں قیام کریں۔ دیسی گھی میں کالی مرچ کے تڑکے سے پکا ہوا دیسی کُکڑ پٹواری صاحب کا من پسندیدہ کھانا ہوتا تھا اور چھوٹے زمیندار بھی اس کوشش میں رہتے کہ کسی طرح پٹواری کی خدمت کا موقع مل جائے۔۔عموماً ایسا ہوتا کہ دو گھرانوں میں زمین کے معاملے پر ہونے والے کسی جھگڑے میں پٹواری صاحب جس فریق کے ہاں قدم رنجہ فرما لیتے اور دعوت قبول کر لیتے اسی فریق کو برحق اور فاتح سمجھا جاتا تھا۔ زیادہ دور کی بات نہیں۔۔۔ سابق صدر مشرف صاحب کے دور میں پٹواریوں کو جتنے اختیارات تھے ان کا میں ذاتی طور پر گواہ ہوں۔ واش وصولی سے لے کر مختلف محکموں کی امداد تک ضلعی حکومت کے جتنے بھی کام ہوتے تھے وہ سب حلقہ پٹواری کے ذریعے تکمیل پاتے تھے۔ اکثر ایسا ہوتا کہ جو کام پولیس وغیرہ کے ذریعہ زور زبردستی سے ممکن نا ہوتا وہاں پر حلقہ پٹواری کو میدان عمل میں لایا جاتا اور پٹواری صاحب اپنی فہم و فراست، تعلقات اور دیگر معاملات کو استعمال کر کے بخوبی کام نکلوا لیا کرتے تھے کیونکہ زمینداروں کو یہ علم ہوتا تھا کہ وہ پولیس کے شکنجے سے تو چھوٹ سکتے ہیں مگر پٹواری کی لکھت پڑھت والی پکڑ سے ان کی نسلیں بھی جان نہیں چھڑا سکتیں۔ مگر رفتہ رفتہ صورتحال بدلتی گئی۔ موجودہ وزیر اعلیٰ پنجاب جناب میاں شہباز شریف نے حکومت میں آتے ہی پنجاب بھر کے لینڈریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے کا اعلان کیا۔ یہ پروگرام اصل میں کس نے شروع کیا اور اس کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کیسی کیسی مشکلات سامنے آئیں ان سب کا تذکرہ ایک الگ کالم کا متقاضی ہے۔ یہاں بات ہو رہی ہے پٹواری کے اختیارات کی۔۔۔ تو لینڈریکارڈ کو کمپیوٹرائز کرنے اور شکایت و سزا کا ایک مؤثر اور ڈیجیٹل نظام وضع کرنے کی وجہ سے رفتہ رفتہ پٹواریوں کی اہمیت میں کمی آتی گئی اور اب تو یہ حال ہے کہ دو ایکڑ اراضی کا زمیندار بھی اوئے پٹواریا کہ کر پکارتا ہے اور پٹواری صاحبان بھی سارا سارا دن فیلڈ میں موٹر سائیکلوں پر گھومتے نظر آتے ہیں کہ کہیں شکایت نا ہو جائے۔اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں پٹواری کی اہمیت بالکل ختم ہو گئی ہے بلکہ ان کی اہمیت آج بھی مسلمہ ہے۔ تاہم اتنا ضرور ہوا ہے کہ اب وہ پہلے والے حالات نہیں رہے۔ نا ہی پٹواریوں کی وہ قدرومنزلت ہے، نا ہی ویسی آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ گویا آپ کہ سکتے ہیں کہ پنجاب میں پٹوار کلچر اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کچھ یہی حال نمبرداری نظام کا بھی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے تک نمبردار یا نمبردار کا بیٹا ہونا صرف گاؤں میں ہی نہیں بلکہ پورے علاقے میں باعث عزت ہوا کرتا تھا۔ ایک باپ کے چھ چھ بیٹے بھی ہوتے تو وہ سب اپنے اصلی ناموں کی بجائے نمبردار۔ ۔ نمبردار کہ کر پکارے جاتے۔گزشتہ صدی کے اواخر تک نمبردار کی اتنی عزت ہوتی تھی کہ علاقے کے ایس۔ایچ۔او سمیت ضلع پولیس افسر اور ڈپٹی کمشنر تک نمبردار سے عزت و تکریم سے پیش آتے تھے۔ گاؤں کے کسی بھی معاملے یا جھگڑے کی متعلقہ تھانے میں تفتیش ہوتی تو اس کے متعلق نمبردار کی رائے کو اہمیت دی جاتی تھی۔ بلکہ "کمیوں" اور چھوٹے زمینداروں کے جھگڑے تو نمبرادر کے ڈیرے پر ہی حل ہو جاتے تھے۔
نمبردار جب جی چاہتا مسجد کے سپیکر میں ایک اعلان کر کے پورے گاؤں کو اپنے ڈیرے پر طلب کر لیا کرتا۔
مگر پھر وقت بدلتا گیا۔
نمبرداری نظام پر پہلی نقب پنجاب اسمبلی کے پِیڈا ایکٹ کے ذریعے لگائی گئی۔ جس کے تحت ہر گاؤں کے زمینداران کے الیکشن کروا کے کئی کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ نتیجتہً ایک ایک گاؤں میں چار چار چئیرمین منتخب ہو گئے جن کے پاس نہری نظام سے متعلقہ مختلف اخیتارات بھی تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ سکول کمیٹی۔ ۔ ۔ محلہ کمیٹی۔ ۔ ۔ اور دیگر انجمنوں جیسے اقدامات کی وجہ سے نمبردار کی اہمیت محض علامتی ہو کر رہ گئی ہے۔ جن کا کام بستہ سنبھالے واش وصولی کی لسٹ ہاتھ میں تھامے گلی گلی چکر لگانا اور چند سو روپے وصول کرنے کے لیے منتیں کرنا رہ گیا ہے تا کہ خود کو ملے ہوئے زمین کے ٹکڑے اور چند بچے کھچے اختیارات کو بچا سکے۔
پٹواری و زمیندار کلچر کے خاتمے کے فوائد و نقصانات کی بحث اپنی جگہ بہرحال اس بات کا کریڈٹ موجودہ حکومت کو دینا چاہیے کہ انہوں نے پرانے استحصالی نظام کی دو بڑی علامتوں کو تقریباً ختم کر دیا ہے۔ گو کہ اس کی جڑیں ابھی بھی باقی ہیں اور اس کو مکمل ختم ہونے وقت لگے گا۔

Facebook Comments

ندیم رزاق کھوہارا
اردو زبان، سائنس، فطرت، احساس، کہانی بس یہی میری دنیا ہے۔۔۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply