• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ڈاکٹر صاحب آگئے ہیں اور میں تیار ہوں;آہ ثاقب صاحب بھی چل بسے(2,آخری حصّہ)-ڈاکٹر ندیم عباس

ڈاکٹر صاحب آگئے ہیں اور میں تیار ہوں;آہ ثاقب صاحب بھی چل بسے(2,آخری حصّہ)-ڈاکٹر ندیم عباس

ثاقب صاحب کی ایک خوبصورت عادت مشورہ کرنے کی تھی۔ سپیشل کال کرکے بلا لیتے اور چھوٹے چھوٹے معاملات میں مشاورت کرتے۔ یہ ان کا بڑا پن تھا، ورنہ ہم انہیں کیا مشورہ دے سکتے تھے۔؟ آپ نوجوان نسل سے زیادہ پرامید تھے، اسی لیے کوشش کرتے کہ نوجوان نسل سے رابطے میں رہیں۔ نوجوانوں سے مکالمے کے لیے آپ نے مجلس بصیرت کے نام سے علمی نشست شروع کی، کرونا میں بند ہوگئی تو اسے دوبارہ شروع کرنے کے لیے دوبار مجھے بلایا اور میٹنگ کی، بس شروع کرنا ہی چاہتے تھے کہ خود چل بسے۔ پیام میں بھی اچھا خاصہ حصہ ایسے مضامین کا ہوتا ہے، جن کا تعلق براہ راست معاشرے سے ہو۔ پیام کا ذکر آیا تو اکوڑہ خٹک کے سابق استاد اور شعبہ تحقیق کے سربراہ مولانا اسرار مدنی نے شیعہ سنی دینی مجلوں میں سے اسے معتدل اور مسلکی تعصب سے پاک قرار دیا تھا۔

بصیرہ کی پوری ٹیم اربعین پر عراق چلی گئی، میں اور ثاقب صاحب بچ گئے، مجھے کہا بھئی اب مجلہ ہم نے مل کر نکالنا ہے، لہذا آپ زیادہ وقت آئیں۔ صورتحال یہ تھی کہ میں یونیورسٹی میں پڑھا کر اپنے آفس جاتا، وہاں سے لیٹ چھٹی ہوتی اور مغرب سے پہلے ثاقب صاحب کے پاس پہنچتا اور مسلسل کام میں لگ جاتے۔ رات آٹھ بجے کے آس پاس استاد محترم کی کال آئی، انہوں نے کوئی کام ذمے لگایا تھا، جو میں نہیں کرسکا تھا۔ اس پر انہوں نے اچھی خاصی کلاس لے لی اور وہ اس کا حق رکھتے ہیں۔ میں ذرا پریشان ہوا تو پاس ہی ثاقب صاحب بیٹھے کام کر رہے تھے، پوچھا کیا ہوا ہے۔؟ بتایا کہ صبح سے نکلا ہوں، اب تک مسلسل کام کر رہا ہوں، اب آغا صاحب نے بھی شدید ڈانٹ دیا ہے، حالانکہ بیس اور لوگ ان کے پاس موجود ہیں اور بعض تو کچھ بھی نہیں کر رہے، پھر بھی کام میرے ذمے ہی لگائے ہوئے ہیں۔

ثاقب صاحب نے جو کام کر رہے تھے، چھوڑ دیا اور مجھے اپنے پاس بلا لیا، کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ مصروفیت اللہ کی رحمت ہے کہ وہ تم سے کوئی کام لے رہا ہے، میں اس عمر بھی مصروفیت بناتا ہوں، دوسرا یہ یاد رکھو، اگر میرے پاس بیس بندے ہوں اور ان میں سے ایک بندہ بیس کام کر رہا ہو، وہ باقی سارے فارغ ہوں اور میرے پاس اکیسواں کام آجائے تو میں وہ بھی اسی کو دوں گا، جو بیس کر رہا ہے، اس لیے کہ وہ اکیسواں بھی کر لیے گا اور جو نالائق بیس کاموں میں سے ایک کے بھی اہل نہیں تھے، وہ اکیسیویں کے لیے بھی نا اہل ہوں گے۔ ان کا دیا یہ سبق زندگی گزارنے کا اسلوب بن گیا، اب جتنے کام بھی ہوں، اللہ کی توفیق سے گھبراتے نہیں ہیں۔

قائد شہید کی شخصیت سے بہت متاثر تھے اور بار بار ان کا ذکر کیا کرتے تھے۔سیاسی اجتماعات اور بے مقصد نعرہ بازی سے دور ہوچکے تھے، مگر جوانی کی سیاسی کشمکش متحرک ہونے مجبور کرتی تھی کہ وہ اب بھی متحرک رہیں۔ انہوں نے باقاعدہ کسی بھی شیعہ سیاسی تنظیم میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ جہاں جو تنظیم اچھا کام کر رہی ہے، اس کے ساتھ ہو جاتے تھے، ہم نے ہمیشہ انہیں قائد علامہ ساجد علی نقوی کہہ کر مخاطب ہوتے سنا، علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب، علامہ امین شہیدی صاحب، علامہ حسنین گردیزی صاحب اور امتیاز رضوی صاحب کا بہت احترام کرتے تھے اور ان سب کو اپنا بھائی قرار دیتے تھے۔ استاد محترم علامہ شیخ محسن علی نجفی کو سرمایہ ملت اور اپنا بزرگ سمجھتے تھے، جو بھی بات ہوتی، ان سے براہ راست کرتے تھے، اسی لیے وصیت کی کہ میری نماز جنازہ محسن ملت شیخ محسن علی نجفی پڑھائیں۔

ثاقب صاحب مرحوم کی ایک خوبی ان کا مظلوموں کی حمایت میں ہر وقت بے چین رہنا ہے۔ آپ کشمیر اور فلسطین کے عملی مجاہد تھے۔ انہوں نے پوری زندگی اہل کشمیر اور اہل فلسطین کی حمایت میں گزار دی۔ ان کی تحریروں اور ان کی تقریروں کا ایک بڑا حصہ اہل فلسطین اور اہل کشمیر کی حمایت میں ہے۔ آپ ہر سال کشمیر اور فلسطین پر سیمینار یا کانفرنس ضرور کراتے تھے۔ مقبوضہ کشمیر کی تحریک سے وابستہ لوگوں کے لیے آپ چوبیس گھنٹے دستیاب تھے۔ اسی طرح فلسطین اور قبلہ اول کے لیے آپ کا دل دھڑکتا تھا۔ امریکہ کو اس کی انسانیت کش پالیسیوں کی وجہ سے فلسطینیوں اور کشمیریوں کا مجرم سمجھتے تھے۔

مدرسہ تعلیم القرآن پنڈی کے واقعہ کے بعد فضا شدید فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر گئی، ایسے میں آپ نے ملی یکجہتی کے پلیٹ فارم کو متحرک کیا۔ افسوس ناک صورتحال تھی، جب بعض ملی یکجہتی کونسل میں شامل جماعتوں نے بازاری زبان استعمال کی، مگر یہ ثاقب صاحب کی حکمت اور معاملہ فہمی تھی کہ معاملے کو سنبھالا اور کہا لگتا ہے کہ ہمارے دوست حالات کو سدھارنے کی بجائے ان سے متاثر ہوگئے اور ورنہ یہ سب لوگ تو محبت کرنے اور فرقہ واریت کا قلع قمع کرنے والے ہیں، آپ کی دو منٹ کی گفتگو نے ماحول تبدیل کر دیا۔

آپ کو جدید موضوعات پر کام کرنے کا بے حد شوق تھا، یہی شوق ہمارے دوست مفتی امجد عباس صاحب میں بھی بڑی شدت کے ساتھ موجود تھا۔ آغا صاحب نے مفتی صاحب کو کہہ رکھا تھا کہ جو بھی نئے موضوع پر کتاب آئے، اسے خرید لیں، پیسے میں دوں گا۔ آپ نے صرف اس کا خلاصہ مجھے سنانا ہے۔ انسان کی اصل غذا تو علم ہے، جو اسے معراج تک لے جاتا ہے۔ ثاقب صاحب مسلسل خود کو علم سے متعلق رکھتے تھے۔ جب بھی آپ کے پاس پہنچے ایک کتاب کھلی اور ٹیبل ایک دو کتابوں مطالعہ کے انتظار میں رکھی ملیں۔ کل تدفین کے بعد ثاقب صاحب کے گھر آ رہے تھے، محمد حسین بھائی نے پوچھا، کیا ثاقب صاحب کرائے کے مکان میں رہتے تھے؟ میں نے کہا ہاں وہ کرائے کے مکان میں ہی رہتے تھے۔ حسین بھائی تھوڑی دیر خاموش ہوئے، پھر کہا یار اس دور میں ہر شخص پلاٹوں اور مکانوں کے پیچھے ہے، ان کی ترجیح دیکھیں پوری زندگی کرائے کے مکانوں میں گزار دی، مگر علم و معرفت کی محبت میں بڑی لائبریری اور اپنی کتابوں کا ایک ذخیرہ چھوڑ گئے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان کا جنازہ ان کے تعلقات کا عملی اظہار تھا۔ ہر مسلک کے لوگ موجود تھے اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ ایک دوسرے کے گلے لگ لگ کر رو رہے تھے۔ یوں لگ رہا تھا کہ ہر کسی کا قریبی عزیز چلا گیا۔ استاد محترم آغا محمد شفاء نجفی صاحب فرما رہے تھے کہ اسلام آباد میں ثقلین کاظمی صاحب مرحوم کی کمی پوری نہیں کرسکے اور اب ثاقب صاحب بھی چھوڑ کر چلے گئے۔ معروف صحافی خورشید ندیم صاحب نے روتے ہوئے مجھے گلے لگایا اور کہا ڈاکٹر ثاقب صاحب چلے گئے۔ کل اسی جگہ انہیں سپرد خاک کیا، جہاں البصیرہ کی بیادیں پڑ چکی تھیں اور بس اب اس کی عمارت بلند ہونا تھی، جس کے ساتھ ہی ثاقب صاحب کی ہجرتوں کا خاتمہ ہو جاتا، مگر ملاقات محبوب کا پیغام جلد آگیا۔ علم غازی عباسؑ کے سائے میں، آئی ایس او اور پاکستان کے پرچموں کے ساتھ انہیں لحد میں اتار دیا گیا۔ ایک پرسکون اور اجلا چہرہ جو غسل کے بعد ملاقات کے لیے بالکل تیار تھا۔ ہمارے دل کی کیفیت تو یہ شعر بتا رہا ہے:
یہ کس مقام پہ سوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کے کہیں دن سنورنے والے تھے

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply