یاد ماضی عذاب ہے یا رب۔

دن بھر کی تھکان،بے چین و اضطرابی کیفیت لیے شہنشاہ طبیعت(بقلم خود) سیدھے آرام گاہ کیطرف تشریف لے گئے ۔جہاں سکون قلب کے لیے ایک زیر مطالعہ کتاب کھول کر ورق گردانی شروع ہی کی تھی کہ نجانے کب نیند نے آلیا۔آدھی رات سے کچھ زیادہ کا وقت جب نیند سے بیداری ہوئی تو طبیعت پر سکون و خاموش ہو چکی تھی کہ اسی اثناء میں آوارہ گردی کا خیال ذہن میں آیا تو تورنت دروازہ کھولا اور چل سنسان راہوں پر چلتے قریبی پارک کا رخ کیا جہاں برقی قمقموں کی بند ش بوجہ لیٹ نائٹ ناکہ لوڈشیڈنگ، چاندنی رات پرسکون فضاء و ٹھنڈی ہوائیں وہ بھی سمندر کنارے عجب حسیں سماں باندھے ہوئے تھا ۔
آوارہ گردی المعروف واک شاک کرتے بچوں کے لیے مختص حصہ میں پہنچا تو یکدم سے رگ بچپن پھڑک اٹھی تو جھٹ سے جھولا پکڑ لیا اور (چوٹے ماٹے ) لینے شروع کردیے تو بچپن کے اس حسین وقت میں جا پہنچا جب ہم گھر میں ٹی آئرن یا گاڈر کے ساتھ رسی باندھ کر ایک عارضی جھولے کا قیام عمل میں لاتے اور خوب مزے اڑاتے ۔آخر کا ر اس جھولے کی تباہی کا وہ یاد گار وقت آن پہنچتا جب بہن بھائیوں میں زیادہ جھولے لینے کیوجہ سے لڑائی ہو جا تی اور امی جان کی طرف سے بغیر وارننگ جوتوں کی برسات شروع ہو جاتی اور ہم گھر سے باہر بھاگ کر سکھ کا سانس لیتے ۔
کچھ دیر جھولا جھولنے کے بعد اب سلائیڈنگ پر خوب مزے لیے جس نے ہمیں سکول کی ٹوٹی پھوٹی سلائیڈ یاد کروا دی جس سے ہم اکثر وبیشتر چوٹ ہی کھاتے تھے۔اسکے بعد کی یاد ادھوری ہی رہی بوجہ اکلوتا پن۔ خود کو اکیلے ہی متوازن کرنے کی بارہا ناکام کوششیں کیں جس میں اپنے بچپن ہی سے اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔
رات کا تیسرا پہر شروع ہونے کو تھا کہ ہم نے پارک کے دوسرے حصوں کا بغور جائزہ لینا شروع کیا تو دور کہیں کہیں اکا دکا جوڑے ساحل کنارے اور کچھ گھاس پر سر جوڑے تنہائی میں نجانے کن خوش گپیوں میں مصروف چہل قدمی کر رہے تھے ۔انکی اور اپنی تنہائی کا بغور جائزہ لیا تو جیلسی(حسد) کی بو محسوس ہونی شروع ہوئی تو ہم نے بھی ان جوڑوں کی تنہا چھوڑنے کا ظالمانہ فیصلہ دل پر پتھر رکھ کر کیا اور واپسی کی راہ لی ۔ یوں ہماری بچپن و جوانی کامختصریاد نامہ اپنے اختتام کو پہنچااور ہم بھولی بسری یادوں میں گم سم گھر لوٹے آئے اور خاموشی سے ایک دفعہ پھر خود کو بستر کے حوالے کر دیا ۔

Facebook Comments

مبشر ایاز
مکینکل انجینر ،بلاگر،صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply