فلسفہ شکر

مرحوم سٹیو جابز کا ایک جملہ شعور کی تختی پر ایسا نقش ہوا کہ فلسفہ شکر سکھا گیا۔مرحوم کہتے ہیں کہ زندگی کی دوڈ جیسی بھی چل رہی ہے اسے صبر شکر سے گزارتے چلے جاؤ اور نا شکری کا کوئی جملہ اپنی زبان پہ نا آنے دو۔ جب تم کبھی آگے پہنچ کر ماضی کے دریچے میں جھانکو گے تو ماضی کو اپنی فیور میں پاؤ گے۔
واقعی سچ کہا مرحوم نے! آج سے پانچ دس سال پہلے کے ماضی میں جب جھانک کر دیکھتا ہوں تو انکی بات سو فیصد سچ ثابت ہوتی نظر آتی ہے۔ کیسے کیسے ارمان تھے! ان میں ایسی بھی خواشات تھیں کہ یہ سوچ کر دل دہل جاتا کہ اگر یہ نہ ملا تو کیا ہوگا؟ شاید اپنے وجود کی بقا بھی فنا میں بدلتی نظر آتی۔طویل لجاجت بھری دعاؤوں کا ایسا سلسلہ ہوتا کہ تھمنے کا نام نہ لیتا۔ دعائیں کیا تھیں بس مالکِ دو جہاں کے آگے منت و سماجت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے کریم آقا میرے حال پہ رحم فرما، توُ تو دو جہانوں کے خزانوں کا مالک ہے۔ میں تجھ سے جو مانگ رہا ہوں بھلا تیرے خزانوں میں کوئی کمی ہے؟ دے دے نا یااللہ! میری فریاد سن لے! میں تیرا عاجز مسکین بندہ ہوں! تیرے در کہ سوا میرا کوئی در نہیں! میری بگڑی بنا دے نا یااللہ! تیری اک نگاہ کی بات ہے میری زندگی کا سوال ہے۔

دل سے نکلتی عرش معلیٰ کو چھوتی ہوئی دعائیں۔ کانپتے ہاتھ، لرزتے خشک ہونٹ، زندگی موت کا معاملہ بنی ہوئی دعائیں۔ ایسی دعائیں کہ چشم فلک نے شاید ہی کبھی دیکھی اور سنی ہوں۔ رُواں رُواں، بال بال سراپا دعا بنا ہوتا۔ لیکن پھر یوں ہوا کہ ان میں سے ایک بھی دعا قبول نہ ہوئی۔ دل ایسا ٹوٹا کہ بکھر کر خاک ہو گیا۔ خاک سے بھی بے وقعت۔ جو سر دعا کے لئے فرش پر گرا ہوا تھا اب شفا کے لئے گر گیا۔ کیا کیا جائے کہ بندے کا اپنے رب کے سوا سہارا ہی کیا ہے۔ کوئی دلاسا کوئی تسلی مل جائے۔ مالک کوئی سامان کر کہ حواس بحال ہوں، سانسوں کا بپھرا ہوا طوفان تھم جائے۔ کوئی مرہم میسر ہو، کوئی سکون کا سانس نصیب ہو۔

وقت گزرتا چلا گیا۔ زندگی اپنے مشاغل میں کھینچتی چلی گئی۔ زخم بھرنے لگے۔ اداسیوں اور مایوسیوں کے سیاہ بادل چھٹنے لگے۔ مزید وقت گزرا، حالات کافی بہتر ہوتے گئے۔ یوں محسوس ہوتا جیسے کالے پانی کی طویل سزا کاٹ کر آیا ہوں۔
آج ان ظالم لمحوں کو گزرے ہوئے عرصہ بیت گیا۔ اب جب بھی مُڑ کر ماضی کے دریچے میں جھانکتا ہوں دل شکر کہ جذبات میں ڈوب جاتا ہے اور سر سجدہ شکر بجا لاتا ہے۔ اے کریم آقا تو کتنا کریم ہے! اپنے بندوں کا خیال رکھنے کا حق تو ہی ادا کر سکتا ہے۔ ہماری مثال اس بچے کی سی ہے جو چمکتے ہوئے روشن انگارے کو ہاتھ سے اٹھانے کی کوشش کرتا ہے تو ماں باپ اسکا ہاتھ روک لیتےہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آج جب پیچھے مڑ کر دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں کہ اگر میری دعائیں قبول ہو جاتیں تو میں آج کس قدر تکلیف میں ہوتا۔ اور آج بھی یہی سوچتا ہوں کہ مستقبل میں جب کبھی پیچھے مڑ کر دیکھوں گا تو دل پھر سجدہ شکر بجا لائے گا۔ کیونکہ مالک جو بھی اپنے بندے کیلئے کرتا ہے ٹھیک کرتا ہے، اور جو بھی ہوتا ہے اچھے کیلئے ہوتا ہے۔

Facebook Comments

احسان عابد
نا معلوم منزل کا راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply