سانحہ بہاولپور اور بوتل کا جن۔۔۔احسن سمیع

بہاولپور میں طالب علم کے ہاتھوں استاد کے قتل کے لرزہ خیز واقعے  نے   پھر ہمارے اس موقف پر مہرتصدیق ثبت کردی ہے جس کا ہم 2017 سے بارہا اظہار کرتے چلے آرہے کہ خدارا سیاسی مقاصد کے لئے توہین رسالت اور ختم نبوت ﷺ جیسے فی نفسہ اہم اور حساس موضوعات کو تختہ مشق نہ بنائیں، ایک بار یہ جن بوتل سے باہر آگیا تو اس کو قابو کرنا ناممکن ہوجائے گا۔ اور بالآخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ہماری جامعات میں ورائیٹی شوز، ویلکم پارٹیز اور دیگر محافل جن  پر مذہبی طبقے کو اعتراض رہتا ہے، کوئی آج کی بات نہیں۔ ایک عرصہ سے یہ ایونٹس ہورہے ہیں اور مذہبی طلبہ تنظیمیں اس پر احتجاج بھی کرتی رہی ہیں مگر آج تک ایسا نہیں ہوا کہ اس کے شاخسانے میں کسی طالب علم نے استاد کی جان لے لی ہو۔ ویسے اس شخص کو تو طالب علم بھی نہیں کہنا چاہیئے کہ اگر اسے واقعی علم کی طلب ہوتی تو کبھی استاد سے اونچی آواز میں بات تک نہ کرتا، چہ جائیکہ اس کو قتل ہی کرڈالے۔ سب سے بڑا ظلم جو یہ لوگ اپنے ماورائے قانون اقدامات سے کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اس طرح کے جنونی حملوں سے اصل موضوع کی حساسیت ہی پس پردہ ہو کر ثانوی حیثیت اختیار کرلیتی ہے۔

سانحہ کرائسٹ چرچ کے بعد نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم نے جو سب سے اہم اور متاثر کن بات کی تھی وہ تھی دہشت گرد اور اس کے نظریے کو کسی بھی قسم کی شہرت حاصل نہ ہونے دینا! اس نے واضح کہا کہ “دہشت گرد کا ایک مقصد شہرت کا حصول بھی تھا، اور یہ اس کو میسر نہ آسکے اس لئے میں جب بھی اس کا ذکر کروں گی وہ بے نام ہی رہے گا”۔ یہ ایک بہترین حکمت عملی ہے انتہاء پسندانہ سوچ کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے۔ ایسے عناصر کو اگر میڈیا پر کوریج نہ ملے تو ان کا نظریہ بھی ان کے “two minutes of fame” کے ساتھ دم توڑ دے گا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کی اس دانشمندی سے، جس کی کل تک بلا تفریق سب ہی پذیرائی کر رہے تھے، کوئی سبق نہیں سیکھا اور چند ہی منٹوں میں اس جاہل اور جنونی لڑکے کو بدنام ہی سہی مگر سوشل میڈیا سیلبرٹی بنا ڈالا۔ کیا لبرل اور کیا مذہبی سب ہی اس کے بیان کو بڑھ چڑھ کر سوشل میڈیا پر شیئر کررہے ہیں اور اپنے اپنے الو سیدھے کررہے ہیں۔

اعترافی بیان میں اس لڑکے کا سپاٹ چہرہ گواہی دے رہا ہے کہ اس کا حقیقت سے ناطہ ٹوٹ چکا تھا اور وہ کسی فینٹسی میں جی رہا تھا جس میں اسے لگتا تھا کہ دین کے نام پر کسی کی یوں جان لے کر وہ راتوں رات ہیرو بن جائے گا۔ وڈیو سے لگتا ہے کہ اب بھی وہ اسی تصوراتی دنیا میں ہی گم ہے۔ اس کی وڈیو کو دھڑا دھڑ پوائنٹ سکورنگ کے لئے شیئر کرنے والے صرف اور صرف اس کے اسی زعم اور انا کی آبیاری کررہے ہیں۔

سازشی تھیوریز پر یقین رکھنے والے ہمیشہ سے رہے ہیں اور شاید ہمیشہ ہی رہیں۔ ایسے لوگوں کے لئے ایک نیم خواندہ شخص کا صرف یہ کہہ دینا ہی کافی ہے فلاں دین کی توہین کرتا تھا اس لئے میں نے یہ کیا۔ اس لڑکے کی ویڈیو کو دھڑا دھڑ سوشل میڈیا پر شیئر کرنے سے ہوا یہ ہے کہ بجائے اس کے کہ ایسے وقت میں سب یک آواز ہوکر مقتول سے ہمدردی کرتے، اب “اگر تو اسلام کے لئے کیا ہے ۔۔۔” ٹائپ باتیں ہورہی ہیں (جن سے اب گھن آنے لگی ہے)۔ جیسا کہ میں کہا کہ سازشی نظریات پر یقین کرنے والوں کی کمی نہیں، ایسے میں ہمیں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم سے سبق حاصل کر کے کرنا یہ چاہیئے کہ ان سازشی تھیوریز کی ترویج ہی ہر ممکن حد تک روکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک بات جو ہمارے مذہبی طبقے کو بھی سمجھنی چاہیئے کہ “اگر تو اسلام کے لئے کیا ہے۔۔۔” ٹائپ باتیں کسی بھی طرح انفرادی یا گروہی تشدد کو جسٹیفائی نہیں کرسکتیں۔ کم از کم یہ تو سوچیں کہ ہمارے معاشرے میں کیا اختلافات کی کوئی کمی ہے؟ آپ اپنے تئیں خود کو کتنا ہی پارسا، باعمل مسلمان اور عاشق رسول ﷺ کیوں نہ سمجھتے ہوں، آپ کا کوئی نیم خواندہ مخالف ایک ہی لمحے گستاخ کا نعرہ لگا کر بغیر کسی صفائی کا موقع دیئے آپ کا کام تمام کرکے اسی “اگر تو اسلام کے لئے کیا ہے ۔۔۔” والی منطق کے تحت چند لمحوں میں ہیرو بن سکتا ہے۔ کسی کو اگر لگتا ہے کہ کوئی توہینِ مذہب کا مرتکب ہوا ہے تو تاحد استطاعت قانون کا راستہ اپنائے، اگر ناکام رہا تو بھی ان شاء اللہ روز قیامت سرخرو ہوگا کہ اپنی سی کوشش تو کی۔ عدالتیں اگر بالفرض گناہگاروں کو چھوڑتی بھی ہیں تو اس کا وبال ان ججوں پر آئے گا جو جانتے بوجھتے غلط فیصلے کرتے ہیں۔ خدارا اس بنیاد پر معاشرے میں قتل جیسے سنگین جرم کو ڈی سینسٹائز اور نارملائز نہ کریں۔

Facebook Comments

محمد احسن سمیع
جانتے تو ہو تم احسنؔ کو، مگر۔۔۔۔یارو راحلؔ کی کہانی اور ہے! https://facebook.com/dayaarerahil

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply