کتاب۔۔۔سانول عباسی

بچپن میں درسی کتابوں کے سرورق کے بعد پہلے صفحہ پر اکثر ایک لائن لکھی ہوتی تھی” کتاب بہترین ساتھی ہے” اسے ضائع ہونے سے بچائیے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی کہ واقعی کتاب سے بہتر کچھ نہیں کتاب بہترین دوست ہے۔

کتاب و انسان کا تعلق اتنا ہی قدیم ہے جتنا انسان خود قدیم ہے انسان کائنات میں سب سے اعلی تصور ہوتا ہے اور وجہ امتیاز “علم” ہے اور علم کتاب کے مرہونِ منت ہے پہلے انسان سے لے کر آج کے انسان تک کے فکری و شعوری ارتقاء کا عمل کتاب کے بغیر تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔۔ جس طرح جسمانی نشوونما کے لئے خوراک انتہائی اہم ہے اسی طرح روحانی ،فکری و شعوری ارتقاء بھی علم کی بدولت ہے اور علم کتاب کا محتاج ہے ۔کتاب صرف مابین دفعتین اوراق کا مجموعہ نہیں بلکہ فی زمانہ جو بھی وسائل رہے ہوں جو بھی قاعدہ رہا ہو الغرض ہر وہ واسطہ جو ترویج علم کا باعث بنے کتاب ہے۔

کافی عرصہ پہلے پی ٹی وی مرکز کا ایک پرانا ڈرامہ “آزاد قیدی” دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں مرکزی خیال و کہانی انتہائی شاندار تھی وہاں اسکی ڈرامائی تشکیل بھی کمال تھی۔۔ ڈرامہ کچھ اس طرح تھا کہ ایک سزائے موت کے قیدی کا کیس ایک وکیل لیتا ہے اور وہ سزائے موت کو کم کروا کے اسے عمر قید میں بدلوا لیتا ہے اور اسے اپنی بہترین کامیابی تصور کرتے ہوئے دوستوں کی محفل میں اس کامیابی کا تذکرہ کچھ اس طرح سے کرتا ہے کہ جیسے اس نے بہت بڑا معرکہ سرانجام دیا ہو ۔محفل میں موجود ایک دوست کو اس بات پہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس عمر قید سے سزائے موت بہتر تھی اب وہ ساری عمر ہر روز سسک سسک کے مرے گا جبکہ سزائے موت کی صورت میں اسے صرف ایک بار موت کی آغوش میں سکون سے سو جانا تھا اس بات پہ کافی بحث ہو جاتی ہے نوبت  یہاں  تک آ جاتی ہے جو دوست سزائے موت کے حق میں تھے وکیل صاحب سے شرط لگاتے ہیں کہ اگر آپ 15 سال قید میں گزاریں تب آپکو پتہ چلے گا کہ تنہائی کی عفریت کیا بلا ہے اور انسان پہ کیا گزرتی ہے اور اگر آپ یہ مدت پوری کر دیں تو میں اپ کو ایک کروڑ روپیہ انعام دوں گا اگر آپ مقررہ وقت سے ایک دن یا کچھ لمحے پہلے بھی باہر نکل آئے تو شرط منسوخ ہو جائے گی اور آپ ہار جائیں گے۔۔

قصہ مختصر وکیل صاحب رضا مند ہو جاتے ہیں تو اس قید کے لئے وہ صرف ایک بات کا تقاضہ کرتا ہے مجھے کتابیں کاغذ اور قلم مہیا کئے جائیں۔۔۔۔ شرط طے ہو گئی اور اسے قید میں ڈال دیا گیا اور ہر طرح کی کتاب اسے مہیا کی گئی ۔پہلے پہل تو اس کا وقت گزرنا مشکل تھا مگر جیسے جیسے اس کی کتب بینی بڑھتی گئی کتاب نے اسکی قید کو ایک اور دنیا میں بدل دیا دنیا کی مختلف زبانوں پہ عبور حاصل کر لیا ۔فلسفہ سائنس و منطق کا بیش بہا خزانہ اس کے ہاتھ آ گیا اور آخری خط میں دوست کو مخاطب کر کے لکھتا ہے کہ “آپ سمجھتے ہوں گے میں اس کمرے میں تنہا ہوں نہیں ہر گز نہیں، اس تمام عرصے میں ایک لمحہ بھی ایسا نہیں گزرا جس میں، میں نے تنہائی محسوس کی ہو۔ میری بیٹھک میں دنیا کے بہترین لوگ فلاسفر، سائنسدان، مبلغ، ادیب و فنکار شامل رہے۔ یہ تمام کے تمام لوگ میری محبت میں کتابوں سے نکل کر میرے سامنے براجمان ہو جاتے ہیں وہ مجھ سے ہر موضوع پہ بات کرتے ہیں۔ بڑی گرما گرم بحث رہتی ہے باہر کی دنیا میں اگر میں ہزاروں سال بھی جی لیتا تو یہ وجدان حاصل نہیں کر سکتا تھا جو مجھے ان کتابوں کی محفل نے عطا کیا ہے کتاب نے میری شخصیت بدل دی ہے مجھے ان لوگوں کی محفل عطا ہوئی ہے جو دنیا کے حرص لالچ و طمع سے بےنیاز علم کے پیامبر تھے اور میں نے بھی دنیا کے حرص و ہوس سے چھٹکارا پا لیا ہے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ قید ختم ہونے سے ایک دن پہلے ہی میں یہ قید چھوڑ دوں گا تاکہ اپنی اور اپنی محفل کی نظروں میں سرخرو ہو سکوں”

انسانی تہذیب و تمدن کا سفر اور علم و آگہی کی تاریخ کتاب کے دم سے ہے کتاب انسانی ذہن کے بند دریچوں کو کھولتی ہے اسے سوچنے غور وفکر کرنے پہ اکساتی ہے کتاب نے انسان کی تقدیر بدل دی ہے، انسانی شعور و آگہی کو نئی منزلوں سے متعارف کروایا انسان بذریعہ کتاب ترقی کی راہوں پہ گامزن ہوا، ستارو ں پہ کمند ڈالنے ، سمندروں کی تہیں کھنگالنے اور پہاڑوں کی چوٹیاں سر کرنے کا شوق اسی کی بدولت ہے یہ کتاب کی کرامت ہے کہ انسان کو مطالعے اور مشاہدے کے ذریعے نئی منزلیں طے کرنا آسان ہو جاتا ہے کتاب انسان کی ذہنی نشوونما، علم و فن، مادی آسائشیں اور انقلابِ فکر و نظر میں اوج پیدا کرتا ہے غرض کتاب شخصیت سازی کا ایک کارگر ذریعہ ہی نہیں، بلکہ زندہ قوموں کے عروج و کمال میں اس کی ہم سفر بھی ہے ۔ کتاب زندہ قوموں کا شعار بلکہ فطرت ثانیہ ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

خدا نے انسان کو ارتقاء کے مراحل سے گزار کر جب اسے مکمل کرنا چاہا تو سب سے آخر میں جو بیش قیمت تحفہ عالم انسانیت کو دے کر مکمل کیا وہ کتاب ہے اب اس کتاب کی بدولت انسان خدا سے ہمکلام ہو کر شعور کی بلندیوں کو پا سکتا ہے اعلی انسانی اقدار کو پا سکتا ہے۔کتاب کسی بھی قوم کے شعوری ارتقاء کی ضامن ہے کسی قوم کو اگر تباہ کرنا ہے تو اسے کتاب سے دور کر دو وہ خود بخود آپس میں ہی ایک دوسرے کو تہس نہس کر دیں گے اور اگر کسی قوم کی پستی کو عروج میں بدلنا ہو تو اسے کتاب تھما دی جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے عروج کی منزلوں کو گرد راہ بنانے سے نہیں روک سکتی ہے۔

Facebook Comments

سانول عباسی
تعارف بس اتنا ہی کہ اک عام انسان

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply