موذی وبا، حکومت کی کوششیں اور سفارتکاری۔۔علی عمران

دسمبر 2019 ہمارے ہمسایہ ملک چین اور یہاں کے باسیوں کے لیے بہت تکلیف دہ ثابت ہوا اور اس  کی وجہ صرف اور صرف ووہان سے پھوٹنے والی انسانی تاریخ کی بد ترین اور موذی وباء Covid 19  ہے ،جو کہ کورونا نامی وائرس کے انسانی جسم میں داخل ہونے کے بعد جنم لیتی ہے، اس وباء نے چین جیسی معاشی قوت کو ہلا کر رکھ دیا، پاکستان کے چین سے معاشی، دفاعی اور بے مثال دوستانہ تعلقات ہیں، مگر اس کے باوجود یہاں سے چین میں علم کے حصول کی خاطر گئے ہوئے طالب علموں کے عزیز و اقارب میں اس موذی وباء کے پیشِ نظر شدید بے چینی اور اضطراب پایا جاتا تھا، اور اس بناء پر لوگوں نے سوشل میڈیا ا، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے سے حکومت وقت پر شدید دباؤ ڈالنا شروع کر دیا،اور اس صورت حال میں بہت سے اینکر پرسنز اور تجزیہ کاروں نے جن میں سے اکثر اپنے آپ کو عقل کُل گردانتے ہی،ں وزیراعظم پاکستان جناب عمران خان پر جی بھر کے تنقید کی کہ، ان کی قوت فیصلہ کمزور ہے، بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا، لیکن وزیراعظم نے اس وقت نہایت تدبر کا مظاہرہ کیا اور ان سب کی تنقید کو برداشت کیا، اور وقت نے ثابت کیا کہ ان کا فیصلہ درست تھا، کیونکہ چین ایک بہت بڑا اور انتہائی ذمہ دار ملک ہے، ان کے پاس جدید ترین ٹیکنالوجی اور طبی سہولیات موجود ہیں، اور بجا طور پر چین نے اس کورونا وائرس کو  نہ صرف مات دی ،بلکہ پوری دنیا کو حیرت میں مبتلا کر دیا، اور ایک تاریخ رقم کردی۔

آج وہی طلباء پاکستانیوں کے لیے آگاہی فراہم کرنے کے لیے چین ویڈیوز بنا کر بھیج رہے ہیں، جن کو پاکستان بلانے کے لیے یہاں بڑا واویلا مچا ہوا تھا، دوسری جناب ایران جو کہ ہمارا ہمسایہ اسلامی ملک ہے اور پاکستان کی اس سے بڑی وابستگی ہے کیونکہ پاکستان کو اس کے وجود کے بعد تسلیم کرنے والا پہلا ملک ایران ہی تھا، پاکستان سے زائرین کی ایک کثیر تعداد ہر سال ایران جایا کرتی ہے، اور ایران بھی ان ممالک میں شامل ہے کہ جہاں اس موذی وباء Covid 19 نے بڑے پیمانے پر انسانی جانوں کو نگلا، لیکن ایران سے زائرین کی واپسی بھی شروع ہوچکی تھی، فروری 2020 کے دوران زائرین تفتان بارڈر کے ذریعے سے پاکستان واپس پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔

جن کو بلوچستان حکومت نے ابتدائی طور پر حفاظتی انتظامات کرکے ان کو اپنی تحویل میں رکھا، اور فروری 2020 میں ہی پاکستان میں کورونا وائرس کا پہلا کیس بھی سامنے آیا، اب ایک بار پھر حزب اختلاف، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے سورماؤں نے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور اور طرح طرح کے الزامات عائد کرنا شروع کردیے، جس پر وزیراعظم کو بہت شدت کے ساتھ جواب دینا پڑا کہ میڈیا آزادی کا ناجائز فائدہ اٹھاتا ہے، وزیر اعظم نے جواب دیا کہ ایران ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور کئی دہائیوں سے معاشی پابندیوں کا شکار ہے، ان کے پاس تو ضروری ادویات تک موجود نہیں ہیں، تو میں کیسے بارڈر کو سیل کرکے اپنے ملک کے شہریوں کو وہاں تڑپنے دیتا، بدقسمتی سے ہم آج تک پاکستانی بن ہی نہ سکے اور نہ ہی اچھے مسلمان بن سکے،” کبھی مسلک میں بٹ گئے، کبھی لسانی بنیادوں پر تقسیم رہے” ۔

اسی ضمن میں وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کوئٹہ میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے واضح کیا کہ زائرین کو سیاسی مسئلہ نہ بنایا جائے ان کی تعداد کم بھی ہے اور وہ ہمارے کنٹرول میں بھی ہیں، اصل میں مسئلہ تو وہ لاکھوں لوگ ہیں جو دیگر ممالک یورپ، یو  اے ای، امریکہ اور برطانیہ سے آئے ہیں اور لوگوں میں گھلے ملے ہوئے ہیں۔ان میں سے بیشتر نے خود کو Quarantine بھی نہ کیا ہو شاید،اسی وباء کے حوالے سے  بڑے بڑے تجزیہ کار تنقید کر رہے تھے کہ وزیراعظم پورے ملک میں لاک ڈاؤن کردیں جس پر عمران خان صاحب کا کہنا تھا کہ یہ اتنا آسان فیصلہ نہیں ہے ، لیکن جب صوبوں نے لاک ڈاؤن کیا تو میڈیا کے احباب نے سوال داغنا شروع کر دیے کہ دیہاڑی دار اور تازی مزدوری کرنے والوں کا کیا ہوگا۔

لمحہ فکریہ ہے کہ اس بد ترین آفت کے دور میں جب ہم سب کو ایک ہو کر حکومت کا ساتھ دینا چاہیے، مگر ہم کر کیا رہے ہیں، کوئی سیاست چمکا رہا ہے تو کوئی صحافت، خدارا اب تو قوم بن جائیں، یہ وقت تو ایک دوسرے کو سہارا دینے کا ہے، ایک سوال بہت اہم ہے کہ کیا ہمارے اینکر پرسنز بیک وقت، عدلیہ، مقننہ انتظامیہ سب کچھ ہیں، تنقید برائے اصلاح ہونی چاہیے لیکن ہر امر کی کوئی حدود و قیود ہوتی ہیں۔حکومت کو اپنا کام کرنے دیجیے، آپ اپنے فرائض اپنی طے شدہ حدود میں رہ کر ادا کیجیے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کوئی بھی سربراہ مملکت ہو اس طرح کی آفت کے حالات میں  اپنے لوگوں کے بہترین ممکنہ مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے ہی فیصلے لے گا، ہمیں اس کڑے وقت میں اب ایک ہو کر اس موذی وباء اور بدترین  قدرتی آفت کا مقابلہ کرنا ہوگا،پروردگارِ عالم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہجوم سے قوم بننے کی ہدایت دے اور پوری دنیا کو اس آفت سے جلد از جلد چھٹکارہ دلوائے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply