عافیہ کی رہائی ، دکھی ماں کی دہائی۔۔۔۔سلمان اسلم

حسب معمول کل ڈیوٹی پر جاتے ہوئے گاڑی میں دوستوں کے بیچ کھیل کود پر بات کرتے کرتے یکدم مری زبان سے نکلا کہ خیر سے کل ( 16ارچ) کو بہن عافیہ صدیقی کی قید سے رہائی کی خبر گردش کر رہی ہے۔ درحقیقت یہ بات ہر سننے والے کان کے لیے چونکا دینے والی ضرور تھی مگر استفسار نے آنکھوں میں کھوئی ہوئی بہن کے واپس لوٹنے کی خوشی کی جگہ لے لی تو میں نے   بنا پوچھے بتایا کہ قیاس کیا جا رہا ہے پچھلے دنوں پاکستان پہ بھارت کی طرف سے فضائی حملے کی ناکام کوشش میں پاکستان کے جانبازوں کے ہاتھ  دو پائلٹ لگے تھے ۔ان میں سے اک اسرائیلی پائلٹ بھی تھا جسکو پاکستانی حکام نے چھپا کے رکھا تھا ۔ اسکے تبادلے میں کچھ معاملات غالبا طے پائے ہیں ۔ آگے سے آنے والے اک دوست کے جواب نے مجھے جھنجوڑ کے رکھ دیا ۔۔۔ “مرے خیال میں یہ گھاٹے کا سودا ہے “۔ تف ہے ہم پر ہمارے حکمران طبقے پر ۔۔۔ مگر تف کس کس پہ کروں میں حکمرانوں سے زیادہ سفاک تومرے اپنے عوام ہیں ۔۔۔ یہ تو کوئی اس ماں سے پوچھیں کہ جس نے لمحہ لمحہ اس کرب و اذیت ناک انتظار میں گزارا کہ اسکی  لخت جگر واپس آئے گی  ۔ اس بیٹی سے جاکے پوچھ لیں جو اک عشرے سے زائد اپنے ماں کی  گود سے بچھڑ کر، اپنی ہی ممتا کی  پلکوں پہ برسوں اغیار کے ہاں پل پل دم توڑ دینے والی انگاروں پہ سلگ سلگ کر بالآخر زندگی کے کچھ بچی کچی  بہاروں کے لوٹ آنے کی خوشی بمثل ماتم منانے گھر کو لوٹ آرہی ہے ۔۔۔ اس سے کوئی جا کے پوچھ تو لیں کہ یہ سودا گھاٹے کا ہے یا فائدے کا ؟

حال تو ہمارا یہ ہے کہ گر اپنی بکری بھی کوئی زبردستی قبضہ میں رکھ لے تو ہماری  غیرت شیطانی لاوا بن کر ابھرنے لگتی  ہے۔ مگر کسی ماں کے لخت جگر کے چھن جانے کا دکھ ہمیں کیا معلوم اور پھر برسوں بعد اسکے لوٹ آنے کی آزمائش بھری خوشی کی کیفیت اور احساس کیا ہوتا ہے ہم کو کیا خبر ۔ یہ تو اس اولاد سے جا کے پوچھ لیں جو اپنے ماں کے ممتا میں چھپ کر لاڈ و پیار کے ادائیں لٹانے کے لیے تڑپ تڑپ کر جھلس گئے ۔ ہم جیسے سفاک فرعونی خصلت والوں کے لیے تو یہ کہنا آسان ہے کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے ۔۔۔ ان نا ہنجاروں سے سوال ہے مرا کہ انڈین پائلٹ کی مفت رہائی کا سودا کس منفعت کے پیش  نظر تھا ؟ جبکہ بدلے میں اک معصوم اور معذور پاکستانی کی لاش ہمارے منہ پہ دے مارے تب ہماری زبانوں کو سانپ سونگھ  گیا تھا ؟ تب گھاٹے اور نفع  کے سودے کا وسوسہ تک دل میں نہ گزرا ؟ لمحہ بھر کے لیے سوچیں تو سہی ۔۔۔ کہ
دوسرے بچوں کی طرح عافیہ نے بھی گھر سے جاتے ہوئے کہاہوگا اماں اب سےکبھی بھی دیر نہیں ہوگی ۔ آپ دنیا کی سب سے اچھی اماں ہیں ۔
یہ چھوٹے لفظوں سے بنی چھوٹی چھوٹی بظاہر باتیں دراصل ماں کی روئے ممتا پہ اک پہاڑ جتنی بلند جسامت رکھتی ہیں۔ جیسے اللہ نے زمیں کے سکونت اور اک جگہ پہ مقیم رکھنے کے لیے پہاڑوں کو کیلوں کی مانند پیدا فرمایا ہے ویسے ہی ماں کے بطن سے جننے والے بچے کی چھوٹی چھوٹی باتیں ، ادائیں ، چھوٹےتوتلے  لفظوں سے اسکا اماں پکارنے کی صدائیں ماں کی روئے ممتا پہ زندگی کے لیے زندہ و تابندہ پہاڑ نما دیو قامت ستونیں بنا دی ہیں۔ جس کے بنا ماں ادھوری ہوتی ہے اور اسکی ممتا بھی بنجر اور ویراں سی  لگتی  ہے۔ ماں اس ممتا ہی کی بدولت محبت کی اس انتہائی چوٹی پہ معین ہوئی ہے جہاں سے اللہ نے اپنی محبت کو ماں کی  محبت سے تشبیہ دے کر اسکی اہمیت و قدر ومنزلت اور بھی بڑھادیتی ہے ۔ مائیں اپنے والدین کے گھر تو روتے ہوئے چھوڑتی ہیں مگر جب خود ماں کے مقام پہ فائز ہو جاتی ہیں پھر اپنے ہی جگر گوشے کے لیے ہر وقت مضطرب رہتی ہے۔ اپنے بچوں کی اک اک چیز سمیٹنے پہ آدھا دن گزار لیتی ہے۔ مگر پھر بھی سکول سے واپسی پہ اسی ہی کے انتظار میں دروازے کو تھکتی رہتی ہے۔ یہ ماں بھی اپنی بیٹی عافیہ کے واپس لوٹ آنے کے انتظار میں ہر لمحہ گزارتی اس کی راہ تھکتی رہی ۔
دراصل وہ تو اپنے لخت جگر کے لیے خود کو انتظار میں مشغول رکھ کر پل پل مرتی اور زندہ ہوتی رہی۔ اتنے عرصے میں بیتے ہوئے لمحات کے نظارے کتنی بار نظروں کے سامنے آتی رہی ہونگی ماں کا کلیجہ پھٹتا ہوگا ۔ اس کا احساس تو اس ماں کو ہی معلوم ہے جو ہمارے سوچ کے بھی پرخچیں اڑادیتاہے۔ صبح وشام اسی کی خاطر اسکے حصےکی چائے بناتی ہوگی۔ رخصت کرانے سے پہلے دروازے کی دہلیز پہ آکر، دروازے سے سر باہر نکال کر تھوڑی سی اونچی آواز میں بولی ہوگی عافیہ بیٹا واپسی پہ دیر نہ کرنا جلدی گھر آجانا ۔ مگر اسکو کیا معلوم تھا کہ تقدیر ماں بیٹی ، اور بچوں کے درمیان انتظار کی اتنی بڑی فصیل کھڑی کردے گا ۔ جبکہ اماں تو عافیہ کا نظروں سے اوجھل ہوتے ہی پھر سے اسکے انتظار میں رہنے لگی ہوگی ۔ سورج ڈھلتے ہوئے شام کی سرمئی ختم ہونے کے ساتھ روز نہ جانے کتنی بار دروازے پہ دیوانہ وار طوافیں لگاتی رہی ہونگی۔ اور کبھی کس رہ گزرتے سے پوچھتی رہی ہوگی کہ مری عافیہ تو نظر نہیں آئی ، مری عافیہ کو تو نہیں دیکھا بڑی دیر لگا لی اس نے آنے میں اور پھر اسکی آنکھوں میں موٹی موٹی آنسووں کا تانتا لگ جاتا ہوگا ۔ خدایا روح تک لرزا دینے والی یہ قیامت کیسے سہہ گئی وہ ماں وہ بچے جس کا لخت جگر کا نہ زندہ ہونے کی خبر نہ مرنے کی کوئی اطلاع ۔ ہمارے لیے تو بس یہ گھاٹے کا سودا ہے ۔ جا کے دیکھ لو آج اگر اسی لخت جگر عافیہ کی آواز محلے کے چوکٹ سے دکھی ماں کے کانوں میں پڑ جائے تو اسکے خوشی کا کیا عالم ہوگا ۔ وہ ہم جیسے سفاکوں کی سوچ سے بھی بالا ہے۔ ممتا کے ضبط کا یہ عالم خود سے عاجز ہوکر جب یکدم سے اپنے لخت جگر کو سینے سے لگانے پہ آنسوں کا جو سیلاب بہہ آئے گا وہ منظر دیدنی ہوگا۔ ایسے لمحات کے بدلے ایسے ہزار سودے گھاٹے کے بھی گر کرنے بھی پڑے تو حکام پاکستان کو دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ کیا کوئی اس منظر کی تاب لا پائے گا جب دکھی ماں اپنے لخت جگر کو سینے سے لگائے آنکھوں میں جمع اضطراب کی بوندیں بہاتے ہوئے یہ کہتی جائے عافیہ پتھر تم نے تو مجھے ڈار ہی دیا تھا کہ شاید کبھی دوبارہ تمہیں دیکھنے کے لیے میں زندہ ہی نہ رہوں گی ۔۔ وقت کے درندہ صفت نما انسانوں کی بھیانک عذابوں سے چور بیٹی کی گھکی بندھی ہوگی اور زبان اک ہی لفظ کا ودر کرتا ہوگا اماں اماں ۔۔۔۔ کیا لاسکتا ہے کوئی تاب اس منظر کا ۔۔۔ ؟

انہی ماں اور بچے کے کھیل تماشے میں مائیں اپنے بچوں کے چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے اپنے آغوش میں پھول چنتی ہوئی بوڑھئ ہوتی چلی جاتی ہیں اور بچے ممتا کے آغوش میں کھیلتے ، ناز اٹھواتے اٹھواتے بڑھے ہوتے چلے جاتے ہیں۔ مگر قسمت کا دھارا دیکھیں کہ عافیہ کی ماں بیٹی کے ہجر میں قطرہ قطرہ آنسو بہاتی ہوئی بوڑھی ہو چلی اور عافیہ اپنی اولاد کو اپنے گود میں لینے کی انتظار میں بےحال زندہ لاش بن گئی ۔۔۔۔۔ اور ہم لوگوں کو آج بھی لگتا ہے کہ یہ گھاٹے کا سودا ہے ۔۔۔۔ کیا ہم بھی واقعی انسان ہیں ۔۔۔ ؟

محبت کا یہ پہیہ چلتا رہتا ہے بس بیچ میں لوگ نکل جاتے ہیں ،کبھی مائیں تو کبھی بچے ۔ قدرت عافیہ بہن اور اسکی والدہ پہ الحمد اللہ صد الحمد اللہ مہربان ہو رہی ہے اور محبت کے اس پہیے کی گردش میں دونوں کو اک بار پھر رحصت ہونے سے پہلے ملا رہی ہے۔ خدا کرے وہ 23 مارچ کے پرامید دن کا سورج بھی جلد طلوع ہو جائے اور اپنے آغوش میں عافیہ بہن کی خوشبو سمو کر گھر لوٹ کے لے آئے ۔۔۔ آمین
واقعی مائیں عظیم ہوتی ہیں ۔ اسی اضطراب و کرب کے جذبات و احساسات کے طفیل ہی رب کائنات نے ان کے پیروں تلے جنت کی کنجی رکھ دی ۔

ماں تری محبت کو سلام ۔۔۔۔۔ تری مامتا پہ نثار ۔۔۔۔۔۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

نوٹ : 16 مارچ کی رہائی غیر مستند خبر تھی جبکہ 23مارچ کو رہائی کی واضح امید کی خوشخبری محترمہ ڈاکٹر فوزیہ بخاری نے دی ہے ۔۔۔ اللہ اپناخصوصی فصل فرما ئے آمین ۔۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply