صِنفِ نازک۔۔۔۔یاسر لاہوری

عورت۔۔۔بیٹی، بہن، بیوی اور ماں کے روپ میں!

کسی بھی چیز کی تخلیق کے وقت بنانے والا اس چیز میں جہاں کار آمد حصوں پر توجہ کرتا ہے وہیں اس چیز کے وجود کو خوبصورتی سے مُزَیّن کرنا بھی بنانے والے کے نزدیک لازمی پہلو ہوتا ہے۔خالق کائنات نے اس دنیا کو بسانے کے لئے بے شمار ایسی تخلیقات فرمائی ہیں کہ جن کے بغیر یہ جہانِ دنیا ایک اُکتا دینے والی چیز کے سوا کچھ نا ہوتا۔خالقِ کائنات نے جب پہلے انسان یعنی آدم علیہ السلام کی تخلیق فرمائی تو ان کی زندگی میں رنگ بھرنے کے لئے ان ہی کی جنس سے صنفِ نازک یعنی حوا علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور یوں اس کائنات میں جذبات، احساسات اور خوبصورت لمحات کے رنگ بکھیرنے کے لئے کائنات کے خالق نے عورت کی صورت میں اپنی نعمت مہیا فرما دی۔
عورت بیٹی کے روپ میں

فریحہ اور اشتیاق اپنے دو بیٹوں کے ساتھ بڑی ہی اچھی زندگی گزار رہے تھے۔گھر میں چھوٹی عمر کے دو بیٹے جنید و طلحہ اور ان کے علاوہ ضروریاتِ زندگی کا تمام کچھ موجود ہونے کے باوجود کبھی کبھار فریحہ اور اشتیاق کو گھر بالکل ہی سُونا سُونا سا لگنے لگتا۔دونوں کے دلوں میں بیٹی کی خواہش ایک عرصے سے پَنَپ رہی تھی، دل میں ایک بے قرار سی خواہش تھی کہ اللہ انہیں اب کی بار ایک ننھا معصوم سا پھول بیٹی کی صورت میں عطا فرمائے۔فریحہ تو کئی بار اپنے رب کے سامنے دعا کی صورت میں التجا بھی کر چکی تھی۔۔۔اشتیاق بھی اپنے کلینک پر آنے والی چھوٹی بچیوں کو گود میں اٹھاتا، پیار کرتا اور دل ہی دل میں اپنے لئے بھی بیٹی کی دعائیں کرتا۔آخر معصوم سی بیٹیوں کے بغیر گھر کہاں آباد ہوتے ہیں، گھروں میں کہاں رونقیں ہوتی ہیں ان معصوم پھولوں کے بغیر۔

دور کی مسافتوں پر جانے والی کسی تیز رفتار سواری کی طرح وقت کے گزرنے کا احساس ہی نہ ہوا۔فریحہ امید سے ہوئی تو میاں بیوی کی بیٹی والی خواہش نے پھر سے سر اُبھارا، وقت جیسے ان دونوں کے لئے رک سا گیا تھا۔خیر وہ وقت بھی آ ہی گیا جس کا فریحہ اور اشتیاق کو بڑی بے چینی سے انتظار تھا، فریحہ کے ہاں ایک پری نما بیٹی نے جنم لیا۔اشتیاق تو جیسے خوشی سے پھولا نا سما رہا تھا۔معصوم سا پیکرِ حسن و جمال، ننھے سے گلابی ہونٹ، نرم و نازک سے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اور ننھا سا پیارا سا وجود اشتیاق ہاتھوں میں اٹھائے خوشی سے پاگل ہوا جا رہا تھا۔اب فریحہ کے پاس بیٹوں کے ساتھ ساتھ بیٹی بھی آ چکی تھی جس نے اپنی ننھی سی حرکات و سکنات سے فریحہ کے دل و دماغ میں ایک نئی تازگی بھر دی تھی۔ اشتیاق کی حالت اب بے حال تھی، کلینک پر تو اب جیسے اس کا دل ہی نہیں لگتا تھا ٹائم ختم ہونے سے کچھ پہلے ہی گھر کو چل پڑتا گھر آتے ہی اپنی “نور” کو گود میں اٹھاتا سینے سے لگاتا اور سمجھ میں نا آنے والی نور کی باتوں کو سمجھنے کی کوشش کرتا۔یوں فریحہ اور اشتیاق کا سونا پن اس ننھی پری کے آنے سے ختم ہوا۔۔۔۔بیٹی کی صورت میں ان کے گھر کی خوشیاں جیسے دوبالا ہو گئیں تھیں۔

عورت بہن کے روپ میں

آٹھ سالہ جنید اور پانچ سالہ طلحہ کو تو جیسے ایک کھلونا مل گیا تھا، دونوں بھائی بہن کے ساتھ خوب کھیلتے۔۔۔کبھی اسے اٹھانے کی ضد کرتے تو کبھی اپنی ننھی بہن کے رخساروں کو بوسہ دیتے اور پھر بہنا کے رونے پر دونوں بھائی ہنسنے لگتے۔وقت پَر لگا کے اُڑا پندرہ برس بیت گئے، نور بڑی ہوئی اور دونوں بھائی جوان ہو چکے ہیں۔بہن نے ماں کی ذمہ داریاں اپنے کھاتے میں ڈال لی ہیں بھائیوں کے کھانے پینے کا خیال، بھائیوں کی ضروریات کا خیال اب نور رکھتی ہے۔اکثر رات کے وقت تینوں بہن بھائی لان میں بیٹھ کر لڈو بھی کھیلتے ہیں۔بھائیوں نے بہن کا ایک الٹا نام بھی رکھ چھوڑا ہے جس سے وہ بہت چڑتی ہے۔۔۔طلحہ تو کئی بار اس قدر تنگ کر دیتا ہے کہ مجبوراً نور کو اس کے پیچھے بھاگنا پڑتا ہے اور اپنے بابا اشتیاق سے شکایت بھی کرنی پڑتی ہے۔پھر یہ جھگڑا اس ڈیل پر ختم ہوتا ہے کہ آج طلحہ نور کے لئے اس کی پسند کا پیزا منگوائے گا۔۔۔وگرنہ نور کی ناراضگی برقرار رہے گی۔۔۔اس کے بعد طلحہ اپنی جان سے بھی عزیز بہن کے لئے اس کی امید سے کہیں زیادہ خرچہ کر کے پوری کی پوری پارٹی کا سماں پیدا کر دیتا ہے۔بس زندگی ایسے ہی گزر رہی ہے خوشیوں بھری، بہن کی معصومانہ شرارتیں اور بھائیوں کی طرف سے اپنی بہن کی زبان سے نکلی ہوئی بات کو پورا کرنا جیسے ان کی زندگی کا لازمی جزء بن چکا ہے۔

عورت بیوی کے روپ میں

زاہد پڑھا لکھا، مگر بگڑا ہوا اور اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔کھلے پیسے اور ماں باپ کے لاڈ پیار نے زاہد کی عادتیں خراب کر رکھی ہیں۔رات رات بھر دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی میں مصروف رہنا، آدھا دن سو کر گزارنے کے بعد باپ کا ہاتھ بٹانے آفس جانا اور شام ہوتے ہی پھر سے دوستوں کی طرف نکل جانا اس کے شب و روز کا معمول بن چکا ہے۔آج کل زاہد کے ماں باپ اس کی بگڑی ہوئی ان چھوٹی موٹی عادتوں کو دیکھ کر کچھ زیادہ ہی پریشان ہیں اور مزید کہیں وہ غلط راستے پر نا چل پڑے اس لئے اس کی شادی کا سوچ رہے ہیں۔زاہد کے باپ کو کسی ذریعے سے ڈاکٹر اشتیاق کا پتہ چلا کہ وہ اپنی بیٹی کے لئے کوئی لڑکا دیکھ رہے ہیں۔زاہد کے والد اور اشتیاق کی ملاقات ہوئی، دونوں کو مناسب لگا کہ بات آگے بڑھائی جائے لہذا زاہد کے باپ نے زاہد سے بات کی زاہد کو لگا جیسے اس کی آزادی چھن جائے گی، دوست دور ہو جائیں گے، عیش عشرت والی زندگی کو خیر آباد کہنا پڑے گا۔زاہد کی طرف سے ٹھیک ٹھاک ٹال مٹول کے باوجود ماں باپ کی ضد کے آگے آخر کار اسے ہتھیار ڈالنا پڑے۔ اشتیاق اور فریحہ نے نور سے اجازت چاہی رشتہ پکا ہوا۔۔۔چند ماہ بعد شادی کا دن آ پہنچا۔

اشتیاق اور فریحہ کے دلوں کی رونق آج گھر چھوڑ کے اپنے گھر کی ہونے والی ہے۔جنید اور طلحہ بھی جیسے آج کے بعد وہ خوشیاں نا دیکھ سکیں گے جو بہن کے ہوتے ہوئے برپا ہوا کرتی تھیں۔آج نور سب کی آنکھوں میں آنسو دے کر جا رہی ہے، بیٹیاں ہمیشہ کے لئے کہاں رہتی ہیں انہیں تو جانا ہی ہوتا ہے۔

نور کے آنے کے بعد زاہد کی توجہ گھر اور آفس کے ساتھ مضبوط ہوتی جا رہی ہے۔اب زاہد کو محسوس ہونے لگا ہے کہ شادی سے پہلے والی زندگی تو بے کار تھی، جس میں نا کوئی وقتی پابندی تھی نا کوئی سلیقہ تھا، نا ہی کوئی مطلوبہ اہداف تھے اور نا ہی کوئی ایسی وجہ تھی کہ جسے سامنے رکھ کر وہ اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں بانٹ سکتا۔اب وہ بدل چکا ہے، نور کا خیال رکھتا ہے، نور کے سلجھے ہوئے اندازِ بیاں، با سلیقہ طور و طریقوں اور نہایت ذہانت سے بھرپور گھرداری نے زاہد کو ایک اچھی زندگی کی ڈگر پر استوار کر دیا ہے۔حد درجہ بگڑا ہوا زاہد اب حقیقت میں “زاہد” بن چکا ہے۔نور نے ایک بیوی کی صورت میں زاہد کی زندگی کو پلٹ کر رکھ دیا ہے۔

عورت ماں کے روپ میں

دو سال کب گزرے پتہ ہی نا چلا، نور اور زاہد کے ہاں اولاد ہوئی، ایک بیٹے نے ان کی گود بھر دی ہے۔رات رات بھر جاگ کر نور ننھے ایان کی پرورش کر رہی ہے، زاہد کی ضروریات کے ساتھ ساتھ اب اس کی توجہ ایان کی طرف بھی ہو چکی ہے۔اب اس کی زندگی ایان اور زاہد کے آگے پیچھے گھومتے گزر رہی ہے۔اب نور کا وہ سجنا سنورنا بھی کم ہوتا جا رہا ہے، آئے روز زاہد کے ساتھ باہر جانا بھی اسے بھولتا جا رہا ہے۔مزید وقت گزرا ایان اب چار سال کا ہو چکا ہے، نور ایک اور بچے کی ماں بننے والی ہے، نور نسلِ انسانی کی بقا کی ایک اور نشانی کو اپنے پیٹ میں پال رہی ہے۔آخر نور اس سٹیج پر پہنچ چکی ہے۔جہاں عورت ہونے کے ناطے کبھی اس کی ماں فریحہ تھی۔

نور کی شادی کو بیس سال گزر چکے ہیں۔ایان اور اس کے بعد پیدا ہونے والی اس کی بہن اسماء اب جوان ہونے کو ہیں، نور اور زاہد کے بالوں میں چاندی نے ڈیرہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔اب نور اپنے بیٹے ایان اور بیٹی اسماء کی محبتوں بھری لڑائی دیکھ کر بالکل ویسے ہی خوش ہوتی ہے جیسے کبھی فریحہ “نور اور اس کے بھائیوں کی لڑائی” سے خوش ہوا کرتی تھی۔

یہ عورت کی زندگی کے اہم ترین چالیس سے پینتالیس سال ہیں، جنہیں ایک عورت اپنے لئے جیتی ہی نہیں۔پہلے ماں باپ کے لئے پھر بھائیوں کے لئے، بعد میں شوہر کی ہو کر رہی اور زندگی کا آخری حصہ اولاد کے نام کر کے عورت نے یہ ثابت کر دیا کہ “رب کائنات نے جو دل، احساس، صبر، ایثار اور قربانی کا جذبہ عورت کو دیا ہے وہ شاید اس کائنات میں کسی اور کے پاس نہیں”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

میرا قلم یہ بات کہنے کو بے تاب ہے کہ “جس ہستی نے اپنی ساری عمر ماں باپ، بہن بھائیوں، شوہر اور اولاد کی زندگی سنوارنے میں صرف کر دی۔۔۔اس ہستی کے لئے صرف ایک ہی دن کیوں منایا جائے؟ سال کے تین سو پینسٹھ دن اس ہستی کے نام کئے جائیں، اس کے جذبات کا احترام کیا جائے، اس کے احساسات کو مدِّ نظر رکھا جائے، اس کی خواہشات کو ملحوظِ خاطر رکھا جائے اور اس کے حقوق کا خیال رکھا جائے۔
عورت بیٹی ہے تو سراپا رحمت کہ جس سے گھروں کی رونقیں زندہ ہیں۔

عورت بہن ہے تو ایثار و قربانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتی، بہن چھوٹی ہونے کے باوجود ماں کا کردار نبھا جاتی ہے۔

عورت اگر بیوی ہے تو دنیا میں اس سے زیادہ مضبوط اور رازدار رشتہ کوئی نہیں ہو گا، اس قدر معزز و محترم رشتہ کہ جس رشتے کو جوڑنے کے لئے کلامِ الہی (خطبہ نکاح) پڑھا گیا، اگر آپ کے حصے میں ایک عورت بطور بیوی موجود ہے تو اس کے حقوق پورے کرنے کے لئے یہی بات کافی ہے کہ “قرآن پاک کی آیات پڑھ کر آپ نے اس کو اپنے لئے حلال کیا ہے”

عورت اگر ماں کے روپ میں ہے تو یاد رکھیں “دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں جو خود بھوکی رہ کر اپنا حصہ کسی دوسرے کو بخوشی کھلا دے۔۔۔سوائے ماں کے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ جس اسلام کے ماننے والے ہیں یہ اسلام عورت کا رکھوالا ہے۔۔۔یہ اسلام عورت کے حقوق عورت کو دینے آیا ہے اور یہ اسلام عورت کو عزت دینے آیا ہے۔اگر آپ واقعی میں اسلام کے پیرو کار ہیں تو عورت کو اس کے اسلامی و جائز حقوق دیجئے۔ہاں! جہاں عورت غلط ہے تو آپ باپ، بھائی، شوہر اور بیٹا ہونے کی حیثیت سے اسے اس غلط کام سے روکئے تا کہ دنیا و آخرت میں کامیابی ہمارا مقدر ہو۔

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply