اچانک موت کا صدمہ ۔۔غیور شاہ ترمذی

سید فخر عباس کاظمی عرف فخری بھائی کی آج دوپہر نماز ظہر کے بعد فردوسیہ قبرستان لاہور میں تدفین ہو چکی ہے- ان کی نماز جنازہ ادا کرنے تک راقم کے دل و دماغ میں نے یقینی کی کیفیت تھی- اپنے کسی قریبی شخص کے انتقال کے صدمے سے دو چار ہونا ایک ایسا تکلیف دہ تجربہ ہے جس سے جلد یا بدیر ہر انسان کو گزرنا پڑتا ہے۔ دکھ، تکلیف اور غم تو کسی قیمتی چیز کے کھو جانے سے بھی ہوتا ہے لیکن اپنے قریبی عزیز اور بھائی کی موت کے بعد غم کے اتنے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے کہ وہ کیفیات الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے- اگر کوئی شخص شدید بیمار ہو اور عرصہ دراز سے بیماری سے لڑ رہا ہو تو دل و دماغ میں اس کی موت کا خدشہ قائم ہو جاتا ہے اور کسی حد تک ذہن تیار رہتا ہے- مگر فخری بھائی تو بیمار بھی نہیں تھے- انہیں شوگر کا عارضہ تو لاحق تھا لیکن یہ ایسی بیماری تو نہیں کہ کوئی اس کے ساتھ نارمل زندگی نہ گزارتا ہو- شوگر زدہ انسان کو نارمل انسان کی طرح ہی سمجھا جاتا ہے اور یہ سوچنا بھی قرین قیاس نہیں ہوتا کہ شوگر کی وجہ سے اس کی یوں اچانک موت ہو سکتی ہے-

فخری بھائی سے تعلق ویسے ہی تھا جیسے بھائیوں کے درمیان ہوا کرتا ہے- وہ راقم سے 5 سال بڑے تھے اور انہوں نے کبھی بھی عمر کے اس فرق کو اپنی زندہ دل طبعیت اور ہنس مکھ فطرت کی وجہ سے محسوس نہیں ہونے دیا- کبھی انہوں نے یہ فرق نہیں روا رکھا کہ راقم یا دوسرے کزن ان کے سگے بھائی نہیں بلکہ کزن ہیں- ہم سب کزنزکے ساتھ انہوں نے بالکل ویسے ہی پیار بھرا تعلق رکھا جتنا وہ اپنے سگے بھائی اطہر شاہ مٹھو سے رکھا کرتے تھے- راقم کے لئے فخری بھائی کی نعش کو دیکھنا یا ان کے جنازے میں شریک ہونا ایسا تکلیف دہ مرحلہ تھا کہ جس کی شدت کو سہنا آسان نہیں تھا لیکن اپنے پیارے بھائی اور دوست فخری بھائی کو اس عارضی دنیا سے ہمیشہ کے لئے رہنے والی اخروی دنیا کے سفر میں خیر باد کہنے کا کوئی اور طریقہ تھا بھی تو نہیں- فخری بھائی کی ناگہانی اور بے وقت موت سے پیدا ہونے والی یہ بے یقینی ان کی تدفین کے بعد اب جھنجھلا ہٹ اور بے بسی میں بدل چکی ہے- راقم کا دل اپنے ابدی سفر پر روانہ ہونے والے فخری بھائی کو ڈھونڈنے اور ان سے دوبارہ ملنے کے لئے تڑپ رہا ہے حالانکہ اس حقیقت کا بھی ادراک ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔ اسی لئے بے سکونی کی حالت نے بسیرا کیا ہوا ہے- روز مرہ کی باتوں پہ توجہ دینے کو بھی دل نہیں مان رہا اور نیند بھی متاثر ہے ۔ کچھ دیر کو آنکھ لگتی ہے تو پریشان کن خواب بھی آتے ہیں۔ کبھی وہ مناظر بھی آنکھوں کے سامنے محسوس ہوتے ہیں جہاں فخری بھائی کے ساتھ محفل رہی- خود کو مجرم سمجھنے کو دل کر رہا ہے- کاش کہ فخری بھائی کو ہونے والے ہارٹ اٹیک کی اطلاع ملتی تو کچھ کر سکتے- مگر دماغ یہ بھی تو کہتا ہے کہ جب میڈیکل سائینس والے ڈاکٹرز اور نرسز بھی کچھ نہیں کر سکے تو لکھنے لکھانے والے اور انجینئرنگ پراجیکٹس سے روزی روٹی کمانے والے کیا کر سکتے تھے- پھر میڈیکل سائینس، ڈاکٹروں یا نرسوں پر بھی افسوس ہو رہا ہے کہ وہ کیوں فخری بھائی کو بچا نہیں سکے- ان رشتہ داروں اور دوستوں پر بھی غصہ ہے جنہوں نے فخری بھائی کو ہونے والے ہارٹ اٹیک کی اطلاع نہیں دی- اور فخری بھائی کے بارے میں جو خبر ملی وہ ان کی موت کے بارے میں ہی تھی-

فخری بھائی کی موت کے صدمہ میں ان کے بچے اور بھائی نیم دیوانگی میں چلے گئے تھے۔ ہمارے درمیان جنہیں بڑے مضبوط اعصاب کے مالک سمجھا جاتا ہے وہ بھی یہ ناگہانی خبر سن کر سکتہ میں آ گئے تھے- کچھ رو ہوش و ہواس ہی کھو بیٹھے تھے اور کچھ راقم کی طرح بے یقینی کی کیفیت میں چلے گئے تھے۔ کسی بھی شخص کے لئے عظیم ترین صدمہ کیا ہو سکتا ہے؟- والدین کی وفات؟ بہن، بھائی کا انتقال؟- بیوی یا شوہر کی موت؟- بلا شبہ یہ بیان کردہ ہر رشتہ ہر انسان کے لئے عزیز ترین ہوتا ہے۔ ناگہانی موت ہو یا بڑھاپے کی موت۔ زندگی کا طویل ساتھ چھٹ جانا بھی عظیم صدمہ ہوتا ہے لیکن عظیم ترین صدمہ اولاد کی میت اٹھانا ہے۔ پھر نہ باپ میں وہ توانائی باقی رہتی ہے اور نہ ماں میں زندگی رہتی ہے۔ اسی وجہ سے اللہ سبحان تعالیٰ نے نہ والدین کو آزمائش فرمایا نہ بہن بھائی یا شوہر اور بیوی کو آزمائش قرار دیا۔ اللہ سبحان تعالیٰ نے اولاد کو آزمائش فرمایا۔ مال اور اولاد کو آزمائش قرار دیا۔ مال بھی اولاد کے لئے جمع کیا جاتا ہے اور خرچ بھی اولاد پر کیا جاتا ہے۔ مال چلا جائے تو بندہ مرتا نہیں کہ مال آنی جانی شے ہے لیکن اولاد چلی جائے تو بندہ نہ مرتا ہے نہ جیتا ہے۔ اپنا آپ بیچ کر بھی اس نقصان کی وصولی ممکن نہیں۔ کربناک، اذیتناک اور المناک آزمائش جوان بیٹے کی موت کی خبر ہے۔ اس خبر پر فوری صبر اللہ سبحان تعالیٰ کا خاص فضل ہوتا ہے۔ ورنہ وقت کے ساتھ صبر آ ہی جاتا ہے اور صبر کے سوا چارہ بھی کیا ہے۔ فخری بھائی کے والد اور راقم کے سگے خالو اور تایا الحاج اختر علی کاظمی شاہ صاحب کا دکھ ہم سب سے زیادہ ہے مگر اس ناگہانی دکھ اور غم کی گھڑی میں انہوں نے اس ضعیف العمری میں جس صبر و استقامت سے جھیلا ہے وہ صرف اور صرف ذکر شہدائے کربلا علیہم السلام کی ہی مرہون منت ہے-

ہم سب کو فخری بھائی کی موت کا دکھ کم ہونے میں وقت لگے گا اور اسے جلدی دور نہیں کیا جا سکتا- مگر مولا علی مشکل کشاء علیہ السلام کا فرمان ہے کہ صبر کی توفیق مصیبت کے برابر ملتی ہے”- اس لئے یہ بھی یقین ہے کہ قدرت کچھ عرصہ میں فخری بھائی کی یوں اچانک اور بے وقت موت کا صدمہ جھیلنے کی طاقت بھی عطاء کرے گی- اس قیامت کی گھڑی میں اگر فخری بھائی کی فیملی کو صبر نصیب ہو جائے تو اس میں یقیناً ہمارا کوئی کمال نہیں ہو گا بلکہ یہ خالق حقیقی کا کرم ہی ہوگا کہ اس نے فخری بھائی کی اچانک موت کے صدمہ کو ہمیں شہدائے کربلا علیہم السلام کے غم منانے کی عادت حسنہ کی وجہ سے بروقت سنبھال لیا۔ یہ کرم یقیناً کریم کربلا امام حسین علیہ السلام بادشاہ کے ذکر کا ہی ہے کہ اس نے موقع پر ہمیں اتنا صبر ضرور عطا فرما دیا کہ ہم سب کی زبانوں اور عمال سے ایسا کوئی فعل سرزد نہیں ہونے دیا جو خالق کو ناپسند ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

کہتے ہیں کہ اللہ سبحان تعالیٰ جب کسی انسان سے ناراض ہوتا ہے تو اسے اپنی مخلوق کے دکھ بانٹنے سے محروم کر دیتا ہے۔ صدمہ اور مصیبت کے وقت بے اعتنائی برتنے والے چہرے انسان نہ بھول سکتا ہے اور نہ در گزر کر سکتا ہے- راقم نے بہت سوچا کہ کیا فخری بھائی کی تشیع جنازہ میں کوئی ایسا بھی موجود تھا جو ایک دوسرے کو ان کی ناگہانی موت کا پرسہ نہ دے رہا ہو- یقین جانئے کہ فیصل ٹاؤن کی آبادی کے اس بڑے جنازہ میں شریک ہر ایک کی کوشش تھی کہ وہ ایک دوسرے کو فخری بھائی کی ناگہانی موت کا پرسہ دیتے ہوئے اسے اس دکھ کی گھڑی میں شہدائے کربلا علیہم السلام کے مصائب یاد رکھنے کی تلقین اور نصیحت کر رہا تھا- قارئین سے بھی درخواست ہے کہ مرحوم و مغفور فخری بھائی کے بلندئ درجات کے لئے خصوصی دعا فرما دیں-

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply