پشتونوں کو ہوشیار ہونا پڑے گا۔۔صابرجمیل خٹک

افغان حکومت کا ہمارے شہید سپرنٹنڈنٹ پولیس کی لاش کو پاکستان کی ریاستی انتظامیہ کی بجائے محسن داوڑ کو دینے کی ضد نے شہید کے  اغوإ اور شہادت سے متعلق کافی سارے پول کھول دیے ۔ شکوہ بجا ہے شکایت بیحد درست ہے کہ ہمارے دارلحکومت سے ایک سینئر عہدے کا پولیس آفیسر اغوا ہوکر افغانستان کیسے پہنچا۔۔۔ سیف سٹی کیمروں سے لیکر پولیس اور آرمڈ چیک پوسٹوں تک سب راستے کیسے اغوا  کاروں کے لیے  صاف  ہوئے ہیں  ۔۔ ؟

امر واقعہ یہ ہے کہ انٹیلی جنس کی جارحانہ سکیورٹی پروگرامز میں سب کچھ ممکن ہو سکتا ہے۔۔۔ لیکن ہمیں یہاں آج کا افغان حکومتی رویہ ہرگز اگنور نہیں کرنا چاہیے ۔ پشتونوں کیساتھ ہمدردی کے نام پر اپنا ہی بھانڈا پول کھول دیا۔۔۔ بلکل ثابت کر دیا انہوں نے کہ طاہر داوڑ کا اغوا  اور شہادت انکی سازش ہے جسے وہ ھماری  قبائیلی پشتون برادری کو مزید اشتعال دلا کر ریاست کے سامنے کھڑا کرنا چاھتے ہیں۔ ریاست کو اب ان سازشوں کے تدارک کے  لیے عملاً بہت کچھ ثابت کرنا ہوگا۔ شہید افسر کے قاتلوں کو ھر صورت قانون کے کٹہرے میں لانا ہوگا قبائلی عوام اور بلخصوص سماجی سیاسی اعتبار سے سرکردہ مشیران اور سفید پوشوں کی حفاظت پر خصوص توجہ دینی ہوگی ورنہ سازشی عناصر نے یہاں ptm نام کا ایک پودا لگایا ہے مشرق و مغرب سے اس پودے کو جو نمو مل رہی ہے وہ پشتون قبائل کو ریاست کیسامنے کھڑا کر دیگا۔ پشتون قبائل کے پرجوش نوجوان شائد اس تحریک کے پیچھے چلنے والے طوفان سے واقف نہیں مگر ریاست تو واقف ہے۔ ریاست کو اب اس بڑے خطرے سے نبرد آزما ہونے کے لیے بڑے کام کرنے ہونگے۔ دہشتگردی کیخلاف ہونے والے آپریشنز میں قبائل  کے نقصانات اور آبادکاری پر فوری توجہ دینے کیساتھ ساتھ اپنے رویے پر بھی غور کرنا ہوگا۔ ریاستی اداروں کو اپنی کارکردگی پہلے سے زیادہ بہتر بنانی ہوگی کیونکہ اب مقابلے کا ایک سخت ترین فیز شروع ہوا ہے۔ ریاستی اداروں کو اپنے کام میں زیادہ سے زیادہ توازن اور بہتری کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ دہشتگردی کے خطرناک عفریت سے کامیابی سے نمٹنے کے باوجود بھی انکی کارکردگی کو متنازعہ بنانے کی سنگین کوششیں ہو رہی  ہیں ۔سکیورٹی کے معاملات وہ ہم جیسے لوگوں سے بدر جہا بہتر سمجھتے ہیں لیکن ان کاموں سے احتراض کرنے کی سخت ضرورت ہے جس سے اپنی قوت کمزور ہو۔۔۔ کسی ریاست میں اداروں کی قوت کب کیوں کیسے کمزور ہوتی ہے اس سوال کا جواب بھی وہ ہم سے زیادہ بہتر سمجھتے ہیں اور بلاشبہ بہتر سمجھنا چاہیے کیونکہ ھمارے پاس پاکستان سے کم کوئی  آپشن نہیں ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

چلو تھوڑی دیر کے لیے ” لر او بر کی  سرخی “ لگاکر تصور میں فرض کرتے ہیں کہ ( خاکم بدہن ) اٹک تک کا علاقہ افغانستان کو مل گیا۔۔۔ پنجاب گریٹر پنجاب بنکر انڈین کنفیڈریشن کا حصہ ہو  گیا۔۔۔ سندھو دیش اور آزاد بلوچستان الگ ابھر آئے اور ( خاکم بدہن ) ” انکی “ منشا کے مطابق پاکستان نہ رہا ۔۔۔ تو کیا ان قوم پرست دانش گردوں کا مسئلہ حل  ہو جائیگا جو اسوقت لر او بر کے چکر میں دوبارہ پشتون کلمہ گوؤں کو ایک نئی  جنگ کے جہنم میں دھکیلنا چاہتے ہیں۔۔۔ کیا انہیں خطے کی تاریخ اور اس تاریخ کی کوکھ سے برآمد ھونے والی عجیب و غریب جنگوں کا نہیں پتہ۔۔۔ ؟ کیا دہشتگردی کیخلاف جاری جنگ واقعی دنیا میں قیام امن کے لیے برپا ہے یا اسکے درپردہ مقاصد کچھ اور ہیں۔۔۔ ؟ کیا دنیا کے سو سے زائد ممالک میں پھیلی  ہوئی  امریکی افواج چائنہ کی ابھرتی معیشت انڈیا کے نئے اتحاد اور روس کی ” بدلے کی آگ “ سامنے کی دیوار پر لکھی حقیقتیں نہیں ہیں۔۔۔ ؟ کیا خطے کا پشتون یہ تصور کیے بیٹھا ہے کہ وہ لر او بر کے فرضی پرامن من و سلوؤں کو بھی  آرام سے بیٹھ کر کھائے گا اور ملالئے میوند و ثنإ اعجاز کی  گود میں سر رکھ کر مدہوشی سے سوئے گا ۔۔۔ ؟؟؟؟؟ غلط جناب ۔۔۔ یکسر غلط ۔۔۔ پشتونوں کو دو باتیں ہر صورت یاد رکھنی  ہونگی کہ ایک تو اگر وہ اس نازک   موقعے پر سازشوں کا شکار ہوکر پٹڑی سے نیچے اترے تو انکے پاس سوائے مسلسل کشمکش اور جنگ کے کوئی  راستہ نہیں بچےگا۔۔۔ فیڈریشن آف پاکستان سے اسے خطے میں عالمی کھلاڑیوں کو اپنی آزادی کی قیمت دینی ہوگی وہ قیمت اس خطے میں اسے عالمی کھلاڑیوں کیساتھ کسی ایک طرف لازمی کھڑا ہونا ہے کیوں ان عالمی کھلاڑیوں کا اصل سرغنہ فری میں لنچ کروانے کا کبھی  قائل نہیں رہا۔۔۔ اس سرغنے کا خطے میں اصل مقابلہ پاکستان سے ھی ھے لیکن اس مقابلے کے دوسرے کھلاڑی چین اور روس بھی ہیں تاکہ انہیں زیر کرکے وہ خطے کی معاشی حب پر قابض ہو سکے اور دوسری طرف ایران کو بھی اپنے نیزے کی نوک پر رکھنا ہے تاکہ گریٹر اسرائیل  کے منصوبے پر کام جاری رہے۔۔۔ پاکستان کی تحلیل کی صورت میں خطے میں اس سرغنے کو چھوٹے چھوٹے اور مختاج بیس کیمپوں کی ضرورت ہوگی۔۔۔ لہذا ان کیمپوں میں پشتون اور دیگر اقوام کے پاس سوائے اسکے کوئی  چارہ نہیں ہوگا کہ یا تو وہ نئےغاصبوں کیساتھ برسر پیکار رہ کر اپنے خون کی ندیاں بہائیں یا پھر غاصبوں کیساتھ صف بند ھوکر کسی اور کیخلاف اپنا خون پیش کریں۔۔۔
اور پشتون کو یہ بات کبھی نہیں بھولنی چاہیے کہ انکی غالب اکثریت کلمہ گو ھے۔ سکیولر یا لبرل پشتون گماشتے خوشنما مستقبل کی آڑ میں انہیں آزاد مستقبل کی چکا چوند دیکھا کر انہیں ایک نئی لا متناہی جنگ میں دھکیل کر اپنا حصہ وصول کرکے یورپ اور امریکہ کی رنگین گلیوں میں چلے جائینگے لیکن کلمہ گو راسخ العقیدہ اور کلچرڈ پشتون جنگوں کے جہنم میں ہمیشہ کے لیے   بھسم ہونے کے لیے رہ جائینگے۔۔۔
ہمیں اپنی ریاست سے ہزار گلے شکوے ھو سکتے ہیں اور بجا ہو سکتے ہیں۔۔۔ پوری دنیا میں عوام کو اپنی ریاستوں سے گلے شکوے ھوتے رھتے ہیں لیکن انتہائی  درد مندانہ گزارش ہے ان پشتونوں سے جن میں ہوش باقی ہے کہ آئیں ھم سب سے پہلے اسوقت دنیا میں جاری جنگوں کا تجزیہ کریں کہ ان جنگوں کےبنیادی مقاصد کیا ہیں۔۔۔ ؟ اور پھر پوری ہوشمندی سے اپنی  ریاست سے اپنے حقوق کی بات منوائیں۔۔۔ نظاموں کی کشمکش میں پھنسی ہوئی  دنیا کے اندر دھشتگردی کے خاتمے کے نام پر جاری جنگوں میں ہم بحیثیت پاکستانی کس طرح اپنا سر بچا سکتے ہیں اگر ھم اس بات کوسمجھنے کے قابل ہوئے تو انشا اللہ نہ یہاں پشتون کا خون بہےگا نہ کسی اور کا۔ بعض اوقات انسان ھوشمندی کی بجائے  جوش کا شکار ہوکر پوری نیک نیتی سے خود کو تباہ کر دیتا ھے اور اگر وہ انسان کسی سرکردہ پوزیشن پر ہو تو اسی جوش اور غضب کیوجہ سے پوری قوم کو ہلاک کر دیتا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply