بھارتی جارحیت اور ہمارا ریاستی وقار ۔۔۔ مہر ساجد شاد

موجودہ صورتحال پر تبصرہ تین حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، اوّل بھارتی جارحیت اور اور اسکا پاکستان کی طرف سے موثر اور بروقت جواب، دوم حاصل شدہ موقع کا ریاست کو فائدہ اور جذبہ خیر سگالی، سوم کسی بھی علاقائی یا عالمی فورم سے غیر حاضری کی قیمت۔
بھارتی حکومت نے اپنے اندرونی مسائل، کشمیر میں بے قابو ہوتی صورتحال اور ملکی الیکشن کی سیاسی ضرورتوں کے تحت پاکستان کیساتھ جارحیت کا ارتکاب کیا، امریکہ کی نقالی کرتے ہوئے پاکستان میں مبینہ دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا، نقصان کیا ہوا ؟ یہ الگ موضوع ہے لیکن یہ طے ہے کہ پاکستان کی بین الاقوامی سرحد کی خلاف ورزی کی گئی۔ ریاست کی بنیادی زمہ داری اپنے شہریوں کو تحفظ دینا ہے لہذا اسکا فوری اور موثر جواب ضروری تھا، بھارت نے اسکا موقع بھی فوری دےدیا دوبارہ لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی پر پاک فضائیہ نے دو طیاروں کو نشانہ بنایا ایک طیارہ انکے علاقے میں گرا جبکہ انکا ایک طیارہ اپنے علاقے میں مار گرایا اور پائلٹ کو عوام نے زندہ پکڑ لیا جسے افواج نے گرفتار کر لیا۔ یوں کئی دنوں سے جاری بھارتی جارحیت یکایک اسکی سبُکی اور شکست میں بدل گئی۔ طاقت کا توازن پاکستان کے حق میں ہو گیا اور بھارتی حکومت پر انکی عوام کا شدید ردعمل کی صورت میں دباو بڑھنے لگا۔ ایسے میں بہترین حکمت عملی یہ ہوتی کہ اس قیدی کو عالمی برادری کے سامنے بطور ثبوت پیش کیا جاتا اور بھارتی حکومت پر اندرونی اور بیرونی دباو بڑھایا جاتا۔ اسے مناسب موقع پر اپنے دوست ممالک کو اعتماد میں لے کر انکی رائے سے بھارت کیساتھ قیدیوں کے تبادلے میں استعمال کیا جاتا، اسکے لئے بہترین حکمت عملی کا بنیادی قدم پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہوتا ہے جو حکومت نے اپوزیشن کے مطالبے پر طلب تو کر لیا لیکن اس قومی مشاورتی اجلاس کی ابتدا میں ہی وزیراعظم نے پائلٹ قیدی کی فوری بلا مشروط رہائی کا فیصلہ سنا دیا اب یہ اجلاس بھی بے معنی اور بے فائدہ ہو گیا جبکہ رہی سہی کسر وزیراعظم نے یہ اطلاع دے کر بھی پوری کر دی کہ وہ انڈین وزیراعظم مودی کو باربار فون پر رابطہ کہ کوشش بھی کرتے رہے جو ناکام ہوئی۔ عام حالات میں زیادہ سے زیادہ ریاست کے فائدے کیلئے اگر قیدی کی رہائی کو موخر کرنا ہو یا اسکے بدلے کچھ مطالبات منوانا ہوں جنگ بندی کی یقین دہانی حاصل کرنا ہو تو پارلیمنٹ میں سب جماعتوں کی مختلف رائے سے حکومت عذر تراش سکتی ہے اور ریاست اپنے فوائد کے حصول کیساتھ ہی جذبہ خیر سگالی کے تحت قیدی کی رہائی کا مرحلہ طے کیا جا سکتا ہے۔ لیکن براہ راست اور درست طریقے کے عالمی روابط کی بجائے بدقسمتی سے پس پشت چند طاقتوں کے دباو کی وجہ سے قیدی کی رہائی کا اعلان اتنی عجلت میں ہوا کہ حکومتی رہنما بھی حیران و ششدر رہ گئے۔ ماضی میں بھی جنگی قیدیوں کو رہا کیا جاتا رہا ہے لیکن اسکے لئے دوست ممالک کو باقاعدہ مطالبات کی منظوری اور مستقبل کیلئے ضامن بنایا جاتا رہا ہے، جیسے کارگل جنگ کے دوران بھی ایک پائلٹ گرفتار ہوا لیکن کارگل سے ہمارے شہدا کی لاشوں کے حصول کیلئے اور جنگ بندی کیلئے اسے امریکہ اور دیگر دوست ممالک کے اثررسوخ کیساتھ استعمال کیا گیا۔
قیدیوں کی جذبہ خیر سگالی کے تحت رہائی یقینا مستحسن اقدام ہے، مذہبی تعلیمات ریاستی مفاد اور خطہ کے امن میں اسکی اہمیت مسلمہ ہے لیکن ریاست کیلئے ضروری ہے کہ یہ قدم اسکے وقار اور عالمی برادری میں احترام میں اضافہ کا باعث بنے۔ بدقسمتی سے ہم نے یہ نادر موقع ضائع کردیا اس کا ثبوت بھی ہمیں فورا مل گیا ایک طرف بھارت نے شور مچا دیا کہ پاکستان جھک گیا کیونکہ وہ دہشت گردوں کی امداد کرتا ہے، دوسری طرف جب اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کا اجلاس ہمارے دوست اسلامی ملک متحدہ عرب امارات میں ہو رہا تھا اس ملک کیساتھ ہمارے تعلقات شخصی سطح پر بہترین سمجھے جاتے ہیں کیونکہ یہاں کے شہزادے کے شکار کیلئے ہاکستان وزٹ کے دوران ہمارے وزیراعظم نے انکی گاڑی خود چکا کر انہیں پروٹوکول دیا، لیکن اس اجلاس میں انڈیا کو بطور مہمان بلانے کیلئے اس تنظیم کے بانی رکن پاکستان سے مشاورت بھی نہیں کی گئی، ادھر ہم نے بھی عجلت میں اعلان کر دیا کہ ہم انڈیا کی شمولیت کے باعث اس اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے۔ ایک طرف ہم جذبہ خیر سگالی کے تحت قیدی فورا چھوڑ رہے ہیں اور دوسری طرف انڈیا کی شمولیت کے باعث اجلاس میں شرکت نہ کر کے طرزعمل کا تضاد دنیا کو دیکھا رہے ہیں۔ بہتر ہوتا کہ میزبان ملک کو اپنے تحفظات سے اگاہ کیا جاتا اور پارلیمنٹ کی قرارداد کو عدم شرکت کے وجہ بنایا جاتا تاکہ اسے قومی فیصلے کا درجہ حاصل ہوتا، اس میں وزیر خارجہ کو شرکت سے روکا جاتا لیکن سیکریٹری خارجہ کو اجلاس میں بھیج کر انڈیا کے پراپیگنڈا کا بھرپور جواب بھی دیا جاتا اور دنیا کو بھی پیغام جاتا کہ ہم امن کے خواہاں ہیں کشمیر میں ظلم وستم پر ہم انڈیا کا محاسبہ چاہتے ہیں بلوچستان میں انڈیا کی سرگرمیوں کو بند دیکھنا چاہتے ہیں ان سرگرمیوں کا ثبوت کلبوشن یادیو کا معاملہ بھر پور طریقے سے پیش کیا جاتا، لیکن انڈیا نے ہماری عدم شرکت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں دہشت گرد ملک قرار دیا اور وہاں مطالبہ کیا کہ دہشت گردوں کو تیار کرنے اور پناہ دینے والے ممالک کیخلاف کاروائی ہونا چاہیئے۔ یہ بھی پہلی مرتبہ نہیں ہوا کہ انڈیا نے او آئی سی کے اجلاس میں شرکت کی ہو 1969 میں رباط کانفرنس میں بھی بھارت نے شرکت کی لیکن پاکستان کے موثر احتجاج اور لابنگ کی وجہ سے انڈیا کو اجلاس چھوڑ کر جانا پڑا، اس تنظیم کا رکن بننے کا مطالبہ انڈیا اس دلیل کیساتھ کرتا ہے کہ بھارت میں بہت سے مسلم ممالک سے کہیں زیادہ مسلمان آباد ہیں لہذا دنیا میں مسلمانوں کے مسائل اور بہبود پر بات ہوتو انڈیا کی شمولیت ضروری ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ جو غلطیاں ہو گئیں ان سے سبق سیکھا جائے، اب مسلۂ کشمیر کو اجاگر کرنے بھارت کی دہشتگردی اور پاکستان میں بدامنی کیلئے اسکی سرگرمیوں کو عیاں کرنے کیلئے دنیا بھر میں فوری موثر سفارتکاری کی جائے، اسے قومی مہم کے طور پر تمام پارلیمانی پارٹیوں کو ساتھ شامل کر کے کیا جائے، ممبران سینٹ اور قومی اسمبلی پر مشتمل وفود دنیا بھر میں ایک ایجنڈا لے کر جائیں اور بھارت پر عالمی دباو بنایا جائے۔ پاکستان میں حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو لیکن سب کو یہ یاد رہنا چاہیئے کہ انکا کوئی بھی قدم ریاست پاکستان کے احترام اور وقار کے منافی نہ ہو، عالمی سطح کے معاملات شخصی پسند و ناپسند، شخصی سوچ اور مرضی پر طے نہیں کئے جاسکتے، جب ہم قومی سطح کے معاملات کو پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط رکھیں گے تو جہاں غلطی کے امکانات کم سے کم ہو جائیں گے وہیں عالمی طاقتوں کا دباو بھی حکومتوں اور حکومتی شخصیات پر نہیں چل سکے گا اسی طرح ریاستی مفاد میں درست فیصلے کئے جا سکیں گے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply