کائنات میں ابھی تک شعور کی دولت صرف انسانوں کے پاس ہے۔ دیگر جاندار اور غیرجاندار اس سے محروم ہیں۔ شعور کے متعلق فلسفے میں طویل عرصے سے بحثیں جاری ہیں اور اب اس میں جدید سائنس نے بھی اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا ہے۔
اس کائنات میں جتنا بھی مادہ نظر آتا ہے وہ الیکٹران، پروٹان اور ان جیسے دیگر ذرات سے مل کر بنا ہے۔ انسان کا جسم اور دماغ بھی انہی ذرات نے تشکیل دیا ہے اور ایک مٹی کے ڈھیر میں بھی یہی ذرات کارفرما ہیں۔ سائنسدانوں کے سامنے سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ جب تمام اشیا ایک جیسے ذرات سے مل کر بنی ہیں تو ایسا کیوں ہے کہ ان میں سے صرف انسان کو ہی شعور حاصل ہو گیا جبکہ دیگر تمام اشیا اس سے محروم رہیں؟
اس سوال کا ایک ممکنہ جواب تو یہ ہو سکتا ہے کہ انسان کے پاس شعور موجود نہیں ہے بلکہ یہ کائنات ایک کمپیوٹر سافٹ وئیر پر چلنے والا کھیل ہے جس کے ایک حصے یعنی انسان میں باشعور ہونے کا دھوکہ بھر دیا گیا ہے۔ حقیقت میں وہ بھی دیگر اشیا کی طرح شعور سے بےبہرہ ہے اور سافٹ وئیر کی جادوگری کا ایک بے بس نمونہ ہے۔
اس سوال کا دوسرا ممکنہ جواب یہ ہے کہ شعور انسانی دماغ سے ماورا ایک خاصیت ہے جو دماغ کے رستے سے انسان کو میسر آتا ہے مگر دماغ پر اس کا انحصار نہیں ہے۔ اگر یہ امکان درست ہے تو پھر مرنے کے بعد جب دماغ بھی مردہ ہو جاتا ہے تب بھی شعور ختم نہیں ہوتا بلکہ وہ موجود رہتا ہے۔
اس کی طرف ایک اشارہ قریب المرگی کے تجربات سے گزرنے والے افراد سے ملتا ہے جن کا دماغ عارضی طور پر مردہ ہو جاتا ہے مگر ان کا شعور زندہ رہتا ہے اور وہ ماضی میں فوت ہو جانے والے افراد سے ان کی ملاقات ہوتی رہتی ہے۔
مگر سائنسدانوں کی اکثریت ماورایت کے تصور سے گریزاں رہتی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو سائنس کی مجبوری ہے کہ وہ قابل مشاہدہ اشیاء تک محدود ہے اور دوسری وجہ ماضی کی تاریخ ہے جب سائنسی نظریات پیش کرنے والوں کو مذہبی طبقے کے جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ کئی کو زندہ جلا دیا گیا، بہت سوں پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا جبکہ زیادہ تر خوف کی وجہ سے اپنے نظریات چھپاتے رہے۔
جب کلیسا کی طاقت کمزور پڑی اور اظہار رائے کی آزادی میسر آئی تو سائنس میں بھی مذہب یا ماورایت کے خلاف ایک ردعمل پیدا ہوا جو آج تک جاری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بےشمار پیرانارمل واقعات رپورٹ ہوتے ہیں، ان پر تحقیق کی جاتی ہے اور وہ سچ ثابت ہوتے ہیں، اس کے باوجود سائنس یا تو ان سے انکار کرتی ہے یا پھر انہیں تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتی ہے۔اس کے پیچھے ماضی کے تجربات کا خوف کارفرما ہے۔
انسانی شعور سے جڑا ایک تصور انسان کی آزادی کا ہے۔ کیا انسان اپنے افعال میں آزاد ہے یا وہ پوری طرح بے اختیار ہے؟ یہ بھی فلسفے کا سوال تھا جسے اب سائنسدان حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان کے سامنے مسئلہ وہی ہے کہ انسان جن ذرات سے مل کر بنا ہے وہ فزکس کے قوانین اور ریاضی کی مساوات کے پابند ہیں اور ان سے باہر نہیں جا سکتے۔ یہاں بھی سوال وہی ہے کہ اگر ذرات پابند اور مجبور ہیں تو ان سے بنا ہوا انسان کیسے بااختیار ہو سکتا ہے؟
اس مرحلے پر سائنس ان سوالوں کے جواب دینے سے قاصر ہے۔ راجر پنروز جیسے سائنسدانوں نے اس کا جواب کوانٹم فزکس اور انسانی دماغ کے نیوران میں تلاش کرنے کی کوشش کی ہے مگر انہوں نے شعور اور اختیار کی جو توجیہہ پیش کی ہے، اس پر دیگر سائنسدانوں نے تنقید کر کے اسے غلط ثابت کر دیا ہے۔
بظاہر یوں لگتا ہے کہ سائنس ہچکچاتے ہوئے اس میدان میں قدم رکھنے جا رہی ہے جہاں قابل مشاہدہ کائنات سے ماورا کئی راز پنہاں ہیں۔ اس پر وقت لگے گا مگر دھیرے دھیرے سائنس اپنے خول کو توڑ کر ان حقائق کو تسلیم کرنے لگے گی جن کے متعلق صدیوں سے مذہبی رہنما اور تصوف سے جڑے افراد بات کرتے رہے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں