بجلي بني جان کي دشمن

تحرير: محمد لقمان

کرنٹ لگنے سے پاکستان اور برصغير کے ديگر حصوں ميں ہلاکتوں کي تاريخ اتني ہي پراني ہے جتني کہ بجلي کے نظام کي ۔ بيسويں صدي ميں دنيا کے ديگر ممالک کي طرح يہاں پر بھي بجلي کي فراہمي کے لئے کھلي فضا ميں کھمبے لگائے گئے ۔ ہائي ٹينشن اور تقسيم کار تاروں کے ذريعے ترسیلی نظام بنایا گیا ۔ وقت بدلنے کے ساتھ دنيا بھر ميں بجلي کا نظام زير زمين چلا گيا ۔ليکن پاکستان اور برصغير کے ديگر ممالک کھلے کھمبوں اور ہوا ميں لٹکے تاروں کے ذريعے ہي بجلي فراہم کي جاتي رہي ہے۔ پاکستان ميں اسلام آباد ايسا شہر ہے جہاں زير زمين بجلي کي فراہمي کا تجربہ کيا گيا۔ چند نجی ہاوسنگ اسکیموں میں بھی ترسیلی نظام زیر زمین ہے تاہم بیشتر شہر بوسیدہ تاروں اور پرانے کھمبوں کے ذریعے ہی بجلی حاصل کررہے ہیں ۔ يہي وجہ ہے کہ لاہور ، کراچي اور ديگر بڑے شہروں ميں آبادي بڑھنے کے ساتھ بجلي کي تنصيبات ميں بھي اضافہ ہوا۔ گھروں کي تعمير کرتے ہوئے اس بات کا بہت کم خيال کيا گيا ہے کہ بجلي کا ہائي ٹينشن ٹاور اور تاريں کتنے فاصلے سے گذرتي ہيں۔ کئي جگہوں پر تو اگر کسي نے کسي بڑے کھمبے کے اندر ہي رہائش اختيار کرلي تو اس کو ضلعي حکومت اور واپڈا کے اہلکاروں نے کبھي منع نہيں کيا۔ يوں وقت گذرنے کے ساتھ انسان اور بجلي کے ترسيلي نظام کے درميان قربت ميں اضافہ ہوتا ہي چلا گيا۔

اندروں لاہور ميں جہاں کھمبے عمارتوں سے بغل گير ہيں تو وہيں بجلي کے تار اتنے ہي الجھے ہوئے ہيں جتنے کے مملکت خداداد کے سياسي معاملات۔ شاہ عالم مارکيٹ، اعظم کلاتھ مارکيٹ اور سرکلر روڈ پر جب بھي آتشزدگي ہوتي ہے تو اس کي عمومي وجہ شارٹ سرکٹ ہي قرار ديا جاتا ہے۔ يوں اربوں روپے کا مال چند منٹوں ميں خاکستر ہوجاتا ہے اور کئي قيمتيں جانيں ضائع ہوجاتي ہيں۔ ليکن کوئي اس سے سبق سيکھنے کو تيار نہيں۔ برسات کا موسم شروع ہونے کے بعد تو ہر سال کرنٹ لگنے سے ہونے والي ہلاکتوں ميں اضافہ ہوجاتا ہے۔ تاروں کے قريب سے انسان گذرے يا جانور، اکثر جان سے جاتے ہيں۔یہاں تک کہ چھت پر سوئے ہوئے افراد پر بجلی کے تار ٹوٹ کر گرنے سے بھی جان چلی جاتی ہے۔ پچھلے ايک ہفتے کے دوران صرف لاہور ميں چھ افراد بجلي کا کرنٹ لگنے سے لقمہ اجل بن چکے ہيں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اگر پنجاب بھر کے ايک ہفتے کے اعداد و شمار ديکھيے جائيں تو پچاس کے قريب افراد بجلي کے کرنٹ کا شکار ہو چکے ہيں۔ ريسکيو ون ون ٹو ٹو نے پچھلے نو ماہ ميں لاہور ميں کرنٹ لگنے سے مرنے والے دو سو پچانوے افراد کو ہسپتالوں اور مردہ خانوں تک پہنچايا۔ صارفين کے علاوہ تقسیم کار کمپنیوں کے اہلکار بھي ترسيلي نظام کي مرمت کرتے ہوئے جاں گنوا بيٹھتے ہيں۔ ليسکو ريجن ميں پچھلے تين سال ميں چاليس سے زائد لائن مين فرض کی ادائیگی کے دوران ہی داعی اجل کو لبیک کہہ بیٹھے ہیں۔
بجلی کے حادثات کی ذمہ داری صرف تقسیم کار کمپنیوں اور واپڈا کے محکمہ پر ہی ڈالی نہیں جاسکتی۔ گھروں کے باہر گذرنے والی بجلی کی تاروں پر اگر کوئی دھلے ہوئے کپڑے سکھانے کے لئے ڈالے گا تو کتنی دیر تک وہ محفوظ رہ سکتا ہے۔ کھمبوں کے ساتھ لوہے کی چارپائی بچھانے سے جھٹکا تو لگے گا ہی۔ رہی سہی کسر بجلی سے چلنے والے غیر معیاری آلات کے استعمال سے پوری ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر خواتین کو کرنٹ اس وقت لگتا ہے جب وہ کپڑے استری کرتی ہیں۔ الیکٹرک فین، ایر کولر اور واٹر پمپ کو چلاتے ہوئے اکثر حادثات ہوجاتے ہیں۔ دیہات میں چارہ کاٹنے والے ٹوکے میں برقی رو دوڑنے سے بھی سانس کی ڈوری کٹ جاتی ہے۔ اتنی ساری اموات پر حکومت اور تقسیم کار کمپنیوں کا رد عمل بڑا ہی روایتی رہا ہے۔ حکومتی اہلکار مرنے والوں کے لواحقین میں امدادی رقم تقسیم کردیتے ہیں جبکہ تقسیم کار کمپنی کا سربراہ کچھ اہلکاروں کو معطل کردیتا ہے۔ لیکن جان لینے والا بجلی کا کھمبا وہیں کا وہیں کھڑا رہتا ہے۔ ٹوٹے تار جوڑ دیئے جاتے ہیں۔ لیکن مستقل حل نکالا نہیں جاتا ۔ بجلی سے ہلاکتوں کو صرف دور رس فیصلے کرنے سے ہی روکا جاسکتا ہے۔ صرف ایسی ہاوسنگ کالونیوں کی تعمیر کی اجازت دی جائے جو ہائی ٹینشن وائرز سے دور ہوں ۔ گھروں کے بالکل ساتھ موجودہ کھمبوں اور تاروں کو دور کردیا جائے اور عوام میں بجلی سے ہونے والے حادثات کے بارے میں آگہی پیدا کی جائے۔ بصورت دیگر گھروں سے جنازے اٹھتے ہی رہیں گے اور معاملہ صرف حکام کو کوسنے تک ہی محدود رہے گا۔

Facebook Comments

محمد لقمان
محمد لقمان کا تعلق لاہور۔ پاکستان سے ہے۔ وہ پچھلے 25سال سے صحافت سے منسلک ہیں۔ پرنٹ جرنلزم کے علاوہ الیکٹرونک میڈیا کا بھی تجربہ ہے۔ بلاگر کے طور پر معیشت ، سیاست ، زراعت ، توانائی اور موسمی تغیر پر طبع آزمائی کرتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply