یونیفارم کی عزت۔۔۔عزیز خان

جمعہ کو میں لاہور سے ملتان کے لیے نکلا، شام تقریباً آٹھ بجے جب ٹھوکر نیاز بیگ سے تھوڑا آگے پہنچا تو ٹریفک آہستہ چل رہی تھی میرے آگے سفید رنگ کی ہُنڈا سوک کار جارہی تھی، ٹریفک پولیس والوں نے سڑک کی ایک سا ئیڈ بند کی ہوئی تھی اور ایک طرف ہی دوطرفہ ٹریفک چل رہی تھی۔

جب ہم موٹر وے پُل کراس کر کے کافی آگے نکل آئے تو اچانک سفید ہُنڈا کار نے بریک مار دی میں نے بڑی مشکل سے بریک لگائی سامنے موٹر وے کی ایک خاتون آفیسر شدید گرمی اور حبس میں ڈیوٹی کر رہی تھی ،دوڑ کے آئی کیونکہ ساری ٹریفک رُک گئی تھی۔

خاتون آفیسر کار میں بیٹھے افراد سے کوئی بات کر رہی تھی، میں نے غور کیا تو ڈرائیونگ سیٹ پر ایک لڑکی تھی اور ساتھ والی سیٹ پر بھی ایک خاتون تھیں جبکہ پچھلی سیٹ سے ایک لڑکا اُترا جو شاید ڈرائیور تھا۔

چار پانچ منٹ گزر گئے، خاتون اہلکار اشارہ کر رہی تھیں کہ آپ گاڑی آگے لے جائیں جبکہ کار میں بیٹھی خاتون بھی شیشہ نیچے کر کے کُچھ بول رہی تھی۔

مجھ سے رہا نہ گیا تو میں بھی اُتر کر چلا گیا، پاس جا کر معلوم ہوا کہ وہ خاتون جو شیشہ اُتار کر بات کر رہی تھیں اور جن کی آواز دور تک جا رہی تھی اور کافی سخت لہجے میں موٹر وے کی اہلکار کو کہہ رہی تھی  کہ میرنام عائشہ احد ہے اور میں حمزہ شہباز کی بیوی ہوں میں نے موٹر وے سے اسلام آباد جانا ہے تم گاڑیاں ہٹوا کے مجھے موٹر وے کے راستہ تک واپس لے جاؤ۔

خاتون پولیس اہلکار کہہ رہی تھیں کہ میڈم ٹریفک پہلے جام ہے آپ سامنے کُچھ فاصلہ سے یو ٹرن لے کر واپس آجائیں جبکہ خاتون جو خود کو عائشہ احد کہہ رہی تیں بضد تھیں کہ وہ یہیں سے ون وے توڑ کر واپس جائیں گی۔
لیڈی پولیس آفیسر کے ایسا نہ کرنے پر عائشہ احد نامی خاتون نے لیڈی پولیس آفیسر کو گالیاں دینا شروع کر دیں ۔
میں حیران تھا کہ وہ اہلکار گالیاں بھی کھا رہی تھی، رو بھی رہی تھی اور میڈم میڈم کہے  جا رہی تھی۔۔
اتنی دیر میں موٹر وے پولیس اہلکار خاتون نے اپنا موبائل فون نکالا اور ویڈیو بنانے کی کوشش کی تو کار والی عائشہ احد نامی خاتون نے افسر کو گندی اور غلیظ گالیاں اور دھمکیاں دیتے ہوئے اپنا شیشہ اُوپر کیا اور ساتھ بیٹھی  لڑکی جس کی عمر کافی کم لگ رہی تھی کو چلنے کا اشارہ کیا جس نے کار موٹر وے پولیس کی افسر خاتون کے پاوں پر چڑھا دی اہلکار بڑی مُشکل سے گرنے سے بچی۔
میں حیران تھا کہ موٹر وے پولیس کے افسران اپنی خاتون افسران کی اس طرح ڈیوٹیاں لگاتے ہیں اکیلی لڑکی اندھیرے میں ڈیوٹی کر رہی ہے ساتھ کوئی  مرد اہلکار  بھی نظر نہیں آیا ۔۔کیا یہ عزت ہے اس مُلک میں یونیفارم ملازمین کی ؟

کیونکہ پیچھے کھڑی گاڑیوں نے ہارن دینا شروع کر دیے ،میرے ساتھ کھڑے دوسرے مسافر بھی اپنی اپنی گاڑیوں کی طرف چلے گئے، میں بھی اپنی کار میں آکر بیٹھ گیا اور روانہ ہو گیا ۔

راستہ بھر میں اس واقعہ کے بارے میں سوچتا ضرور رہا ،اپنی زندگی میں بڑے لوگوں کی پولیس والوں سے بدتمیزی کئی دفعہ دیکھنے اور سُننے کا اتفاق ہوا پر اس طرح ایک طاقت اور اقتدار کے نشہ میں مست خاتون کا کسی اکیلی یونیفارم میں ملبوس  لیڈی پولیس افسر کو دوران ڈیوٹی بے عزت کرتے پہلی دفعہ دیکھا ۔
ملتان گھر پہنچ  کر میں نے ٹی وی آن کیا تو ARY چینل پر خواجہ رمضان نزیر نمائندہ کی زبانی خبر چل رہی تھی کہ رابیعہ اسلم نامی موٹر وے انسپکٹر نے عائشہ احد سے بد تمیزی کی اور ان کی گاڑی کی ویڈیو بنائی اور ساتھ ہی ترجمان موٹر وے پولیس کا بھی بیان تھا کہ موٹر وے پولیس میں کسی اہلکار کو کسی سے بد تمیزی کی اجازت نہیں ہے

مجھے یہ خبر دیکھ کر بہُت دُکھ ہوا کہ اب بھی حکمران خاندان کے یہ لوگ اتنے طاقتور ہیں جبکہ حکومت بھی ان کی نہیں مگر ان کی بات آج بھی سب سُنتے ہیں۔

حمزہ شہباز کو ذلیل کرنے والی خاتون کا آج بھی اتنا اثر ورسوخ ہے کہ وہ کُچھ بھی کر سکتی ہے اور ان کی خبر کسی بھی نیوز چینل پہ بریکنگ نیوز ہوتی ہے۔

میں اُس پولیس اہلکار لڑکی کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ وہ بھی عورت ہے وہ بھی کسی کی بیٹی، بہن یا بیوی ہو گی۔۔

پر نہ تو اُس کا پاپ احد جیسا ہے نہ اُس کا سسُر شہباز شریف جیسا ہے نہ اُس کا خاوند حمزہ جتنا با اثر ہو سکتا ہے ۔
اور صف نازک سے سڑکوں پر اس طرح کی ڈیوٹی لینا کیا ارباب اختیار کو زیب دیتا ہے؟

اب یہ ہو گا کہ موٹر وے کے افسران اسی لڑکی کو سسپینڈ کر دیں گے یا نوکری سے ہی فارغ کر دیں کیونکہ اُس کا قصور یہ ہے کہ اُس نے عائشہ احد کو پرٹوکول  نہیں دیا۔

اور تمام حقیر لوگوں کی گاڑیوں کو ہٹا کر کار کے سامنے ہوٹر بجا کر راستہ کیوں نہیں بنوایا ،عائشہ احد کے حکم کو ماننے سے کیوں انکار کیا
حمزہ شہباز دوبارہ برسر اقتدار آسکتے ہیں، وہ تو پہلے ہی دھمکیاں دے رہے ہیں آخر ان افسران بالا نے اس خاتون اہلکار کی قربانی دے کر اپنی نوکری تو بچانی ہی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

کس نے پوچھنا ہے کہ رابیعہ اسلم کس کی بیٹی ہے جو گالیاں بھی کھا رہی تھی رو بھی رہی تھی اور اب اپنے افسران کی گالیاں بھی کھائے گی اور اپنی بے گناہی بھی ثابت نہ کر پائے گی کیونکہ اُس کا کوئی گواہ ہی نہیں سوائے اللہ کے۔
میری آئی جی پنجاب آئی جی موٹر وے سے گزارش ہے کہ اس واقعہ کی خود تحقیقات کروائیں۔
اپنے محکمے کے ملازمین کو عائشہ احد جیسے طاقتور ،مغرور اور بااثر لوگوں سے بچائیں اور اپنی یونیفارم کی عزت خود بھی کریں اوردوسروں سے بھی  کروائیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”یونیفارم کی عزت۔۔۔عزیز خان

  1. الساکت علی الحق، الشیطان الاخرس۔
    حق سچ پر خاموشی اختیار کرنے والا گونگا شیطان ہوتا ہے-

    I am sorry to say, as a renowned citizen; you have not done your duty.

Leave a Reply