ہوٹلوں میں موت کا کاروبار۔۔۔۔۔ طاہر حسین

ج دل بہت اداس ہے اور اداسی کا سبب معصوم بچوں کے وہ چہرے جو رہ رہ کر آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔ اولاد سے بڑھ کر ہے بھی کیا کہ جو قدرت کا وہ تحفہ جو جان نچھاور کرنے سے کم تو ڈیزرو ہی نہیں کرتا۔
کراچی میں ریسٹورنٹ کا زہریلا کھانا کھانے سے بچوں کی موت۔ ایسا ہی واقعہ کچھ دن قبل بھی ہوا تھا۔ سب روئے، بلبلائے مگر بعد ازاں خاموشی مگر ان معصوموں کے چہرے باربار آنکھوں کے سامنے آتے ہیں۔

اکثر سمجھا جاتا ہے کہ ٹھیلوں اور سٹالوں پر بکنے والی اشیاء خورد و نوش کمتر معیار کی ہوتی ہیں لیکن اس قتل عام میں کوئی بھی پیچھے نہیں۔ کیسا کیسا زہر ہے جو ہم بخوشی خرید کر اپنے بچوں کو کھلاتے ہیں، خود کھاتے ہیں اور اس پر مسرور بھی ہوتے ہیں۔ کیا ہم جانتے نہیں کہ ان جگہوں پر حفظان صحت کے معیار کس قدر گھٹیا ہیں۔

ایک روز پنج ستارہ ہوٹل کے ڈرٹی کچن میں جانے کا اتفاق ہوا۔ فضا میں وہ غلیظ بدبو کہ سانس روکنا بھی محال تھا۔ باہر کا کھانا میں انتہائی مجبوری کے علاوہ نہیں کھاتا کہ اکثر ناخوشگور تجربوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ گذشتہ ماہ ایک دوست کے ساتھ مشہور فوڈ چین کے ریستوران میں کھانے کیلئے گیا۔ دوسرے نوالے پر ہی دوست نے ایک انسانی بال کھانے سے نکال کر سامنے رکھ دیا۔ بمشکل ابکائی کو روکا، شکائت بھی کی مگر فائدہ؟

ایک روز پیزا آرڈر کیا۔ کریسٹ میں کچی ڈو صاف نظر آ رہی تھی۔ دوبارہ سے بیک کرنے کا کہا جو بادل نخواستہ کر بھی دیا گیا لیکن ریسٹورنٹ سے واپسی پر آدھے پیزا خور اسپتال میں تھے۔ میرا معدہ چونکہ ڈھیٹ تھا تو گزارا ہو گیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ ریسٹورنٹ انتظامیہ نخرے باز گاہکوں کا ایسے ہی بندوبست کرتی ہے۔

موٹر وے پر ایک مقامی برانڈ کی برگر شاپ سے بچوں کی ضد سے مجبور ہو کر فرنچ فرائز لے کر دئیے کہ یہی قدرے قابل خرید محسوس ہوئے اور پھر سارا راستہ نڈھال بچوں کی قے کو صاف کرتا رہا۔

ایک مشہور چین سے چائے آرڈر کی۔ دو کپ چائے کی قیمت وہ وصول کی گئی کہ جس سے گھر میں کم از کم تیس افراد کے لئے چائے بنائی جا سکے لیکن پہلے گھونٹ کے بعد کپ رکھ دیا کہ چائے سے ناقابل برداشت بدبو آ رہی تھی۔

بازاری کھانے میں استعمال ہونے والے اجزاء کی کوالٹی کا معیار کیا ہے؟ یہ ہم بخوبی جانتے ہیں۔ سڑے ہوئے قیمے میں میتھی ڈال کر اسکی بد بو ختم کرنا، خدا جانے کس کس گھٹیا قسم کے مصالحے اور تیل کا استعمال، فوڈ ہینڈلرز کی پرسنل ہائجین، الغرض کچھ بھی تو سیدھا نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

غیر ملکی فاسٹ فوڈ چینز ہر اگرچہ صورتحال کچھ بہتر ہے لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی نمک کی کان میں نمک ہوتے جا رہے ہیں۔
تو اس کا حل کیا ہے۔ حکومتی اقدامات، شائد ہمیشہ ناکافی ہی ہوں گے۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟ باہر کے کھانے سے بھوکا رہنا بہتر۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply