مریم ارشد کےخط کا جواب ڈاکٹر خالد سہیل کے قلم سے ۔۔

کہانیوں پر مشتمل ایک خط
5جولائی 2019ء
محترم ڈاکٹر صاحب! تسلیمات! امید کرتی ہوں آپ خیریت سے ہوں گے۔ آپ کی کتاب “درویشوں کا ڈیرہ “نے دنیا کے کونے کونے سے نہ صرف مداح پیدا کیے، بلکہ ایسے بہت سے لوگ بھی سامنے آئے جو اپنی اپنی گزارشات کی چٹھیاں دلوں میں لیے ٹامک ٹوئیاں مار رہے تھے۔ جونہی اس کتاب کی شکل میں اک روشنی کی کرن دکھائی دی تو سب  دوڑ پڑے۔ لگے لکھنے خط۔۔۔۔ میں بھی انہی لوگوں میں سے ایک ہوں۔

ڈاکٹر صاحب! آپ نے لوگوں کے لیے ایک نیا رُحجان وضع کیا ہے ورنہ ماہرِ نفسیات تو ہر سوال کی فیس لیتے ہیں۔۔۔۔ کہا تو ایسے ہی جاتا ہے۔ لیکن آپ ایک درد مند انسان دوست  شخصیت ہیں اور آپ کی درویشی لوگوں کے بکھرتے ہوئے خیالات و تصورات کو ایک  نیا رُخ دیتی ہے ،خواہ وہ کسی کے لیے مثبت ہو اور کسی کے لیے منفی۔

جی تو ڈاکٹر صاحب! مجھے پہلے رنگوں سے عشق ہوا پھر مصوری میری رگ رگ میں سر سرانے لگی۔ مجھے اچھے سے یاد ہے بچپن  میں ماں سے چُھپا کر تصویریں بنایا کرتی تھی، ماں مجھے حساب اور سائنس کا کام کرنے کو دیتی تھی اور میں کاپیوں میں چوری چوری ڈرائنگ بنایا کرتی تھی۔ پھر کچھ اور بڑی ہوئی تو لفظوں سے محبت ہو گئی، نظمیں اور کہانیاں دل کی اتھاہ گہرائیوں تک اُتر گئیں مگر تب پکڑے جانے پر ماں سے خُوب پٹائی ہوئی۔ بچپن میں ہم جس ریلوے کالونی گریفن میں رہتے تھے وہاں قریب ایک چرچ تھا۔ صبح اس کی گھنٹیوں کی آواز، دوپہر میں ہمارے آنگن میں لگی انگوروں کی بیل پہ آتی مکھیوں کی بھنبھناہٹ، امرود اور آم کے پتوں سے ٹکراتی خستہ ہوا کی سرسراہٹ، پائیں باغ کی سبزیوں پہ سرکتے مکوڑوں کی  چہل پہل ، بُلبُل کی چہک، کوئل کی کُو کُو، مخملیں  گھاس پہ چلنے کا نرم احساس ۔۔۔۔یہ سب مجھے کہانیاں کہنے پہ مجبور کرتا ۔

مجھے سنڈریلا کی کہانی کے Pumpkin، چُوہے، فَیری گاڈ مدرکی جادُو کی چھڑی سے زیادہ اس کے لفظوں کی بُنت سے دلچسپی تھی۔ میں آج بھی پریوں کی اس کہانی ،سنڈریلا کے لفظوں کی ساخت کے سحر میں مُبتلا ہوں۔ مجھے آج بھی اس رقص گاہ جہاں سنڈریلا اپنے خوابوں کے شہزادے کے ساتھ رقص کر رہی تھی کی دھمک اور گھڑیال کے بارہ بجے کے گھنٹے کی  گجر  سنائی دیتی ہے۔ لیکن افسوس جب میری زندگی میں رقص کرنے کی گھڑی آئی تو میرے دونوں جُوتے غائب تھے۔ ڈُھونڈنے والا مجھ تک پہنچتا بھی تو کیسے ،کوئی نشان ہی نہ تھا!

ڈاکٹر صاحب! بینا بھی نابینا کیسے ہو جاتے ہیں؟

مجھے بچپن ہی سے آرٹسٹ بننا تھا مگر ماں مجھے ڈاکٹر بنانا چاہتی تھی لیکن پھر پاپا بیچ میں آگئے اور انہوں نے مجھے این۔سی۔اے بھجوا  دیا، یوں میرا ایک خواب تعبیر کی پہاڑی پہ چڑھ گیا۔ لیکن اصل میں بہت سے خواب یادوں کی سُرنگ میں آج بھی اُدھورے پڑے ہوئے ہیں۔ میں جب بھی یادوں کی اُس سُرنگ سے گزرتی ہوں تو وہی خواب جگنوؤں کی طرح جگمگانے لگتے ہیں راہ میں روشنی سی ہو جاتی ہے۔ میں نے انٹر میں فلاسفی کے مضمون میں فرائڈ کو پڑھا تھا اب کچھ زیادہ تو یاد نہیں بس اتنا کہ اس نے کہا تھا خواب لاشعور میں چپکے ہوئے وہ خیالات ہوتے ہیں جن کی آپ تعبیر پانا چاہتے ہیں۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

ڈاکٹر صاحب! مجھے لگتا ہے میرا چُناؤ اوپر کہیں آسمانوں سے ہوا ہے لیکن مجھے  یہ بھی  لگتا ہے کہ  میں ابھی بھی بے ہُنر ہوں۔ مجھے زندگی میں ہر چیز طویل ، صبر  آزما جدوجہد  کے بعد اور  مشکلیں جھیل کر ملتی ہے۔
میرا وہ کردار جس کو میں نے زندگی کے فریم میں رنگ برنگے دھاگوں سے ٹانکا ٹانکا کر کے بُنا ہے شاید وہ ٹانکے بُزدلی کے دھاگوں سے کاڑھے گئے تھے۔
پھر اگلے ہی لمحے میں انہیں دوبارہ دلیری اور سُچے ریشم سے کاڑھنے کی کوشش کرتی ہوں پھر تھک جاتی ہوں۔ خُود کو اور کتنا اُدھیڑوں اور بُنوں؟ بتائیے!

کبھی کبھی لگتا ہے مجھے اپنے ہی ابہام میں سُرور آتا ہے اور میں اس کو جان بُوجھ کر طُول دینا چاہتی ہوں شاید۔۔۔۔
کیا میں آزاد پیدا ہوئی تھی؟۔۔۔۔ اس سوال کا جواب مجھے ہمیشہ نفی  میں ملتا ہے۔ نوزائیدہ بچی کے طور پر میں ماں کی گود میں پلی اور پھر ان رسموں رواجوں کی چھتر چھایا تلے جوان ہوئی جو خاندان اور سماج کی پہچان تھے مگر میں ان سے متنفر تھی۔ زندگی لیکن رواں دواں تھی اس کے بہاؤ میں کہیں کمی نہیں آئی۔ خود کی تلاش ہُنوز جاری ہے رستہ بھی معلوم ہے پَر قدم اُٹھائے نہیں جاتے، جمائے نہیں جاتے۔ کیوں ہماری زندگیوں کو اور لوگ جینا چاہتے ہیں وہ کیوں ہم پر اپنے اصول لاگُو کرتے ہیں۔یہاں کسی شاعر کا شعر یاد آ رہا ہے:
جنہیں ہم کہہ نہیں سکتے جنہیں تم سُن نہیں سکتے
وہی باتیں ہیں کہنے کی وہی  باتیں ہیں سُننے کی۔۔۔

ہم سیدھی بات نہ بولتے ہیں نہ سُنتے ہیں ۔۔ہم کیوں ایک دوسرے کو سننے اور کہنے کا موقع نہیں دیتے ،صرف اپنے حکمیہ جُملے بول دیتے ہیں۔ جب زندگی میں تلخیاں بڑھ جاتی ہیں تو سکون کے امکانات کو باہمی تقابل کے آئینے میں تلاش کرتے ہوئے اپنا عکس بھی اکثر دُھندلا سا جا تا ہے۔ ہمارے لاشعور میں جمع شدہ جذبات شاید شعور کی تہوں میں چُھپے وہ احساسات ہوتے ہیں جن کے پورا ہونے کا ہمیں مسلسل انتظار رہتا ہے۔

ڈاکٹر صاحب! مجھے لگتا ہے میرا مسئلہ ہے کہ میں ایک منفرد مصنف کی طرح لکھنا چاہتی ہوں اور ایک دانش ور کی طرح، impressionist painter کی طرح پینٹگنز بنانا چاہتی ہوں اور میں باتیں بالکل ایک بچے کی طرح کرتی ہوں۔ پوری دنیا کی سیر میرا خواب ہے میں اطالیہ کا مرکزی شہر اور ٹسکنی کا دارالحکومت فلورینس دیکھنا چاہتی ہوں، یونان کا قدیم آرٹ چُھو کر محسوس کرنا چاہتی ہوں، ہسپانیہ کی مسجدِ قرطبہ جو اُندلس میں واقع ہے اس کے گنبدوں کی گونج سُننا چاہتی ہوں، باسفورس کے نیلے پانیوں کی ٹھنڈک اپنے دل میں اُتارنا چاہتی ہوں سکاٹ لینڈ کے جزیروں کے ڈرامائی رنگ دیکھنا چاہتی ہوں۔ دریائے دینوب کے کنارے بسے شہروِی آنا کے قدیم چرچ کی تعمیرات سراہنا چاہتی ہوں۔

لیکن ساری زندگی کیا میں زندہ رہنے کا فن کھوجتی رہوں گی۔ ۔۔۔؟میں ایک وقت میں بہت سے کام کرنا چاہتی ہوں یعنی ٹی۔ وی سُنتے ہوئے کتاب پڑھتی ہوں، کتاب پڑھتے پڑھتے پھر پینٹنگ کرنے لگتی ہوں اور پھر کوئی کہانی بُننے لگتی ہوں۔۔۔

میں ایک ملُوک سی زندگی کی سطح پہ کئی زندگیاں کرنے کی تگ و دو میں لگی رہتی ہوں۔ کیا ایک ماہرِ نفسیات ایک مصور اور ایک مصنف کی طرح اس طرح کھوج لگاتا ہے کہ اسے بالآخر ٹوٹی ہوئی زنجیر کا سرا مِل جاتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب! کیا آپ میرے خوابوں کی منظروں کی خواہشوں سے میرے گم کشتہ وجود کا بیج تلاش کرنے میں میری مدد کریں گے؟

میں اپنے خوابوں کی تخلیق کے لیے اپنی مٹی کو استوار کرنا چاہتی ہوں کہ مجھے سفر کے ساتھ ساتھ خاکستر ہونے سے ڈر لگتا ہے۔

کیا مجھے باقی ماندہ خوابوں کو پورا کرنے کے لیے کسی اور جنم کا انتظار کرنا پڑے گا؟۔۔۔۔ میں اپنے رنگ ریز سے اپنا من رنگنے کی استدی کرتی رہتی ہوں لیکن جواب سنائی نہیں دیتا۔ ڈاکٹر صاحب! آپ مانتے ہیں کہ آپ درویش ہیں تو بتائیے روحانیت اور تصوف کا  آج کل وہی مطلب ہے جو پہلے تھا یا بدل چکا ہے؟
کیا پرانے منصوبوں کو چھوڑ دینے کی کوئی مجبوری ہوتی ہے؟
کایا کلپ ہونے کے لیے کتنی طاقت چاہیے ہوتی ہے؟
سچائی کو اپنانے سے ہم سب لوگ اتنا خوفزدہ کیوں ہوتے ہیں؟ ذاتی جوہر شناسی سے شناسائی کیونکر ممکن ہے؟
میرے دل و دماغ میں بے شمار سوالات لمحہ بہ لمحہ ٹکراتے رہتے ہیں؟۔۔کیا یہ ضروری ہے کہ انفرادیت کی تعمیر کے لیے آپ اجتماعیت سے ٹکراتے رہیں؟

اس بات پر خط کا اختتام کرتی ہوں کہ سوالات کا یہ سلسلہ جوابات کی ٹھنڈی پُھوار کی شکل میں واپس آئے گا۔ ڈاکٹر صاحب! آج ایک ہی دن میں بہت سے سوال کر ڈالے آپ پریشان تو نہیں ہوں گے ناں
! زندگی بخیر!
مریم ارشد

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

محترمہ مریم صاحبہ !

آپ نے ” درویشوں کا ڈیرا” پڑھا اور خطوط کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔

مجھے اب تک دس سے زیادہ لوگوں کے خطوط وصول ہو چکے ہیں۔ان میں سے کچھ خطوط ادبی ہیں کچھ نفسیاتی ’ کچھ درویشانہ ہیں کچھ دانشورانہ اور میں سب کے جواب دینے کی کوشش کر رہا ہوں۔ میں ان سب کو جمع کر کے اپنی اگلی کتاب تیار کروں گا جس کا نام ہوگا۔۔۔ادبی محبت نامے۔۔۔اس میں آپ کا ادبی محبت نامہ بھی شامل ہوگا۔

مجھے آپ کا خط پڑھ کر اندازہ ہوا کہ آپ کے اندر بچپن سے ایک فنکارہ اور ادیبہ چھپی بیٹھی  تھی جسے جب بھی موقع ملتا وہ اپنا تخلیقی اظہار کرتی۔

آپ کی ماں بھی پاکستان کی بہت سی ماؤں کی طرح اپنے بچوں کو ڈاکٹر یا انجینئر  بنانا چاہتی تھیں فنکار نہیں کیونکہ انہیں یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ فنکار بھوکے مر جائیں گے۔یہ تو اچھا ہوا کہ آپ کے ابو نے آپ کو فنونِ  لطیفہ کے کالج میں داخل کروا دیا تا کہ آپ ایک کامیاب فنکارہ بن سکیں۔

آپ نے اپنے خط میں آزادی کا ذکر کیا ہے میری نگاہ میں  ۔۔

پہلے ہم اپنے ذہن میں آزادی کے بارے میں سوچتے ہیں۔۔

پھر ہم اپنے دل میں آزادی محسوس کرتے ہیں

اور پھر ہم آزاد زندگی گزارتے ہیں۔

ہم میں سے ہر ایک کو آزادی کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ کسی کا خاندان جتنا روایتی ہوگا اور معاشرہ جتنا مذہبی ہوگا اس کو آزادی کی اتنی ہی زیادہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔

اگر آپ ایک آزاد اور خود مختار دانشور اور فنکار کی زندگی گزارنا چاہتی ہیں تو آپ کو یہ جاننا ہوگا کہ آپ کی آزادی کی قیمت کیا ہے اور کیا آپ وہ قیمت ادا کرنے کے لیے تیار ہیں؟

میں اس تکلیف دہ حقیقت سے باخبر ہوں کہ مشرق میں ایک عورت کا آزادی حاصل کرنا مغرب میں ایک مرد کے آزادی حاصل کرنے سے بہت زیادہ مشکل ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ چاہے مشرق ہو یا مغرب عورت ہو یا مرد آزادی حاصل کرنے کے لیے چار اقدامات کرنے پڑتے ہیں۔۔

پہلا قدم۔۔۔معاشی آزادی

دوسرا قدم۔۔۔جذباتی آزادی

تیسرا قدم۔۔۔سماجی آزادی

چوتھا قدم۔۔۔تخلیقی اور فنی آزادی

اگر آپ آزادی کی قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں تو آپ کو ایک آزاد اور خود مختار فنکار اور دانشور بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔۔

جوش ملیح آبادی کا قطعہ ہے۔۔

سنو اے ساکنانِ خاکِ پستی

صدا یہ آ رہی ہے آسمان سے

کہ آزادی کا اک لمحہ ہے بہتر

غلامی کی حیاتِ جاوداں سے

آپ کا ادبی دوست!

خالد سہیل!

Advertisements
julia rana solicitors

۷ جولائی ۲۰۱۹

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”مریم ارشد کےخط کا جواب ڈاکٹر خالد سہیل کے قلم سے ۔۔

  1. آج محض اتفاق سے یہ سامنے آگئے۔۔۔۔میں پرانے خطوط پر کچھ لکھنا چاہ رہا تھا۔۔۔۔اور حس اتفاق کہ تمہارے خطوط پڑھ لئے۔۔۔۔ویسے بھی چوری چھپے خط پڑھنے کا اپنا ہی لطف ہے۔۔۔۔کیسے ہیں خالد سھیل۔۔۔۔میں پوسٹ سٹروک پیریڈ سے گزر رہا پوں۔۔۔۔6ماہ فزیو تھیراپی رہی پھر ” کرونا ” تشریف لے آئے۔۔۔۔اب 1 گھنٹہ صبح اور 1 گھنٹہ شام سائکلنگ اور واکنگ پر گزارا ہے۔ ۔۔۔ مریم کا خط خاصا دلچسپ تھا اور تمہاری حکیمانہ رائے۔۔۔۔۔

Leave a Reply