وحشت،تذلیل اوربغاوت ۔۔۔ حبیب الرحمان

کالے رنگ کے آہنی دروازے پر پہنچ کر ہی پورے جسم کو غیر مسلح کرنے کے لیے ٹٹول بٹول شروع کردی گی۔ایک ایک جیب کی تلاشی کے بعد جو سامان حربِ ہاتھ چڑھا جس میں شناختی کارڈ چھوٹی چھوٹی پرچیاں اور پلاسٹک کے بنے بنک کارڈ سمیت سب کا باریک بینی کیساتھ جائزہ لینے کے بعد موبائل فون کو بھی آتشیں اسلحہ قرار دےکر مال خانے میں جمع کیا گیا اور کرخت لہجے میں ایک کمرے کی طرف اشارہ کر کے وہاں چلنے کا حکم صادر ہوا۔ایک باریش شخص کی راہبری میں کمرے میں بٹھا دیا گیا۔اندازاً آٹھ فٹ چوڑے اور دس فٹ لمبے کمرے میں چند کرسیاں اور دو صوفے بھی موجود تھے۔جن پر بیٹھتے ہی اندازہ ھو جاتا ھے کہ بظاہر اچھا نظر آنے والے یہ صوفے دراصل کھڈے ہیں۔بیٹھتے ہی انسان لکڑی کے تختے پر بیٹھا محسوس کرتا ہے۔بیٹھ جانے کے بعد ایرانی تہذیب سے ملتی جلتی پینٹنگ دیوار پر لٹکتی نظر آئی جس سے یہ گمان ابھرا کہ کمرےکی نگرانی کرنے والا اگر باذوق نہ بھی ہو تب بھی فن کا قدر دان ضرور ہو گا۔مجھے جب وہاں پہنچایا گیا تو کوئی سہہ پہر تین بجے کا وقت تھا۔میں یہ سوچ رہا تھا کہ آخر مجھے یہاں بٹھایا کیوں گیا ہے۔شیشے سے بنے دروازے سے میں باہر دیکھ سکتا تھا ،لیکن باہر جا نہیں سکتا تھا۔ہر گزرتے لمحے ایک نا معلوم خوف گھیر رہا تھا۔ذہن میں اپنے کیے گئےجرائم کی تفصیل اکٹھی کر رہا تھا۔مبادا کوئی جرم رہ نہ گیا ہو، اپنے لیے ترتیب دی گئی فہرست بہت لمبی ہوتی جا رہی تھی۔طالبِ علمی کے زمانے کی تند و تیز زندگی میں دیکھے جانے والے انقلاب کا خواب شاید فہرست میں پہلے نمبر پر ہو،چونکہ اس طرح کے خواب دیکھنے والے مجرم ہی قرار پاتے رہے ہیں۔تو دوسرے لمحے یہ احساس ابھرتا کہ نہیں شاید یہ جرم نہ ہو، یہ جرم بھی تو ہو سکتا ہے کہ مغلوب،معتوب اور تقسیم شدہ جموں کشمیر کے ایک حصہ پر ان کا قبضہ ہےاور میں اس قبضے کے خلاف بولتا بھی ہوں لکھتا بھی ہوں اور احتجاج بھی کرتا ہوں۔دھرم اور مذہب کے نام پر کیے جانے والے قتلِ عام کو ریاست کے عوام کا قتل سمجھتا ہوں۔ریاست کی بے توقیری،وہاں کے لوگوں کی تذلیل اور ان کے سروں پر داغ داغ سجی دستار کی بے حرمتی کو انسانی وقار کے منافی سمجھتا ہوں۔

پھر ایک خیال نے جنبش  کی کہ نہیں شاید میں انڈیا کا ایجنٹ ہوں گا تبھی تو یہاں آیا ہوں ماضی میں بھی تو مقبول بٹ اپنے ساتھیوں سمیت انڈیا کے ایجنٹ کے طور پر شاہی قلعہ جیسے عقوبت خانوں کا مہمان رہ چکے ہیں۔پھر سوال ابھرا نہیں جب کتابیں قید کی گئیں تھیں تو میں چیخ پڑا تھا کہ علم نہ چھینو، مجھے ماضی بعید و قریب کے ایسےسارے جرائم ایک ایک کر کے  یاد آ رہے تھے۔پھر ایک دم دماغ جیسے روشن ہو گیا کہ ہاں میں تو بلوچوں کے لیے اسی طرح لڑ رہا ہوں جس طرح ریاست جموں کشمیر کے عوام کے لیے لڑتا ہوں۔پھر فیصلہ کیا کہ میں اعتراف کر لوں گا کہ میں نے ماما قدیر کو 2014 کے پیدل مارچ میں حوصلے اور ہار کے ساتھ خوش آمدید کہا تھا۔آواران میں بھی بلوچستان میں انسانی حقوق کی جدوجہد کرنے والوں اور بلوچستان کی کی خوشحالی کا خواب دیکھنے والوں کو بہت اونچی آواز میں سلام پیش کیا تھا ،جب میں مائیک پر بول رہا تھا تو میرۓ ساتھ جانے والے مجھے چھوڑ کر جا چکے تھے۔ڈائس سے نیچے اترا تو میرے ارد گرد ساربان تھے جو مجھے گھیرے ہوئےتھے مجھے چوم رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا اتنے خوبصورت لوگ اتنی محبتیں کہاں سے لائے۔سوچا کہ اگر اس جرم کی خرد میرۓ نام کاٹی گئی ہو تو تاریخ مجھے معتبر لکھے گی میں تاریخ میں گمنام نہیں رہوں گا۔صحافی حامد میر پر حملہ کے وقت بھی تو میں بہت چیخا اور چلایا تھا۔شاید وہ چیخ ان کو بری لگی ہو کہ اب تو چیخ میں آوازکے مدوجزر کو طے اصولوں کے مطابق رکھنا بھی ضروری ٹھہرا۔

انہی سوچوں میں گم تھا کہ  اذان کی آوازسنائی دی تو شیشے کے دروازے کے اندر سے میں دیکھ سکتا تھا کہ سپاٹ اور سفاک چہروں والی ساری سپاہ جو آٹھ سے دس افراد پر مشتمل تھی اپنے سپاہ سالار کی کمان میں اللہ کے حضور حاضر ہو کر ایک امام کی اقتداء میں قیام و سجود میں مصروف ہوگئی۔ میں سوچوں میں گم آنے والے ممکنہ مرحلوں سے نمٹنے کے لئے اپنے آپ کو نفسیاتی طور پر تیار کرنے کی نحیف سعی کر رہا تھا، اپنے سارے اوسان کو مجتمع کرتے ہوئے ثابت قدم رہنے کی پیشگی منصوبہ بندی کر تے ہوئے شیشے کے دروازے سے باہر دیکھ رہا تھا ، جو بھی دروازے کے سامنے سے گزرتا مجھے گھور کر گزر جاتا۔شام ڈھلتے ڈھلتے رات میں تبدیل ہو رہی تھی اور میں مسلسل گنتی کرتا جا رہا تھا کہ اچھا اچھا میں تو بلا غرض بلوچ غائب کر دیے جانے والوں کی بازیابی کی مہم کے کنوینئر پنہل سہاریو کو اغوا کیے جانے پر اغوا کاروں پر سخت تنقید کی تھی دنیا بھر میں موجود اداروں اور دوست احباب سے غائب کر دئیے لوگوں کی بازیابی کی اپیل کی تھی۔UNHCR کے جنیوا کنونشن میں دوستوں کے ذریعے سوال اٹھایا تھا۔ ساتھ ہی یہ سوال سامنے کھڑا تھا کہ تم (جب حکومت قتل کرتی ہے)بھی تو لکھتے ہو۔۔۔۔۔۔!!!

لیکن ساتھ ہی یہ یقین بھی آگیا کہ یہاں سوچنا سچ کہنا چاہے یہ چھپ کر ہی تنہائی میں سوچا جائے یا کہا جائے یہ بھی تو جرم ہے۔ سو خود کو اس یقین کے ساتھ مطمئن کرلیا کہ جیسی بھی صورتحال ہو اس کا سامنا تو بحرحال کرنا ہے۔ ایسے میں کمرے کا دروازہ کھلا ایک بھاری بھر کم جثے والا شخص اندر داخل ہوا ۔ انگریزی زبان میں اس نے سوالات کا آغاز کیا۔ سوالات کیا تھے جیسے وہ کوئی فرد جرم سنا رہا ہو کہ تم سندھ میں کیوں ہو۔ بلوچوں سے کیا تعلق ہے۔ کس حکومت نے کس کو قتل کیا کشمیر قضیہ پر تماری گفتگو یا تقریریں کیوں ہوتی ہیں تم لبرل ہو ،کمیونسٹ ہو یا دہریہ ہو۔ مجاہدین کے مخالف ہو پاکستان مخالف تقریریں وغیرہ وغیرہ ، سو سوالات تھمنے کا نام نہیں لیتے تھے۔ کہ میں جواب دے پاتا سو مختصر جوابات دینے کی کوشش کرتا تو جھڑک کے چپ کرادیا جاتا۔ کہ ہمیں سب پتہ ہے ،تم کیا بتاؤگے ایک طرف میری خاموشی اور دوسری طرف اونچی اور تیز آواز  میں تذلیل کے نشترر چلتے رہے دھمکیاں توہیں بے توقیری اور انسانی وقار کی پائمالی کا جیسے ایک طوفان میرے اوپر سے گذرتا رہا ،معروف فتویٰ غداروں کے انجام سے تم واقف نہیں ہو۔ جواب تو دیا نہیں جاسکتا تھا سو سوچا میں غدار کیسے ہوسکتاہوں جبکہ میں اس ملک کا شہری ہی نہیں ہوں۔ بھلا غلام بھی غدار ہوسکتے ہیں۔ دشنام طرازی کا یہ سلسلہ کچھ گھنٹے جاری رہنے کے بعد وقفہ کردیا گیا کہ اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرنی، اگلے حکم تک سو خاموشی سے اس دھمکی آمیز وقفے کوبھی غنیمنت جانا رات کا اندھیرا چھا چکا تھا میرے دوست احباب سب میرے اس طرح رابطے سے کٹ جانے پر فکرمند ہوگئے اسی دوران میں نے دیکھا باریش بڑی عمر کے مقامی افراد باری باری وہاں آتے کچھ دیر ایک کمرے میں جاتے جلدی سے نکل جاتے ان میں دکاندار بھی تھے مذہبی پیشوا بھی اور شاید کچھ ریٹائرڈ زندگی گذارنے والے بھی چند ایک نوجوان بھی نظر آئے جانے یہ سارے لوگ اس مرکز میں کیا لینےیا دینے آئے ہونگے ۔ ان کے چہروں پر عجیب سے بے رونقی محسوس ہوتی تھی۔ بڑے دروازے سے باہر نکلتے ہی وہ آسمان کی طرف دیکھتے تھے شایدواپس آجانے پر چشم فلک کے شکر گذار ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

بالآخر وقفہ ختم ہوا وہی بھاری بھر جسم پھر میرے سامنے تھے اس بار ذرا نرمی سے میری تعلیم پوچھی گئی میری ملازمت کا پوچھا گیا پھر میری کتاب پر سوالات ہوئے،خاندان اور بچوں کے متعلق بتایا گیا میرے چند دوستوں کا نام بھی لیا گیا ،نیلم جہلم ہائیڈرو پاور پروجیکٹ پر باز پرس کی گئی، پاکستان کے لیڈروں کے متعلق بھی پوچھا گیا بھٹو کے متعلق پوچھے گئے سوالات پر بس اتنا کہا کہ یہ ناحق قتل تھا ،دوسرے ہی لمحے اس کے ماتھے کے تیور پھر چڑھ گئے لہجے میں پھر کڑواہٹ آگئی نفرت انگیز جملوں کی پھر بارش برسنے لگی، سو میں یہ بیان حرف سن ہی سکتا تھا جواب دینے یا بولنے کی اجازت نہ تھی تختہ نما صوفے پر جیسے میں جم سا گیا ہوں، اچانک وہ صاحب باہر چلے گئے کوئی پانچ منٹ میں واپس آکر دھمکی آمیز سمجھانے کے انداز میں حکم صادر کیا کہ” احتیاط کرو اورسنبھل کے چلو ورنہ انجام اچھا نہیں ہوگا”۔ تم جاسکتے ہو لیکن یاد رکھو، تم کیا کرتے ہو؟ کس سے ملتے ہو؟ ہمیں سب پتہ ہوتا ہے، لہجے کی کڑواہٹ محسوس کی جاسکتی تھی، جب اذن ہو تو پھر ٹھہرنا کیسا؟ میں گردن جھکائے آہنی دروازے سے باہر نکلتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ وحشت اور تذلیل کے بعد بغاوت کے سوا بھی کوئی راستہ ہے؟؟؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply