لیاری۔۔۔۔ذوالفقار علی زلفی/قسط3

بلوچی موسیقی کے اہم ترین نام فیض محمد بلوچ کا آبائی تعلق مغربی بلوچستان کے شہر کسرکند سے ہے۔ وہ لڑکپن میں اپنے گھرانے کے ہمراہ ہجرت کر کے لیاری کے علاقے بغدادی علی ہوٹل، کسرکندی علاقے میں آباد ہوئے۔ دیگر بلوچوں کی طرح انہوں نے بھی جوانی میں مزدوری کا پیشہ اپنایا۔ اپنے بڑے بھائی محمد حسن بلوچ کی دیکھا دیکھی انہیں بھی گلوکاری شوق اٹھا۔ انہوں نے موسیقی کی باقاعدہ تعلیم یوں تو بچپن میں کسرکند سے ہی شروع کی مگر اس میں نکھار کراچی میں ہی آیا۔

وہ مزدوروں کے جمگٹھے میں فراغت کے اوقات گانے گا کر محنت کش جسموں کو روح کی غذا فراہم کرتے تھے۔ کہا جاتا ہے 1940 میں انہیں ریڈیو کراچی میں اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ملا۔ تاہم ان کو اصل شہرت اس وقت ملی جب 1950 کو مولانا خیر محمد ندوی کی قیادت میں بلوچی ادبی تحریک شروع ہوئی۔ اس تحریک کے روحِ رواں سید ظہور شاہ ہاشمی کی کوششوں سے وہ عوامی سطح پر متعارف ہوئے۔

فیض محمد بلوچ نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر بلوچی موسیقی کو ایک نیا آہنگ دیا۔ وہ تعلیم یافتہ نہ تھے مگر موسیقی کے شعبے میں انہیں استاد کا درجہ حاصل تھا۔ معروف بلوچ موسیقار شوکت مراد کے بقول انہوں نے بلوچی اور فارسی کلاسیک کو ملا کر اس میں سندھی موسیقی کا تڑکہ لگا کر وہ دھنیں تخلیق کیں جنہوں نے بلوچی موسیقی میں انقلاب بپا کر دیا۔ انہوں نے نہ صرف بلوچی موسیقی کو ترقی دی بلکہ ان کے نام اور کام نے لیاری کی عزت بھی دو چند کر دی۔

پچاس کی ادبی تحریک نے ہر چند لیاری سمیت بلوچستان کے سیاسی و ثقافتی مستقبل پر بھی دیرپا اثرات مرتب کیے۔ اسی ادبی تحریک کی وجہ سے بلوچی زبان و ادب کو میر گل خان نصیر جیسے آتش زیرِ پا انقلابی شاعر اور عطا شاد جیسے سخن شناس نصیب ہوئے۔ البتہ جس دور میں یہ تحریک چل رہی تھی، وہ دور سیاسی لحاظ سے زیادہ قابلِ تعریف نہ تھا۔

بلوچ لیگ ہوا ہو چکی تھی۔ اس تنظیم سے وابستہ افراد پاکستانی سیاست کی پُرپیچ گلیوں میں کھو چکے تھے۔ لیاری کی سیاست پر ہارون خاندان کی گرفت مضبوط ہو چکی تھی۔

میمن قوم سے تعلق رکھنے والے عبداللہ ہارون گو کہ قبل از تقسیمِ ہند کراچی کی اہم ترین سیاسی شخصیت تھے مگر لیاری کی سیاست پر ان کا اثر کم رہا۔ ان کے فرزند یوسف ہارون نے چالیس کی دہائی کے وسط میں لیاری کے غیر بلوچ علاقوں میں مؤثر قوت پیدا کر لی۔ اسی قوت کے بل پر وہ کراچی کے میئر بھی منتخب ہوئے۔ بلوچ علاقوں پر سیکولر قوم پرست سیاست کا اجارہ تھا۔ اس سیاست کا نمایاں چہرہ کراچی کے سب سے بڑے جاگیردار گھرانے کے سربراہ خان بہادر اللہ بخش گبول تھے جب کہ نظریاتی قیادت جی ایم نورالدین، مولانا عبدالصمد سربازی اور محراب خان جیسے دانش ور کر رہے تھے۔

قیامِ پاکستان کے بعد بلوچ لیگ کی قوت تو منتشر ہوئی مگر خان بہادر اللہ بخش گبول (نبیل گبول کے دادا) اپنی شخصی طاقت برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ وہ 1951 کو کراچی کی دیگر اقوام کی حمایت حاصل کر کے میئر بن گئے ـ دوسری جانب یوسف ہارون کے چھوٹے بھائی محمود ہارون نے مسلم لیگ کے پرچم تلے ہارون خاندان کی سیاست کو بلوچ علاقوں تک بھی پھیلانا شروع کر دیا۔ انہیں اس میں کسی خاص سیاسی مزاحمت کا بھی سامنا نہیں ہوا۔ 1955 کو کراچی کا میئر منتخب ہونے کے بعد محمود ہارون نے لیاری پر خصوصی توجہ مرکوز کر دی ـ جلد ہی انہوں نے اپنے لیے ایک مؤثر حلقہِ اثر بھی پیدا کر لیا۔

بدقسمتی سے لیاری میں غنڈہ عناصر کی حوصلہ افزائی کی شروعات بھی ہارون خاندان کے ہاتھوں ہوئی۔ ہارون اور گبول خاندانوں کے درمیان لیاری پر سیاسی قبضے کی جنگ چھڑ گئی۔ یہ امر ملحوظِ خاطر رہے کہ غنڈہ عناصر کی پرورش کے باوجود ہارونوں نے سیاسی اثر پذیری کے لیے انہیں استعمال نہ کیا۔ اس کی اہم ترین وجہ لیاری کی سیاسی ثقافت تھی جہاں لمپن عناصر کے لیے خالی جگہ نہیں تھی۔

لیاری کے غنڈوں کا بدترین استعمال ساٹھ کی دہائی میں ایوب خان کے فرزند گوہر ایوب نے کیا۔ انہوں نے دادل، بیکل و شیرل برادران (عبدالرحمان بلوچ عرف رحمان ڈکیت کے والد اور چچا) کی سربراہی میں غنڈوں کی فوج لے کر اردو اسپیکنگ علاقوں پر چڑھائی کی اور انہیں فاطمہ جناح کی حمایت کرنے کی “سزا” دی۔ ساٹھ کی دہائی میں کراچی پر لیاری کے غنڈوں کی دھاک بیٹھ گئی تھی۔ سینما لائنوں پر صفیں سیدھی کرنے کی پُرتشدد ذمہ داری بھی انہیں تفویض کی گئی۔ نوجوان آصف زرداری کی لیاری کے غنڈوں سے دوستی بھی اسی دور میں ہوئی۔ غنڈہ ثقافت اس کے باوجود لیاری کی سیاست میں دخیل نہ ہو سکی۔

ایوب دور میں بھارت پاکستان کے درمیان پانی کے معاہدوں کے بعد شمالی پنجاب اور جنوبی خیبر پختونخوا میں کینال اور ڈیم بنانے کا آغاز ہوا۔ ڈیم پالیسی کے باعث متعدد افراد کراچی کی جانب ہجرت کرنے پر مجبور کیے گئے۔ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد کو لیاری میں ندی کے اردگرد بسایا گیا۔ بالخصوص میانوالی سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک بڑی آبادی لیاری منتقل ہوئی۔ اس آبادی نے نہ صرف ڈیموگرافی میں زبردست تبدیلیاں پیدا کیں بلکہ لیاری کی سیکولر سیاست پر بھی منفی اثرات مرتب کیے۔ پشتونوں کی بھی ایک بڑی تعداد اسی زمانے میں لیاری پہنچی۔ تاہم 60 اور 70 کی دہائیوں میں پشتون آبادی کوئی اثر ڈالنے کی پوزیشن میں نہیں تھی۔

قیامِ پاکستان سے قبل اور پچاس کی دہائی تک لیاری تین بڑے لسانی گروہوں میں منقسم تھا۔ سب سے بڑی آبادی بلوچوں کی تھی۔ اس کے بعد بالترتیب میمن اور کچھی تھے۔ تینوں گروہوں کے درمیان رواداری اور صلح جوئی اہم خاصیت تھی۔ خاص طور پر میمنوں کی سربراہی میں لیاری کے علاقے کھڈہ میں قائم مدرسہ “مظہر العلوم” نے لیاری کے سیاسی و سماجی ماحول کو سیکولر خطوط پر استوار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مدرسہ اور سیکولر ….. حیرت کی بات ہے ناں؟ ـ یہ لیاری ہے جہاں ایسے ہی کردار پائے جاتے ہیں۔ مدرسہ مظہر العلوم پر تفصیلی بحث مذہبی سیاست اور شدت پسندی کے باب میں کرنے کی کوشش کریں گے۔

لیاری کے سیکولر مذہبی ماحول کو برقرار رکھنے میں تینوں گروہ اطمینان بخش حد تک کامیاب رہے۔ پچاس کی دہائی میں اردو بولنے والے آئے۔ لیاری میں رہائش پذیر اردو مہاجرین نچلے طبقے سے متعلق تھے جن کی اکثریت رفتہ رفتہ اردو بیوروکریسی کی حمایت سے درمیانی طبقے میں شامل ہوتی گئی اور وہ لیاری چھوڑ کر شہر کے دیگر علاقوں کی جانب ہجرت کرگئے۔ پیچھے رہ جانے والے اردو اسپیکنگ ، طبقہ بدلنے پر قادر نہ ہو سکے یا شاید انہیں اس کا موقع نہ ملا، وہ لیاری میں ہی رہ گئے اور انہوں نے چوتھی بڑی لسانی برادری بنا لی۔ اردو علاقے آگرہ تاج کالونی اور عثمان آباد قرار پائے۔

ہندوستانی مہاجرین رفتہ رفتہ لیاری کی ثقافت میں ڈھلتے گئے اور ایک وقت ایسا آیا کہ عثمان آباد کی فٹ بال ٹیم ان بلوچ فٹ بال ٹیموں پر بازی لے جانے لگی جن کا فٹ بال پر اجارہ سمجھا جاتا تھا۔

ساٹھ کی دہائی میں میانوالی گروہ مجمتع ہوتا گیا۔ لیاری کے دیگر باشندوں کی نسبت یہ متمول بھی تھے اور مذہبی لحاظ سے کٹرپن کی جانب مائل بھی۔ اس گروہ نے لیاری کی سیاسی ثقافت پر جو اثرات مرتب کیے، اس کا ذکر آگے چل کر کیا جائے گا۔

جدلیاتی لحاظ سے پچاس کی ادبی تحریک کوئی الگ تھلگ یا اچانک شروع ہونے والا واقعہ نہ تھی۔ اس کے پیچھے یوسف عزیز مگسی کی سیاسی تحریک اور بلوچ لیگ کارفرما تھے۔ انہی تحریکات کی وجہ سے کراچی میں بلوچ اخبارات کا اجرا ہوا، جس نے تحریر کو بلوچ سماج کا حصہ بنایا۔ ادبی تحریک کو انہی سیاسی تحریکات سے جلا ملی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

قیامِ پاکستان اور بلوچستان کا جبری الحاق دو ایسے واقعات تھے جس نے ترقی پسند سیاست کو بھونچکا کر دیا۔ حیرت کے عالم میں بت بنے ترقی پسند سیاست کو راستہ دکھانے کی ذمہ داری بلوچی ادب نے لی۔ لیاری کی ادبی تحریک کے اثرات ساٹھ کی دہائی میں کھل کر سامنے آنے لگے۔ ساٹھ کی دہائی میں سماج نے کروٹ بدلی اور دو اہم تحریکوں نے ایک دفعہ پھر ترقی پسند سیاست کو لیاری کی سیاسی تاریخ کا حصہ بنایا۔ ایک “ون یونٹ مخالف تحریک” اور دوسری بلوچ طلبا تنظیم “بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن” کی انقلابی پیدائش۔

(جاری ہے)

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply