ہارمونزکا دماغی صحت سے کیا تعلق ہے؟/ہیلتھ

ہارمونز میں تبدیلیوں کے باعث خودکشی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے۔ یورپی میڈیسن ایجنسی نے مطالبہ کیا ہے کہ مانع حمل ادویات کی پیکنگ پر خود کشی کے خطرے کا انتباہ درج ہونا چاہیے۔ ہارمونز اور ذہنی صحت کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

ایک خاتون کا کہنا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں مانع حمل ادویات صرف ایک مرتبہ 3 ماہ تک استعمال کی ہیں۔ اس وقت اس کی عمر 20 سال کے لگ بھگ تھی۔ وہ بتاتی ہے کہ وہ اس دوران بہت معمولی باتوں پر رو پڑتی تھی، ’’بس کے چھوٹ جانے پر بھی بے حد پریشان ہو جاتی تھی۔‘‘ اس نے ان واقعات کا ذکرکرتے ہوئے مزید کہا، ’’میں اس بات پہ زور دوں گی کہ سائنسی وجوہات اپنی جگہ اہم ہیں مگر ہوسکتا ہے کہ یہ میری کم عمری کی وجہ سے ہو۔ عموماً کم عمری میں لوگ جلد پریشان ہو جاتے ہیں۔‘‘

دوسری جانب کچھ ایسے سائنسی مطالعے موجود ہیں، جو ڈپریشن اور ہارمونز کے حملوں کے درمیان گہرے تعلق کا پتہ دیتے ہیں۔ 2016 ء میں شائع کیا گیا ایک ڈینش مطالعہ خاص توجہ کا مرکز رہا۔ اس کے مطابق ہارمونل امراض اور ڈپریشن کے درمیان گہرا تعلق دیکھا گیا۔ سائنسدانوں کے لیے ہر مریض کا ڈیٹا حاصل کرنا آسان اس لیے تھا کیونکہ ڈنمارک میں مریضوں کی الیکڑونک فائلز ہیں، جہاں مریضوں کے نام ظاہر کیے بغیر تحقیق کی جاتی ہے۔

پندرہ سے چونتیس سال کی درمیانی عمر والی ایک ملین ڈینش خواتین کی صحت سے متعلق معلومات کا 13سال تک مشاہدہ کیا گیا۔ اس ڈیٹا کے مطالعے کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایسٹروجن اور پروجیسٹرون نامی ہارمونز سے تیار کی گئی گولیاں کھانے والی خواتین مانع حمل ہارمونز استعمال کرنے والی خواتین کے مقابلے میں اینٹی ڈپریشن کا زیادہ استعمال کرتی ہیں اور یہ فرق تقریباً تیئس فیصد سے زیادہ ہے۔ صرف پروجیسٹرون نامی ہارمونز ( منی پلز) کی گولی استعمال کرنے والوں میں تو یہ فرق اور بھی زیادہ یعنی 34 فیصد بنتا ہے۔ نو عمروں میں تو ان گولیوں کا زیادہ اثر دیکھا گیا ہے اور ان پلز کی وجہ سے ان کے مزاج میں منفی اثرات دیکھے گئے۔

اس مطالعےکے نتائج یہ کہتے ہیں کہ وہ خواتین جو حمل روکنے والی ادویات استعمال کرتی ہیں ان میں خود کشی کے امکانات 3 گنا زیادہ ہیں۔ اس مطالعے سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ نوجوان لڑکیوں کو زیادہ خطرہ ہے اور انہی لڑکیوں کو مستقبل میں نہ صرف نسوانی مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے بلکہ یہ نفسیاتی بیماریوں کا بھی شکار ہو سکتی ہیں۔ سائنس یہ کہتی ہے کہ مانع حمل ادویات کے استعمال کے بعد ہر خاتون کا رد عمل مختلف ہوتا ہے۔

خواتین میں مردوں کے مقابلے میں ڈپریشن کی شرح دوگنا زیادہ ہے۔خیال کیا جاتا ہے کہ جسم میں ہارمونز کی تبدیلیاں جو بلوغت، ماہواری، حمل کے دوران یا حمل ضائع ہوجانے کی وجہ سے واقع ہوتی ہیں، خواتین میں ڈپریشن کے احتمال کو بڑھاتی ہیں۔

ہارمونز میں عدم توازن ہونے کی واضح علامات

۱۔حیض کی کمی یا زیادتی۔

۲۔ وزن کا تیزی سے بڑھنا یا گرنا۔

۳۔ بھوک کی زیادتی یا کمی۔

۴۔ افسردگی، ڈپریشن۔

ہارمونل بیلنس کے لیے چند اہم احتیاطیں

۱۔ ہارمونل بیلنس کے لیے ورزش کرنا مفید ہوتا ہے لیکن پیچیدہ اور تھکا دینے والی سخت ورزش کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

۲۔ مصنوعی فلیور اور رنگوں کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔

۳۔ باقاعدگی سے صبح کی دھوپ لینی چاہیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

۴۔ جسم میں وٹامن ڈی اور پروٹین کی کمی بھی ہارمونز میں عدم توازن پیدا کرتی ہے۔ وٹامن ڈی کی کمی پوری کرنے کے لیے دوائیں اور انجیکشن بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں ۔کدو کے بیج خواتین کے پوشیدہ امراض میں مفید ہوتے ہیں اس کے علاوہ ہارمونز میں توازن کا باعث بنتے ہیں۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply