تنظیمِ اسلامی کا زوال اور اُس کے اسباب۔۔۔عمران بخاری/قسط4

حافظ عاکف سعید کی تنظیمِ اسلامی

اپنے اس مقالے کے پہلے حصے میں میں نے تین قسم کی تنظیموں کا موازنہ پیش کیا تھا۔ مفاداتی تنظیم (Utilitarian Organization)، جبری تنظیم (Coercive Organization) اور رضاکارانہ تنظیم (Voluntary Organization)۔ تنظیمِ اسلامی ایک رضاکارانہ تنظیم تھی۔ اسے رضاکارانہ تنظیم سے مفاداتی تنظیم بنا دیا گیا ہے۔ اگر اس جماعت کے قیام کا مقصد اقامتِ دین کی جدوجہد تھا تو میں اوپر بیان کر چکا کہ موجودہ لیڈرشپ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی اس فکر سے اتفاق نہیں کرتی۔ اگر اس جدوجہد کا طریقۂ کار منہجِ انقلابِ نبوی تھا تو وہ بھی میں اوپر بیان کر چکا کہ موجودہ قیادت اُس سے بھی اتفاق نہیں کرتی۔ حال ہی میں تنظیم کی طرف سے زمانہ گواہ ہے (تنظیمِ اسلامی کا نشریاتی پروگرام) کا ایک پروگرام ریکارڈ کروا کے نشر کیا گیا۔ اس پروگرام میں تنظیمی فکر اور منہج کی وضاحت کرنے کے لیے تنظیم کے تین بڑے ذمہ داران (ایوب بیگ مرزا، شجاع الدین شیخ اور ڈاکٹر عبداسمیع) کو مہمان کے طور پر مدعوع کیا گیا۔ اس پروگرام میں یہ ذمہ داران یہ کہتے پائے گئے کہ ڈاکٹر اسرار احمد کوئی نبی نہیں تھے اس لیے تنظیم اپنی جدوجہد کے لیے کوئی بھی طریقۂ کار اختیار کر سکتی ہے۔ اب کوئی عقل کا اندھا ہی ہو گا جسے ان اصحاب کی اس بات میں فکر اور منہج کا انحراف نظر نہ آ رہا ہو۔

اوپر میں یہ بھی بیان کر چکا کہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی اولاد کے لیے تنظیم ایک ترکہ یا وراثت کی حیثیت رکھتی ہے اور وہ اسے اپنی جاگیر سمجھ کر ہی برت رہے ہیں۔ چنانچہ وہی ڈاکٹر اسرار احمد جنہوں نے اپنے تمام اثاثے دین کی راہ میں لٹا دیے اور اِس جہانِ فانی سے کوچ کرتے وقت دو کمروں کے چھوٹے سے فلیٹ میں رہ رہے تھے، اُن کی اولاد آج کروڑوں پتی ہے۔ اسی بات کا طعنہ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے ایک دفعہ اپنے بیٹے حافظ عاکف سعید کو دیا بھی تھا کہ “تم امارت کو انجوائے کر رہے ہو”۔ ایک رضاکارانہ تنظیم سے مفاداتی تنظیم کے سفر میں کیا کیا اہم تبدیلیاں لائی گئیں وہ درج ذیل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:تنظیمِ اسلامی کا زوال اور اُس کے اسباب ۔۔۔عمران بخاری/قسط3

۱- تنظیمِ اسلامی میں امیرِ تنظیم کے بعد سب سے زیادہ کلیدی عہدہ ناظمِ اعلیٰ کا ہوتا ہے۔ اسے امیرِ تنظیم کا پرنسپل سیکرٹری یا چیف سیکرٹری سمجھا جا سکتا ہے۔ تنظیم کا نظام یہی شخص چلاتا ہے۔ ڈاکٹر اسرار احمد نے جب تنظیمِ اسلامی کی امارت چھوڑی تو اُس وقت اس عہدے (ناظمِ اعلیٰ) پر ڈاکٹر عبدالخالق (جنہیں ڈاکٹر اسرار احمد اپنے عمرانی فکر کا سب سے زیادہ سمجھنے والا کہتے تھے) ذمہ داری کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ حافظ عاکف سعید نے امیر بننے کے بعد سب سے پہلا کام یہ کیا کہ انہیں ناظمِ اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا کر ایک بینکار (اظہر بختیار خلجی) کو ناظمِ اعلیٰ بنا دیا۔ ان کی شخصیت پر کسی حد تک مَیں اپنے مضمون “تنظیمِ اسلامی کے امامِ معصوم” میں روشنی ڈال چکا ہوں۔ گویا خاندان کے سرمایہ دارانہ مفادات کی خاطر ایک بینکار کی خدمات حاصل کی گئیں۔

۲۔ کسی بھی کارپوریٹ ادارے کی جو بھی اقدار ہوتی ہیں وہ تنظیم میں متعارف کروائی گئیں۔ مثلاً ذمہ داران کو اچھی اچھی تنخواہوں کا لالچ، سواری (Conveyance) کی سہولیات، رہائش کی سہولیات، بچوں کے لیے تعلیمی وظائف، چاپلوسی اور خوشامد کرنے پر ترقی وغیرہ وغیرہ جیسی مراعات کی لت لگائی گئی۔ تنظیم کا جو نیا مرکز لاہور میں بنایا گیا ہے وہاں ملازمین کو فراہم کی گئی رہائشی سہولیات کا حال یہ ہے کہ ہر گھر میں ائیر کنڈیشنر ہیں اور ہر گھر کی بجلی کے لیے الگ الگ جنریٹر مہیا کیے گئے ہیں۔ لاہور مرکز سے لوٹ کر آنے والے ایک ساتھی نے بتایا کہ مرکز میں فرسٹ فلور سے سیکنڈ فکور پر جانے کے لیے لفٹ لگائی جا رہی ہے۔ یہ ناظمِ اعلیٰ اظہر بختیار خلجی کے ہی الفاظ ہیں کہ میں نے تنظیم کو ایک کارپوریٹ ادارہ بنا دیا ہے اور ذمہ داران کو اچھی اچھی تنخواہوں کے ساتھ اتنی ساری مزید سہولیات دے دی ہیں کہ کوئی ان سہولیات کو چھوڑنے کا رسک نہیں لے سکتا۔ گویا نظریاتی کمٹمنٹ کو دفن کر کے اس پر مادی مفادات کی عمارت تعمیر کر دی گئی۔

۳- جیسا کہ مفاداتی تنظیم میں ترقی کا ایک بنیادی اصول پہلے بیان ہو چکا کہ اپنے باس کو کبھی غلط مت کہو بلکہ اسے ہمیشہ درست سمجھو، اسی اصول کو بنیاد بنا کر تنظیم کے امیر حافظ عاکف سعید کے لیے امامتِ معصومہ کا پرفریب تصور گھڑا گیا۔ خالد محمود عباسی صاحب (سابقہ نائبِ ناظمِ اعلیٰ) نے جب امیرِ تنظیم پر فکری انحراف اور فکر سے غداری کا الزام لگایا اور شوریٰ کے اجلاس کا مطالبہ کیا کہ حافظ عاکف سعید صاحب اس میں آ کراپنی وضاحت پیش کریں تو نہ صرف یہ کہ خالد محمود عباسی صاحب کو تنظیم سے خارج کر دیا گیا بلکہ یہ اچھوتا تصور متعارف کروایا گیا کہ امیر کا محاسبہ نہیں ہو سکتا۔ ایسے جابرانہ تصورات نے جبری تنظیم والی خصوصیات بھی تنظیمِ اسلامی میں شامل کر دیں کہ جہاں ایک رفیق کے پاس اپنا کوئی ارادہ یا مرضی نہیں رہتی۔ کم علم اور کم فہم رفقاء کو احادیث کی غلط غلط تعبیرات کر کے گمراہ کیا گیا کہ امیر کو جب تک کفرِ بواح میں مبتلا نہ دیکھو تب تک اس کی اطاعت تم پر فرض ہے۔

۴۔ جن لوگوں کے معاشی اور سماجی معاملات پر سوالیہ نشان تھے اُن لوگوں کو دانستہ طور پر عہدے اور ذمہ داریاں دی گئیں۔ وجہ یہ ہے کہ جو خود چور ہو گا وہ امیر پر یا اپنے اوپر ذمہ داران کی کرپشن پر آواز نہیں اٹھا سکے گا۔ راولپنڈی و اسلام آباد ہو، کراچی ہو، فیصل آباد ہو یا لاہور، بڑے اہم عہدوں پر ایسے افراد براجمان ہیں جن پر مالی کرپشن یا اخلاقی و معاشرتی کردار کی کرپشن کے الزامات ثابت شدہ ہیں۔ اس تنظیم کا مستقبل کیا ہو گا جس کی باگ ڈور اُن لوگوں کی اکثریت کے ہاتھ میں آ چکی ہو جنہیں اصولی طور پر تنظیم سے باہر ہونا چاہئیے تھا۔ یقیناً چند گنے چنے نیک سیرت لوگ بھی ذمہ داریوں پر فائز ہیں لیکن وہ ان ذمہ داریوں پر اس لیے فائز ہیں کہ اسٹیٹس کو کو ان سادہ لوح افراد سے کوئی چیلنج یا خطرہ لاحق نہیں۔

۵۔ رفقاء میں تصوف کو پروان چڑھایا ہی اس مقصد کے تحت گیا تھا کہ لوگ ہر صورتحال میں راضی برضائے رب رہیں۔ رفقاء کو تنظیم میں شامل تو بیعتِ جہاد کی بنیاد پر کیا جاتا ہے لیکن اس کے پردے میں امیر کو بیعتِ ارشاد والے اختیار اور حقوق سونپ دیے گئے ہیں۔ رفقاء میں باقاعدہ تربیت گاہوں میں یہ تصور اتارا جاتا ہے کہ آپ اپنے اوپر بیٹھے ذمہ داران پر آنکھیں بند کر کے اعتماد کریں کہ وہ جو بھی کر رہے ہیں درست ہی کر رہے ہوں گے۔ ایک تربیت گاہ میں ایک نئے شامل ہونے والے رفیق نے ناظمِ اعلیٰ سے سوال پوچھ لیا کہ کیا ایک عام رفیق تنظیم سے اس کے مالی معاملات کی تفصیلات پوچھ سکتا ہے؟ جواب یہ دیا گیا کہ ہم آپ کو تسلی کروا دیں گے لیکن اگلے ہی روز آپ تنظیم سے باہر ہوں گے کیونکہ آپ نے ہماری نیت پر شک کیا ہے۔

۶۔ کسی بھی مقصد کے تحت وجود میں آنے والے گروہ میں ایک خاص عرصے کے بعد گروہی عصبیت کا پیدا ہو جانا ایک فطری عمل ہے۔ اس عصبیت کی بنیاد اگر فکری یا نظریاتی ہو تو یہ عصبیت تحریکیت کے لیے بہت فائدہ مند ہوتی ہے۔ لیکن اگر اس عصبیت کی بنیاد جماعت بن جائے تو پھر یہ عصبیت فکری و عملی جمود کا باعث بنتی ہے جو کہ تحریکیت کے لیے زہرِ قاتل ہے۔ توجہ کا مرکز اپنی جماعتی عصبیت کا تحفظ بن جاتا ہے اور مقصدِ جماعت یا نظریہ غیر اہم ہو جاتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جماعت کے تحفظ کے لیے ہر ناجائز اور غیر اخلاقی طریقہ اختیار کرنے میں کوئی عار محسوس نہیں کی جاتی۔ چنانچہ یہی حال ہوا کہ جب ہم نے عاکف سعید صاحب کی غلط کاریوں کا پردہ چاک کیا تو ہمیں چپ کروانے کے لیے اخلاق سے گرا ہوا ہر وہ حربہ اختیار کیا گیا جس کی مادہ پرست اور مفاد پرست ذہن سے توقع کی جا سکتی ہے۔ جب رضاکارانہ تنظیمیں اپنی اصل فکر اور راستے سے انحراف کرتی ہیں اور مفاداتی تنظیم کی صورت اختیار کرتی ہیں تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہوتی ہے کہ لیڈرشپ دینی و اخلاقی غیرت اور حیا سے عاری ہو چکی ہے۔

۷۔ اسی طرح میں نے پہلے بیان کیا تھا کہ مفاداتی اداروں میں پرفارمنس کی جانچ پڑتال کا باقاعدہ ایک نظام ہوتا ہے جس میں دیکھا جاتا ہے کہ ملازمین کو جو ٹاسک دیا گیا تھا کیا وہ ٹاسک مکمل ہوا یا نہیں۔ اسی جانچ پڑتال پر ہی فرد کی ترقی اور ملازمت کے استحکام کا دارومدار ہوتا ہے۔ تنظیمِ اسلامی میں بھی رفقاء کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کے لیے یہی نظام متعارف کروایا گیا۔ رفقاء کو ٹاسک دیے جاتے کہ آپ کے زیرِ دعوت چار احباب لازماً ہونے چاہئیں، ہر اسرے کے سربراہ (نقیب) پر لازم ہے کہ اپنے حلقۂ احباب میں کم از کم ایک حلقۂ قرآنی (درسِ قرآن) کا اہتمام کرے، تمام رفقاء پر زور دیا جاتا ہے کہ انفاقِ مال لازماً کریں، مقامی تناظیم کو یہ ٹاسک دیا جاتا ہے کہ اپنی مقامی تنظیم کی سطح پر بڑے دروسِ قرآن یا جلسوں کا اہتمام کیا جائے اور لوگوں میں دینی فرائض سے آگاہی کے لیے عوامی مہم چلائی جائے اور ہینڈ بلز لوگوں میں تقسیم کیے جائیں۔ یہ ٹاسک بہت اہم اور ضرورت کے حامل ہیں کہ ان سے رفقاء میں تحریکیت کی روح زندہ رہتی ہے۔ لیکن مسئلہ تب کھڑا ہوا جب رفقاء کی عہدوں اور ذمہ داریوں پر ترقی کا پیمانہ ان ٹاسکس میں پیش رفت کو بنا دیا گیا۔ مثلاً ہو سکتا ہے کہ ایک رفیق چار لوگوں کو دعوت تو دے رہا ہو لیکن کسی کو ہدایت کی راہ پر لانا تو اللٰہ کا اختیار ہے۔ جب رفقاء کی ترقی کا معیار یہ بنا دیا گیا کہ یہ دیکھا جائے گا کہ اس نے کتنے لوگوں کو تنظیم میں شامل کیا تو نتیجہ یہ نکلا کہ رفقاء نے لوگوں سے جعلی شمولیت کے فارم بھروا کے جمع کروانا شروع کر دیے۔ ملتان میں ایک رفیق اپنی پرفارمنس ظاہر کرنے کے لیے اپنی برادری کے دو سو افراد کے فارم بھروا کے لے آیا جبکہ ان میں سے ایک بندہ بھی تنظیمِ اسلامی کے نام تک سے واقف نہ تھا۔ میں راولپنڈی اور اسلام آباد کے مقامی اور حلقے کے امراء اور نقباء کی حد تک خود اس غلط کاری کا عینی شاہد ہوں کہ امراء اور رفقاء اپنی پرفارمنس شو کرنے کے لیے لوگوں کے فرضی فارم بھر کے جمع کرواتے اور ایسے غیر فعال رفقاء کا انفاق اپنی جیب سے بھر کر ان کے نام کی رسیدیں کاٹ کر اوپر بھیج دیتے۔ کسی تنظیم میں جہاں ایک درسِ قرآن ہو رہا ہوتا تھا وہاں رپورٹوں میں دروسِ قرآن کی تعداد بڑھا چڑھا کے پیش کی جاتی۔ اس پالیسی کے دو تباہ کن نتائج برآمد ہوئے۔ ایک تو یہ کہ مرکز نے رفقاء کو جھوٹ اور دروغ گوئی جیسی قبیح برائیوں میں مبتلا کیا اور دوسری طرف خود مرکز زمینی حقائق سے دور ہو گیا۔ میرا ذاتی تجربہ یہ رہا کہ جب میں نے اپنی مقامی تنظیم کے امیر اور حلقے کے امیر کو اس غلط روش سے روکنے کی کوشش کی تو وہ میرے ہی خلاف ہو گئے اور مرکز تک میرے خلاف ایک مہم شروع کر دی گئی کہ میں تنظیم کا باغی ہوں۔ ناظمِ اعلیٰ اور امیرِ تنظیم کو جب میں نے حقیقت سے آگاہ کیا تو اُن کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس المیے کا صرف میں ہی سامنا نہیں کر رہا تھا بلکہ میری طرح کے اور بھی بہت سے رفقاء لاہور، ملتان، کراچی، فیصل آباد، پنجاب شمالی سے خیبر پختونخواہ تک اسی اذیت سے گزر رہے تھے۔ میری طرح جب انہوں نے بھی تنظیم کی اس منفی روش پر انگلیاں اٹھائیں تو انہیں باغی قرار دے کر لائم لائٹ سے اندھیروں میں دھکیل کر سائیڈ لائن کر دیا گیا۔ اس روش سے دلبرداشتہ ہو کر کئی بیدار ذہن رفقاء تو تنظیم ہی چھوڑ گئے۔ ثابت یہ ہوا کہ اس گندے کاروبار کی ڈوریں اوپر مرکز سے ہی ہلائی جا رہی تھیں۔ لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ تنظیمی رفقاء کی تعداد چودہ ہزار تک پہنچ چکی جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ حقیقی طور پر فعال رفقاء کی تعداد دو یا تین ہزار سے زائد نہ ہو گی۔ میں نے ناظمِ اعلیٰ کو ایک نشست میں یہ بات سمجھانے کی بھرپور کوشش کی کہ تنظیمِ اسلامی ایک رضاکارانہ تنظیم ہے، آپ اس میں جب مفاداتی تنظیم کے اصول اور ضابطے لاگو کریں گے تو نتیجہ تباہی کے سوا کچھ نہ ہو گا۔ لیکن حافظ عاکف سعید کی معیت میں مرکز تو تھا ہی تنظیمِ اسلامی کو تباہی سے دوچار کرنے کے مشن پر، اور وقت نے یہ ثابت بھی کر دیا۔

۸۔ اسی طرح تنظیم کے ہمہ وقتی زیرِ کفالت افراد (جو اپنا سب کچھ تج کر خود کو تنظیم کے لیے خود کو وقف کر دیں) اور کنٹریکٹ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے یہ اصول طے کیا تھا کہ ان کی تنخواہوں میں اضافہ گورنمنٹ کے پے سکیل کے مطابق ہر سال گورنمنٹ کے پاس کردہ بجٹ کے حساب سے کیا جائے گا۔ لیکن حافظ عاکف سعید کے دور میں تنخواہ میں اضافے کو پرفارمنس سے جوڑ دیا گیا۔ جبکہ پرفارمنس کی جانچ پڑتال کا کوئی باقاعدہ نظام یا پیمانہ وجود نہیں رکھتا۔ پرفارمنس کی جانچ پڑتال کا واحد پیمانہ ناظمِ اعلیٰ (اظہر بختیار خلجی) کی ذات ہے کہ وہ جس کی پرفارمنس سے خوش ہوں گے اُس کی تنخواہ اور دیگر مراعات میں جب چاہیں جتنا چاہیں اضافہ کر دیں گے۔ نتیجتاً کئی ذمہ داران تو ایسے ہیں کہ ناظمِ اعلیٰ کی گُڈ بُک میں نہ ہونے کی وجہ سے کافی عرصہ سے ایک ہی تنخواہ پر کام کر رہے ہیں اور دوسری طرف ناظمِ اعلیٰ کو خوش رکھنے والے ذمہ داران کی تنخواہوں اور دیگر مراعات میں باقاعدگی سے اضافہ ہوتا ہے۔ اسی طرح تنظیم میں یہ اصول بھی طے ہے کہ جو بھی ہمہ وقتی زیرِ کفالت رفیق کبھی تنظیم چھوڑے گا یا اُسے نکالا جائے گا تو اُسے رخصت کے وقت اِس قدر پیسہ دیا جائے گا کہ وہ باہر جا کر اپنے روزگار کا مناسب بندوبست کر سکے۔ لیکن یہاں بھی حال یہ ہے کہ جو لوگ امیرِ تنظیم یا ناظمِ اعلیٰ کو ناراض کر کے تنظیم سے نکلے تو انہیں بے آسرا اور بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا اور کسی بھی قسم کا معاوضہ دینے سے صاف انکار کر دیا گیا۔ اس کی تازہ مثال حافظ عاکف سعید اور اظہر بختیار خلجی کی ناراضی کا سبب بننے والے خالد محمود عباسی صاحب ہیں۔ اُن کا جرم یہ تھا کہ انہوں نے تنظیمِ اسلامی کے امامِ معصوم حافظ عاکف سعید کے محاسبے کا مطالبہ کر دیا۔

۹۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں سے رسم و راہ بڑھائی گئی اور اُن سے بڑی بڑی ڈونیشنز لی جانے لگیں۔ اور سرمایہ دار کبھی بھی اپنے مفاد کے خلاف انویسٹمنٹ نہیں کرتا۔ سرمایہ دار جب بھی کوئی فلاحی کام کرتا نظر آئے، کسی میڈیا ہاؤس یا کسی مذہبی جماعت کی پشت پناہی کرتا نظر آئے تو اُس کے پیشِ نظر اپنے کالے دھن کی حفاظت کے لیے پریشر گروپ بنانا ہوتا ہے۔ اس پس منظر کو سامنے رکھا جائے تو عین ممکن ہے کہ کچھ عرصہ پہلے تنظیمِ اسلامی نے سپریم کورٹ میں سود کے خلاف جو رٹ دائر کی تھی تو اُس کے پیچھے تنظیمِ اسلامی کے وہ ڈونرز ہوں جو نواز شریف کے مخالف کیمپ میں ہیں اور اس سرمایہ دار ٹولے کا مقصد نواز شریف حکومت کو ایک مشکل صورتحال سے دوچار کرنا ہو۔ چنانچہ سپریم کورٹ کا فیصلہ توقعات کے برعکس آنے پر تنظیم کے فورم سے عدلیہ اور حکومت کے خلاف خوب ہرزا سرائی کی گئی۔ حالانکہ ڈاکٹر اسرار صاحب نے تو امارت چھوڑتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ عدلیہ سے کسی قسم کے ریلیف کی توقع مت رکھیں اور اپنی توجہ اپنے اصل انقلابی منہج پر مرکوز رکھیں۔

۱۰۔ اسی طرح ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم تنظیمِ اسلامی کے تحت مساجد، مراکز اور جائیدادیں بنانے کے خلاف تھے۔ وہ کسی بھی قسم کی نفع بخش سرگرمی کی گنجائش دینے کے روادار نہیں تھے کیونکہ اُن کے پیشِ نظر تنظیمِ اسلامی ایک رضاکارانہ تنظیم تھی، نہ کہ ایک مفاداتی تنظیم۔ جبکہ حافظ عاکف سعید کی امارت کے دور میں نہ صرف مراکز کی تعمیر اور مساجد کے حصول کی دوڑ کا آغاز ہوا بلکہ بہاولپور میں کئی ایکڑ پر مشتمل قطعۂ اراضی اجتماع گاہ کے نام پر حاصل کر کے فصلوں کی کاشت اور اناج کی فروخت کے کام کا بھی آغاز کیا گیا۔ اسی طرح راولپنڈی کی ایک مسجد پر قبضے کے لیے پنجاب شمالی کے امیرِ حلقہ نے جس قسم کی پیشہ وارانہ گندی سیاست کا مظاہرہ کیا وہ اپنی جگہ ایک کراہت آمیز داستاں ہے۔ اور مرکز کی طرف سے اُس امیرِ حلقہ کی بازپرس کرنے کے بجائے یہ کہہ کر ستائش کی گئی کہ اُس شخص نے یہ مکروہ عمل تنظیم کے مفاد میں کیا ہے۔ مزید برآں ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم رفقاء کے باہمی کاروبار کی بھی حوصلہ شکنی کرتے تھے جبکہ حافظ عاکف سعید صاحب کے دور میں اس سرگرمی نے بھی ایسا زور پکڑا کہ قرآن اکیڈمی لاہور کے احباب کی بھاری رقوم ایک ” اہم ذمہ دار” (حافظ عاکف سعید کے انتہائی قریبی رشتہ دار) کی ترغیب پر شروع کیے گئے مضاربہ کے کاروبار میں ڈوب گئیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۱۱ ۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے دور میں زکواۃ کا پیسہ تنظیم کے بیت المال میں جمع ہوتا تھا اور ڈاکٹر اسرار مرحوم تک کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ بیت المال میں سے کسی رفیق کو اس کے ذاتی مصرف کے لیے پیسے دے سکیں۔ حافظ عاکف سعید کے دورِ امارت میں زکواۃ فنڈ کو بیت المال سے الگ کر کے امیرِ تنظیم کی دسترس میں دے دیا گیا کہ وہ جسے چاہیں ذاتی مصرف کے لیے اس فنڈ سے پیسے دے دیں۔ چنانچہ حافظ عاکف سعید اور اُن کے بہت سے امرائے حلقہ کی سفارش پر لوگوں کو اس فنڈ سے پیسے دیے جانے لگے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پیسے لینے والے رفقاء خود کو عاکف سعید صاحب کا ذاتی حیثیت میں احسان مند سمجھنے لگے اور اُن کی وفاداری نظریے یا جماعت سے ہٹ کر عاکف سعید صاحب سے جڑ گئی۔ اس احسان مندی کا عملی نمونہ موجودہ صورتحال میں دیکھا جا سکتا ہے جبکہ حافظ عاکف سعید کے تنظیمی فکر سے انحراف کے واضح ثبوت سامنے آ چکے ہیں لیکن عاکف سعید صاحب کے یہ ذاتی وفادار رفقاء اپنے امیر کے غیر مشروط دفاع میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اپنے باس یا جماعت سے وفاداری جو اُس سے حاصل کیے گئے کسی مفاد کی وجہ سے ہو اُسے آرگنائزیشنل سائیکالوجی میں نارمیٹِو کمٹمنٹ (Normative Commitment) کہتے ہیں۔ یہ طرزِ عمل بھی اس بات کا ثبوت ہے کہ تنظیمِ اسلامی اب ایک رضاکارانہ تنظیم سے مفاداتی تنظیم بن چکی ہے۔ ایک ایسی تنظیم کہ جس کے پیشِ نظر ایک خاص گروہ کے مفادات کا تحفظ ہے۔ جو شخص بھی ان مفادات کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بنے اُسے تین سطحوں پر ہینڈل کیا جاتا ہے۔ پہلے مرحلے میں اُسے مراعات اور عہدوں کا لالچ دیا جاتا ہے۔ میرا جب عاکف سعید صاحب اور اُن کے مفاد پرست ٹولے سے اختلاف پیدا ہوا تو پہلے پہل مجھے بھی حلقے کی سطح پر پروموشن کا لالچ دیا گیا جسے میں نے مسترد کر دیا۔ جب کوئی ساتھی اس پہلے جال سے نکل جائے تو دوسرے مرحلے میں اسے تنظیم میں سائیڈ لائن کر دیا جاتا ہے۔ شاید لوگوں کے لیے یہ خبر حیران کن ہو گی کہ جب پنجاب شمالی کے امیرِ حلقہ خالد محمود عباسی صاحب کو نائبِ ناظمِ اعلیٰ بنایا گیا تو عام رفقاء یہی سمجھتے رہے کہ حافظ عاکف سعید نے ان کی خدمات سے متاثر ہو کر ان کو پروموٹ کیا ہے۔ جبکہ حقیتِ امر یہ ہے کہ جب خالد محمود عباسی صاحب نے اندرونِ خانہ عاکف سعید صاحب کے فکری منہج اور طرزِ عمل سے اختلاف کرنا شروع کیا تو انہیں نائبِ ناظمِ اعلیٰ بنا کر سائیڈ لائن کر دیا گیا کیونکہ تنظیمی انتظامی ڈھانچے میں نائبِ ناظمِ اعلیٰ کا عہدہ ایک بے اختیار عہدہ ہے۔ انتظامی اختیارات ناظمِ اعلیٰ اور اُس کے امرائے حلقہ کے پاس ہوتے ہیں۔ جب کوئی رفیق اس دوسرے مرحلے سے بھی گزر جائے اور مفاد پرست ٹولے کے مفادات کی راہ میں مسلسل رکاوٹ ڈالتا رہے تو تیسرے مرحلے میں اُسے تنظیم سے خارج کر دیا جاتا ہے۔ خالد محمود عباسی صاحب کے ساتھ بھی آخری مرحلے میں یہی کیا گیا کہ انہیں تنظیم سے ہی نکال دیا گیا۔ چونکہ تنظیمِ اسلامی میں ڈاکٹر اسرار احمد کا آخری فکری وارث میں خالد محمود عباسی صاحب کو سمجھتا تھا تو تب تک ہی تنظیم میں رہا کہ جب تک امید کی یہ شمع روشن رہی۔ اور بالآخر خالد محمود عباسی صاحب کے اخراج کے بعد میں نے بھی تنظیمِ اسلامی کو خیر باد کہہ دیا۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply