تنظیمِ اسلامی کا زوال اور اُس کے اسباب ۔۔۔عمران بخاری/قسط3

حافظ عاکف سعید کا شخصی جائزہ

تنظیم  اسلامی کے موجودہ امیر (حافظ عاکف سعید) کی شخصیت پراسراریت سے بھرپور ہے۔ دوہزار دو میں یہ تنظیم کے امیر بنے۔ اُس سے پہلے نوے کی دہائی میں یہ میثاق (تنظیم کا ماہانہ رسالہ) کے مدیر تھے۔ ان کے امیر بننے سے پہلے کے اداریے پڑھیں تو آپ کو ایک انقلابی شخص نظر آئے گا جس میں اپنے والد (ڈاکٹر اسرار احمد) کی فکر رچی بسی ہوئی ہے۔ لیکن جیسے ہی یہ امیر بنے تو (ان کے اپنے بقول) انہوں نے ڈاکٹر اسرار احمد کی موجودگی میں شوریٰ سے اپنے پہلے خطاب میں یہ اعلان کیا کہ یہ تنظیم کو قراردادِ تاسیس کی بنیاد پر لے کر چلیں گے۔ حالانکہ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کے بقول قراردادِ تاسیس ایک اہم تاریخی ڈاکیومنٹ تو ہے لیکن اسے دستوری یا آئینی دستاویز کی حیثیت حاصل نہیں۔ میں عاکف سعید صاحب کے دعوے کو ہی قبول کروں تو نفسیات کے ایک ادنیٰ طالبعلم کی حیثیت سے فوراً یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ تنظیم کو لے کر چلنے کے حوالے سے اگر ان صاحب کی سوچ ڈاکٹر اسرار صاحب سے مختلف تھی تو یہ امیر بننے تک اس بات کو دل میں چھپا کر کیوں بیٹھے رہے؟ ان کا اپنا دعویٰ ہی خالد محمود عباسی صاحب (جنہیں حال ہی میں عاکف سعید نے خود پر فکری غداری کے الزام لگانے کے جرم میں تنظیم سے خارج کیا ہے) کے اس مؤقف کی صداقت پر مہر ثبت کرتا ہے کہ تنظیم کو اس کی اصل فکر اور منہج سے ہٹانے کا ان صاحب کا ایک خفیہ ایجنڈا ہے۔

ان صاحب کی شخصیت کے چند پہلو نہایت دلچسپ ہیں۔ یا تو ان صاحب میں انتہا درجے کی خود پسندی پائی جاتی ہے یا انتہا درجے کا احساسِ کمتری۔ اس کا اندازہ ان کے اُس آرڈر سے لگایا جا سکتا ہے جو مرکز کی طرف سے تمام رفقائے تنظیم کے لیے جاری کیا گیا کہ امیرِ تنظیم کو عاکف سعید کے نام سے پکارنے سے اجتناب کیا جائے اور انہیں امیرِ محترم کہہ کر پکارا جائے۔ اس حکم نامے سے جناب کی فکری اور ذہنی بلندی یا پستی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ داعیِ قرآن ہونے کے دعویدار ہیں اور تقریر ہمیشہ لکھی ہوئی پڑھتے ہیں۔ حتیٰ کہ اپنے والد صاحب کی وفات پر منعقدہ تعزیتی ریفرنس میں بھی موصوف نے لکھی ہوئی تقریر پڑھی۔ فکری پختگی اور گہرائی کا یہ حال ہے کہ آج تک کوئی ذی شعور رفیق فکری اور نظریاتی نوعیت کے کسی سوال کا ان سے جواب اور رہنمائی حاصل نہیں کر سکا۔ جہاں ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کا طرزِ عمل یہ تھا کہ وہ میڈیا پر آ کر، یونیورسٹیوں میں جا کر اور سیمینارز منعقد کر کے جدید تعلیم یافتہ طبقے کے الحاد اور گمراہ نظریات کو بے باکی اور دانش سے چیلنج کرتے تھے وہاں اِن صاحب کا حال یہ ہے کہ ایسے کسی بھی فورم پر جانے سے گھبراتے ہیں کہ جہاں جدید تعلیم یافتہ طبقے کے نمائیندے موجود ہوں۔ جہاں ڈاکٹر اسرار احمد اپنے رفقاء کو یہ ترغیب دیتے تھے کہ آپ کو اپنی انقلابی جدوجہد کے لیے مطلوب اصل کمک اسی جدید تعلیم یافتہ طبقے سے ہی ملے گی وہاں یہ موصوف (حافظ عاکف سعید) اپنے فکری دیوالیہ پن کو چھپانے کے لیے رفقاء کو اس جدید تعلیم یافتہ طبقے سے بیزار کرنے اور دور رکھنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر رفقاء کا اس جدید تعلیم یافتہ طبقے سے رابطہ پیدا ہو گیا تو ان میں عہدِ حاضر کے مسائل اور ان سے جڑے سوالات پیدا ہوں گے۔ اور جب رفقاء ان سوالات کی رہنمائی کے لیے اپنے امیر کے پاس آئیں گے تو حضرت کے زہد و تقویٰ کی آڑ میں بنائے گئے مقدس امیج کے پاش پاش ہونے کا خطرہ ہے۔ اپنے اس جھوٹے تقدس کو بچانے کی خاطر یہ صاحب اپنے رفقاء کو مین اسٹریم سے اور حتیٰ کہ سوشل میڈیا سے بھی دور رہنے کی ترغیب دیتے ہیں تاکہ نہ تو ان کے رفقاء کے اذہان میں عہدِ حاضر کے مسائل کی آگہی پیدا ہو اور نہ ہی ان کے امیر کے فکری اور ذہنی دیوالیہ پن کا بھانڈا پھوٹے۔ اِن کا ایک مزیدار وصف یہ بھی ہے کہ تنظیم کے انتظامی معاملات چلانے کے لیے حتمی فیصلہ اپنی شوریٰ یا توسیعِ عاملہ (کابینہ) کی مشاورت سے نہیں کرتے بلکہ اُس کے لیے استخارہ کا سہارا لیتے ہیں۔ سادہ لوح رفقاء اس طرزِعمل  کو بھی اپنے امیر کے زہد اور تقویٰ سے جوڑ دیتے ہیں۔ جبکہ حقیقتِ حال یہ ہے کہ اس استخارہ کے پیچھے گھریلو اسرہ کارفرما ہوتا ہے جس کا اجلاس ہفتے میں ایک دن طے ہوتا ہے۔ اس کچن کیبنٹ میں امیرِ تنظیم عاکف سعید صاحب کی والدہ اور بھائی شامل ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ استخارہ سے اصل مراد اس گھریلو اسرہ کا اجلاس ہوتا ہے۔ واقفانِ حال بتاتے ہیں کہ تنظیم کی اصل باگ ڈور اسی گھریلو اسرے کے ہاتھ میں ہی ہے۔ باقی توسیعِ عاملہ اور شوریٰ کے فورم تو کاغذی خانہ پوری سے زیادہ کوئی وقعت نہیں رکھتے۔ حقیقتِ امر یہ ہے کہ اس گھریلو اسرہ کا اصل ایجنڈا اُن تمام دنیاوی محرومیوں کا ازالہ کرنا ہے جن کا سامنا اس گھرانے کو ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کی دیوانگی کی بدولت کرنا پڑا ہے۔ اس گھریلو اسرے کے افراد فکری اور نظری اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتے ہیں لیکن بنیادی ایجنڈے میں سب یکسو ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا خاندان اس ایک نقطے پر یکسو ہے کہ تنظیمِ اسلامی اُن کو وراثت میں ملی جاگیر ہے۔

اگر تنظیمِ اسلامی کے موجودہ امیر حافظ عاکف سعید صاحب کے امیرِ تنظیم بننے کے بعد تنظیمِ اسلامی میں لائی گئی تبدیلیوں کا جائزہ لیا جائے تو اُس کی دو جہتیں نمایاں ہیں۔ پہلی جہت فکری اور عملی نوعیت کی ہے اور دوسری جہت انتظامی نوعیت کی ہے۔

حافظ عاکف سعید کا فکری اور عملی منہج:

۱- ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے تنظیمِ اسلامی کے قیام کا مقصد یہ بیان کیا تھا کہ یہ جماعت اجتماعی سطح (سیاسی، معاشی اور معاشرتی) پر دین کے عادلانہ نظام کے قیام کی جدوجہد کرے گی اور یہ جدوجہد اتنا بڑا فرض ہے کہ باقی تمام دینی فرائض اس فرض کے تابع ہیں۔ یعنی اگر کوئی شخص اقامتِ دین کی جدوجہد نہیں کر رہا تو اس بڑے اور بنیادی فرض کو ترک کرنے کی وجہ سے قیامت کے روز اس کی نمازیں اور روزے اس کے منہ پر دے مارے جائیں گے۔ عاکف سعید صاحب کے امیر بننے کے بعد تنظیمی تربیت گاہوں میں ایسے مباحث متعارف کروائے گئے اور رسائل میں ایسے مضامین چھاپے گئے جو ڈاکٹر اسرار صاحب کے مؤقف کی کھلی مخالفت پر مبنی تھے۔ رفقاء کو تربیت گاہوں میں یہ تلقینیں کی جانے لگیں کہ اپنے دروس میں اقامتِ دین کی جدوجہد کو فرضِ عین کہنے سے احتراز کریں اور بنیادی فریضہ یا محض فرض کی اصطلاحات استعمال کی جائیں اور یہ بھی کہا جانے لگا کہ ڈاکٹر اسرار صاحب شدت پسند تھے اور اعتدال سے ہٹے ہوئے تھے۔ حافظ عاکف سعید صاحب کا بھتیجا انجینئرنگ کے لیے اسلام آباد آیا تو اس یونیورسٹی کے نقیبَ اسرہ کو عاکف سعید صاحب کے بھائی عاطف وحید صاحب نے فون کیا اور سرزنش کے ساتھ تاکید کی کہ میرے بیٹے کو پڑھنے دو اور تنظیمی سرگرمیوں کے لیے تنگ مت کرو۔ جب اس نقیبِ اسرہ نے اقامتِ دین کی فرضیت پر زور دیا تو عاطف وحید صاحب نے فرمایا کہ ہم اسے فرضِ کفایہ سمجھتے ہیں اور اس ضمن میں ہماری ڈاکٹر اسرار صاحب سے بات بھی ہوئی ہے۔ عاکف سعید صاحب کے سامنے جب یہ معاملہ اٹھایا گیا تو اس پر کوئی ایکشن نہ لیا گیا بلکہ اس نقیب کو اتنا بدظن کیا گیا کہ وہ بالآخر تنظیم ہی چھوڑ گیا۔

۲- پھر ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کا نقطۂ نظر یہ تھا کہ انقلابی جدوجہد (اقامتِ دین کی جدوجہد) کے لیے کم از کم لیڈرشپ کی حد تک لازم ہے کہ اُن کا ایمان شعوری ہو۔ جبکہ عاکف سعید صاحب اپنے والد کی اس رائے سے اختلاف کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر اسرار احمد کی رائے کو رد کرنے کے لیے وہ طالبانِ افغانستان کی مثال پیش کرتے ہیں کہ وہ لوگ بغیر کسی شعوری ایمان کے تبدیلی لے آئے۔ عاکف سعید صاحب کے وژن، سوچ اور دانش پر سر پیٹنے کو جی چاہتا ہے کہ طالبانِ افغانستان کے چند سزائیں نافذ کرنے کو وہ نظام کی تبدیلی سمجھتے ہیں۔ ایسے امیر کے فہم اور دانش کا ماتم کیوں نہ کیا جائے کہ جسے ڈاکٹر اسرار احمد کے عمرانی فکر  کی کوئی سمجھ ہی نہ ہو اور جسے نظام کی تبدیلی اور تعذیرات کے نفاذ میں فرق ہی معلوم نہ ہو۔ اتفاق کی بات ہے کہ اسلام آباد میں رفقاء کے ایک اجتماع میں (جس میں لگ بھگ تین سے چار سو رفقاء شامل تھے) میں نے جب عاکف سعید صاحب کی اس فکر کو چیلنج کیا تو موصوف ایسے حواس باختہ ہوئے کہ جواب نہ بن پڑنے پر بہانہ بنا کے جواب ٹال گئے کہ اس اجتماع میں کچھ غیر تنظیمی رفقاء بھی شامل ہیں اس لیے میں اِس فورم پر اس سوال کا جواب نہیں دوں گا۔ اور یہ وعدہ کر کے کھسک گئے کہ اگر محض رفقاء کا اجتماع منعقد کیا جائے تو وہ اس میں میرے سوالوں کا جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ اور کوئی پانچ چھ برس تک وہ نوبت ہی نہیں آئی کہ عاکف سعید صاحب میرے سوالوں کا جواب دیتے۔ بلکہ انتظامی عہدیداران اس تمام دورانیہ میں اس بات کو یقینی بناتے رہے کہ میں دوبارہ عاکف سعید صاحب تک نہ پہنچ سکوں۔ عاکف سعید صاحب کی سبکی کے بعد میرے ساتھ تنظیم میں کیا برتاؤ کیا گیا اُس کی تفصیل پھر کسی مضمون میں تحریر کروں گا۔

۳- علمِ نفسیات ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انسانی رجحانات صرف دو انتہاؤں پر یا ایک دوسرے کی ضد کی صورت میں نہیں پائے جاتے بلکہ دو انتہاؤں کے مابین ایک تسلسل (Continuum) کی صورت میں سفر کرتے ہیں اور درمیان میں ایک ایسی سطح بھی آتی ہے جہاں انسان کا رجحان نیوٹرل ہو جاتا ہے۔ اسے عام الفاظ میں گوں مگوں کی کیفیت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ایک داعی کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مخاطبین کی اس ذہنی ساخت سے بخوبی واقف ہو۔ جب آپ اپنے مخاطبین کے بارے یہ غلط فہمی اپنے ذہن میں پال لیں گے کہ وہ شعوری یا غیر شعوری طور پر اپنی سوچ اور عمل میں آپ کے مخالف ہیں تو آپ اپنے اور اپنے مخاطبین میں خود ہی ایک دیوار حائل کر دیتے ہیں۔ اور وہ دیوار ہے تکبر اور حقارت کی۔ تکبر اور حقارت انتہا پسند رجحانات اور رویوں کو جنم دیتے ہیں۔ مخاطب کے لیے داعی کی اصلاحی بات بھی بالکل بے اثر ہو کر رہ جاتی ہے جب مخاطب اپنے داعی میں تکبر اور حقارت کے انتہا پسندانہ رجحانات محسوس کرتا ہے۔ اسی حقیقت کو سامنے رکھتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے ایمان اور نفاق کے روایتی تصور کی اصلاح کی اور یہ واضح کیا کہ ایمان اور نفاق میں ایک زیرو لیول (نیوٹرل لیول) بھی ہوتا ہے۔ یہ اصلاحی نقطہ داعی کے لیے بہت بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ اگر داعی یہ سمجھے گا کہ اُس کے مخاطب نفاق میں مبتلا ہیں اور وہ خود ایمان کی نعمت سے مالا مال ہے تو اس میں اپنی ذات کے لیے تکبر اور دوسروں کے لیے حقارت پیدا ہو گی۔ نتیجہ یہ نکلے گا نصح و خیر خواہی کے جذبات سے محروم ہو جائے گا۔ عاکف سعید صاحب ڈاکٹر اسرار احمد کے اس نقطۂ نظر سے بھی اختلاف رکھتے ہیں اور چیزوں کو بلیک اینڈ وائٹ میں دیکھنے کے روایتی تصور کے حامی ہیں۔ اُن کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ اُن میں اپنے مخالفوں کے بارے کتنی حقارت اور اپنے زہد و تقویٰ کا کتنا خمار طاری ہے۔ لیکن عاکف سعید صاحب اپنا یہ باطن صرف اس صورت میں ظاہر کرتے ہیں جب وہ یہ محسوس کریں کہ ان کے سامنے موجود بندہ اُن کے زہد و تقویٰ سے متاثر ہو چکا ہے۔ ورنہ عموماً وہ خود پر عاجزی اور انکساری کا غلاف چڑھائے رہتے ہیں۔

۴۔ ڈاکٹر اسرار احمد صاحب نے تاریخ اور فلسفۂ تاریخ کے اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے سیرتِ نبویٌ سے اپنی اقامتِ دین کی جدوجہد کے طریقۂ کار کے لیے کچھ رہنما اصول اخذ کیے۔ منہجِ انقلابِ نبویٌ کے عنوان سے اقامتِ دین کی جدوجہد کا یہ طریقۂ کار تنظیمِ اسلامی کی اساسات میں شمار ہوتا ہے اور دستورِ تنظیم میں لکھا ہے کہ جس شخص کو اس طریقۂ کار سے اختلاف ہو گا اس کی تنظیم میں کوئی جگہ نہیں۔ عاکف سعید صاحب اس منہج سے بھی اختلاف رکھتے نظر آتے ہیں۔ چنانچہ جب دو ہزار دس یا گیارہ کے سالانہ اجتماع میں عاکف سعید صاحب نے اپنے خطاب میں یہ اعلان کیا کہ اگر پاکستان میں طالبانِ افغانستان آئے تو ہم اُن کا ہر اول دستہ بنیں گے تو اُن کے اس بیان کو عاکف سعید صاحب کے جرأت مندانہ بیان کے طور پر خوب پروجیکشن دی گئی۔ ایک محفل میں تنظیم کے ناظمِ اعلیٰ اظہر بختیار خلجی صاحب کو میں نے اس بیان کی ستائش اس انداز میں کرتے سنا کہ “مقتدر حلقوں نے عاکف سعید صاحب کے اس بیان کا نوٹس لیا ہے”۔ گویا رفقاء کو یہ بارآور کروا رہے تھے کہ اُن کے امیر نے یہ ایک انقلابی بیان دیا ہے۔ اوپر میں نے ایک اجتماع میں عاکف سعید صاحب سے ہونے والے جس مباحثے اور تلخی کا حوالہ دیا تھا وہ اسی بیان سے متعلق تھا۔ میں نے منہجِ انقلابِ نبوی کی کتاب لہراتے ہوئے مجمعے میں یہ سوال کیا تھا کہ اگر آپ نے طالبان کا ہراول دستہ بننا ہے تو کیا ہم اس منہج کو اب قصۂ ماضی سمجھیں؟ کیونکہ ہم نے تو اپنی جدوجہد کے لیے رہنمائی اس کتابچے میں درج طریقۂ کار سے لینے کا عہد کیا تھا جبکہ طالبان کا طریقۂ کار کچھ اور ہے۔ اُس پر محترم یہ بہانہ بنا کر ٹال گئے کہ چونکہ اس محفل میں کچھ غیر تنظیمی لوگ بھی موجود ہیں تو میں اِس محفل میں اس سوال کا جواب نہیں دے سکتا۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ تنظیم کے سالانہ اجتماع میں تنظیمی رفقاء کے ساتھ ساتھ غیر تنظیمی احباب بھی شریک ہوتے ہیں اور اُن غیر تنظیمی احباب کے سامنے جب ایک بیان دے سکتے ہیں تو اُن کے سامنے اُس بیان کی وضاحت دینے میں کیا عار تھی؟

۵- ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کے وضع کردہ منہجِ انقلابِ نبویٌ سے عاکف سعید صاحب کے اختلاف کا ایک اور ثبوت اُن کا وہ متصوفانہ خفیہ ایجنڈا ہے جسے وہ اپنے رفقاء کے تزکیہ کے لیے لے کر چل رہے ہیں۔ محترم چونکہ خود تصوف اور اُس کے مروجہ طریقۂ کار سے متاثر ہیں تو چاہتے ہیں کہ اپنے رفقاء کا تزکیہ بھی اسی منہج پر کریں۔ چنانچہ تنظیم میں تربیت گاہوں میں رفقاء کو تزکیے کے لیے “دل کی دنیا” جیسے کتابچے پڑھنے کی تلقینیں کی جانے لگیں اور رفقاء میں ڈاکٹر اسرار احمد کے بیان کیے گئے تزکیے کے طریقۂ کار سے اختلافات بیان کیے جانے لگے۔ ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم نے اپنی کتاب “منہجِ انقلابِ نبویٌ” میں لکھا ہے کہ ہم اپنے رفقاء کا تزکیہ نبویٌ طریقۂ کار پر کریں گے اور قرآن کے ذریعے سے رفقاء کا تزکیہ کیا جائے گا۔ اس پر مزید یہ کہ ڈاکٹر اسرار احمد نے اپنی اسی کتاب میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ ہم اپنے رفقاء کے تزکیے کے لیے تصوف کا طریقۂ کار ہرگز اختیار نہیں کریں گے۔ ستم بالائے ستم یہ ہے کہ دستورِ تنظیم میں لکھا ہے کہ منہجِ انقلابِ نبویٌ سے اختلاف کرنے والے کے لیے تنظیم میں کوئی جگہ نہیں لیکن یہاں نہ صرف یہ کہ ایک شخص اس تنظیمی اور دستوری اساس سے اختلاف رکھتا ہے بلکہ وہ اس اختلاف کے باوجود تنظیم کا امیر بھی ہے۔ جب امیر ہی اپنے عہد کی پاسداری کرنے والا نہ ہو تو کسی اور فرد کے لیے کیونکر یہ جواز نہ ہو گا کہ وہ بھی تنظیم میں اپنا کوئی خفیہ ایجنڈا لے کر چل سکتا ہے؟ چنانچہ اس فکری اور عملی انتشار کا مظہر کراچی، لاہور، جھنگ اور فیصل آباد میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ جہاں بیٹھے اکابرینِ تنظیم اپنا اپنا خفیہ ایجنڈا لے کر چل رہے ہیں اور ڈاکٹر اسرار احمد اور اُن کی بنائی تنظیمِ اسلامی کا نام کیش کر رہے ہیں۔

۶۔ تنظیمِ اسلامی ایک اسلامی انقلابی جماعت تھی جس کے پیشِ نظر سیاسی، معاشی اور معاشرتی انقلاب برپا کرنا تھا۔ ڈاکٹر اسرار احمد سیاسی سطح پر کسی بھی طبقے کی اجارہ داری کے خلاف تھے اور خلیفہ کا انتخاب جمہوری اصولوں کے تحت الیکشن کے ذریعے کرنے کے قائل تھے۔ تھیوکریسی (مذہبی طبقہ کی اجارہ داری) کے تو وہ سخت خلاف تھے لیکن اُن کے برعکس عاکف سعید صاحب اور اُن کے حواری رفقاء کو یہ سمجھانے لگے کہ ہم تو علماء کی حکومت کے قائل ہیں۔ ہم جو بھی نظام لائیں گے وہ علماء کی رہنمائی سے ہی لائیں گے۔ معاشی نظریات کی بات کی جائے تو ڈاکٹر اسرار صاحب اسلامی بینکاری کو بھی سودی بینکاری ہی کی دوسری شکل مانتے تھے جبکہ عاکف سعید صاحب اور اُن کے حواریوں نے رفقاء کو یہ تلقینیں شروع کر دیں کہ اسلامی بینکاری کے خلاف بات نہ کریں کیونکہ اس سے علماء ناراض ہو جائیں گے۔ بعد میں یہ بات بھی ثبوتوں کے ساتھ سامنے آئی کہ ان کی آشیرباد سے انجمن خدام القرآن کے فنڈز کو رفقاء سے چھپا کر سودی انوسٹمنٹ میں لگایا جاتا رہا۔ جب یہ چوری پکڑی گئی تو عاکف سعید صاحب نے سوال اٹھانے والوں کو تسلی دلانے کے لیے یہ جھوٹ بول دیا کہ جب ہم نے یہ انوسٹمنٹ کی تھی تب علماء کے جواز کا فتویٰ موجود تھا۔ اگلے ہی برس جب علماء نے اس کے حرام کا فتویٰ دیا تو ہم نے اُس سودی انوسٹمنٹ سے پیسے نکال لیے۔ جبکہ یہ صریح جھوٹ تھا۔ ایک تو جب انہوں نے یہ انوسٹمنٹ کی تھی اس سے دس گیارہ سال پہلے سے علماء کا فتویٰ موجود تھا کہ اس طرح کی سودی انوسٹمنٹ حرام ہے اور دوسری طرف یہ بھی جھوٹ ہے کہ انہوں نے اگلے ہی سال اپنی اس غلطی سے توبہ کر لی تھی۔ ہم نے وہ ڈاکیومنٹ بھی پبلک کر دیے ہیں جو ثابت کرتے ہیں کہ ان لوگوں نے سودی انوسٹمنٹ سے انجمن کے پیسے نہیں نکالے۔ اسی طرح معاشرتی نظام کی سطح پر دیکھیں تو ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم مرد و عورت کے اختلاط کے خلاف تھے۔ وہ اسلام کے معاشرتی نظام میں لائی جانے والی بنیادی تبدیلیوں میں سے ایک یہ تبدیلی گنواتے تھے کہ اسلامی معاشرے میں مرد و عورت کا اختلاط نہیں ہو گا۔ اس کے برعکس رفقاء کے لیے اختلاطِ مرد وزن سے اجتناب کی تلقینیں اور عاکف سعید صاحب کا اپنا حال یہ ہے کہ اپنے ایک کزن کے سکول میں خواتین اساتذہ کا انٹرویو کرتے پائے جاتے ہیں۔ ایک مرکزی رہنما ڈاکٹر عبداسمیع کی آشیرباد سے فیصل آباد کی قرآن اکیڈمی میں ایک پرائیویٹ سکول کا فن گالا منعقد ہوتا ہے جس میں اختلاطِ مرد و زن بھی ہوتا ہے اور موسیقی کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے۔ عاکف سعید صاحب کو جب فیصل آباد کی انجمن خدام القرآن کے چند رفقاء کی طرف سے ڈاکٹر عبدالسمیع کی شکایت پہنچتی ہے تو ڈاکٹر عبداسمیع کے خلاف تو کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا لیکن ڈاکٹر عبداسمیع انجمن خدام القرآن کی شوریٰ تحلیل کر دیتے ہیں۔ حافظ عاکف سعید صاحب اور ان کے حواریوں کے اور بھی بے شمار واقعات بیان کر سکتا ہوں لیکن یہاں صرف دو پر ہی اکتفا کر رہا ہوں کیونکہ مقصد ان کا تضاد واضح کرنا ہے، نہ کہ ان کی کردار کشی۔

۷۔ حافظ عاکف سعید صاحب کے ہی چھوٹے بھائی عاطف وحید نے جب کلیة القرآن (جو پہلے قرآن کالج تھا) کا الحاق وفاق المدارس سے کیا تھا ہم جیسوں کے کان کھڑے ہوئے کہ یہ ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ جہاں تنظیم کا بنیادی تعارف ہی یہ ہے کہ “تنظیمِ اسلامی کوئی مذہبی فرقہ نہیں” تو وہاں دیوبندی نقطۂ نظر کے حامل ادارے سے الحاق گویا پالیسی شفٹ کے مترادف ہے۔ یعنی اب تنظیم میں ایک خاص قسم کی حنفیت کو فروغ دینے کی داغ بیل ڈالی جا رہی ہے۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ کلیة القرآن کی طرف سے وفاق المدارس کو الحاق کے لیے یہ لکھ کر دیا گیا ہے کہ ان کا مولانا مودودی اور ڈاکٹر اسرار احمد کی فکر سے کوئی تعلق نہیں تو ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ ملتان کے ہی ہمارے چند ہم خیال ساتھی اس بات کی تحقیق کے لیے جب خیرالمدارس ملتان (وفاق المدارس کا ہیڈ کوارٹر) گئے تو وفاق المدارس کے نمائیندے نے کنفرم کیا کہ یہ بات درست ہے۔ جب حافظ عاکف سعید صاحب اور ان کے حواریوں کو پتہ چلا کہ ہم تک اندر کی یہ بات پہنچ چکی ہے تو انہوں نے اپنی جان چھڑوانے کے لیے یہ کہہ دیا کہ انجمن خدام القرآن پر ان کا کوئی کنٹرول نہیں حالانکہ موصوف کے بھائی عاطف وحید تنظیمِ اسلامی کے رفیق ہیں اور عاکف سعید صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حافظ عاکف سعید کو بھائی کی اس حرکت پر اس کے خلاف ایکشن لینے سے کس نے روکا؟ عام رفقاء کی تو محض سوال کرنے پر بیعت فسخ ہو جاتی ہے اور ان کا جماعت سے اخراج ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف عاطف وحید صاحب نے اپنے قریبی لوگوں میں اس انداز میں اعتراف کیا ہے کہ ہم نے اپنے خط میں صرف مولانا مودودی سے برأت کا اظہار کیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ وفاق المدارس کی ایک اہم ذمہ دار شخصیت کا اثر و رسوخ استعمال کروا کے اب اس خط کو وفاق کے کمپیوٹر ریکارڈ سے ہٹوا دیا گیا ہے تاکہ ہم جیسا کوئی متجسس اس خط کی کاپی نہ نکلوا سکے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

۸۔ ڈاکٹر ااسرار احمد مرحوم کی تحریروں اور تقریروں میں تحریف کی جانے لگی۔ تنظیم کے ایک رفیق نے ہمیں بتایا کہ اُسے عاکف سعید صاحب کے چھوٹے بھائی عاطف وحید نے کہا کہ “اگر میرا بس چلے تو میں ڈاکٹر اسرار احمد (موصوف کے والد) کا آدھا مواد یوٹیوب سے اتروا دوں”۔ یہ بات سن کر ہمارے کان کھڑے ہوئے۔ جب عاکف سعید صاحب کے سامنے گواہ سمیت یہ معاملہ اٹھایا گیا تو عاطف وحید کے خلاف ایکشن لینے کی بجائے عاکف سعید صاحب اس معاملے کو ہی دبا گئے۔ لیکن ہم الرٹ ہو چکے تھے۔ ہم نے جب اس بات کو مزید کنگھالنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ ڈاکٹر اسرار صاحب کی کتابوں میں بھی تحریف ہو رہی تھی اور تقریروں میں بھی۔ اس کے کئی ثبوت ہم پہلے ہی پبلک کر چکے ہیں۔ عاکف سعید صاحب کے ہی چھوٹے بھائی آصف حمید (جو تنظیم کے میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے انچارج ہیں) سے ایک دفعہ میری ڈاکٹر اسرار احمد صاحب کی فیصل آباد میں اپریل دوہزار دس میں منعقدہ تربیت گاہ میں ریکارڈ کی گئی وڈیوز میں تحریف کے موضوع پر گفتگو ہوئی تو موصوف میرے سیدھے سوال کے جواب سے ہی کنی کترا گئے۔ میں نے موصوف سے کہا کہ آپ یہ بیان دے دیں کہ فیصل آباد میں منعقدہ اجتماع والی وڈیوز میں سے جو کچھ نکالا گیا ہے وہ آپ کے علم میں نہیں۔ میرے سوال کا جواب تو نہیں ملا لیکن موصوف باتوں کو ادھر ادھر گھما کر نکلتے بنے۔ میرے پاس آج بھی وہ میسجز بطور ثبوت محفوظ ہیں۔ اسی طرح ڈاکٹر اسرار صاحب کی کئی تحریروں کی اشاعت دانستہ طور پر روک دی گئی جن کی نشاندہی ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔ نہ صرف اشاعت روک دی گئی بلکہ پورے ملک کے تنظیمی مکتبوں سے وہ کتابیں اٹھوا کر غائب کر دی گئیں۔ اسی طرح ڈاکٹر اسرار احمد کی بیان کردہ تفسیر بیان القرآن میں بھی کئی تحریفات کی گئیں اور بہت سی ایسی باتوں کو نکال دیا گیا جن کی زد میں حافظ عاکف سعید اور ان کے حواری آتے تھے۔

Facebook Comments

عمران بخاری!
لیکچرار، قومی ادارہءِ نفسیات، قائدِ اعظم یونیورسٹی اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply