لوک رنگ۔۔سائرہ ممتاز/حصہ دوم

زندگی کی رفتار کا مقابلہ کرنا اس صدی میں مشکل تر ہو گیا ہے. لیکن باجرے کا سٹہ  تلی پر رکھ مروڑا تو اب بھی جا سکتا ہے۔ ہاتھ پر بنی اون کی جرسیوں کی بات ہو رہی تھی. بس یہی کچھ تو نہیں تھا اور بھی بہت چیزیں تھیں جو کھو گئیں ہیں، جیسے کہ کبھی آپ نے اسکول پہنچ کر ٹاٹ پر بستہ رکھا اور پھر  باجی یا آپا (اس دور میں استانیوں کو ٹیچر، مس یا میم کی بجائے باجی اور آپا کہہ کر مخاطب کرنے کا رواج بھی تھا) کو لینے ان کے گھر گئے ہیں اور پھر چھٹی ویلے انھیں گھر پہنچانے کا فریضہ بھی انجام دیتے رہے ہیں؟ اگر ایسا تھا تو یقین کریں آپ بہت خوش قسمت ہیں (کل شب ہی امی اور چچی جان نے مجھے یہ واقعات سنائے جب وہ اپنی آپا رضیہ کو اسکول لانے اور گھر پہنچانے کا فریضہ انجام دیتی تھیں اور پھر دوران پڑھائی گھر جا کر ان کے برتن دھونے، جھاڑو لگانے، گجریلا بنانے، دوپہر کے لیے سالن بنانے جیسے روز مرہ کام انجام دینے بھی جایا کرتی تھیں). گڑ والی گجچک، اٹا گٹا، مونگ پھلی والا گڑ، املوک، جیسی سوغاتوں کی جگہ اب رنگ برنگی کینڈیز، چاکلیٹس اور  ٹافیاں آ چکی ہیں اور جنھیں کھا کر بچے بیمار ہوئے  جاتے ہیں. لوگوں کی صحت کا حال مندا ہے اور بیماریاں منہ پھاڑے کھڑی ہیں.

خیر سردیاں جتنی آتے ہوئے خوبصورت ہوتی تھیں جاتے سمے اس سے بھی زیادہ خوبصورتی بکھیر جاتیں. جنوری کے آخر میں جب پوہ کا مہینہ ختم ہوتا ہے تو سردی کا زور بھی ٹوٹ جاتا ہے اس وقت موسم کی انگڑائی اتنی توبہ شکن ہوتی ہے کہ اب اس بلیک اینڈ وائٹ دور میں وہ نظر نہیں آ سکتی. آپ بلیک اینڈ وائٹ کہنے پر چونک تو گئے ہوں گے ارے بھئ جب اسموگ کا دھواں ہر منظر پر حاوی ہونے لگے ، آسمان مستقل نیلے کے بجائے ملگجے سلیٹی رنگ یا سرمئی رنگ کا نظر آنے لگے، ایک ہلکی مگر گہری سی چادر فضا اور انسانی آنکھ کے درمیان تن جائے تو آپ’ وہ رنگ اور بسنت رت کیسے دیکھ سکتے ہیں جب سرسوں اپنے جوبن پر ہوتی ہے. جسے دیکھ کر طوطی ہند امیر خسرو کہہ اٹھتے ہیں۔۔
سکل بن پھول رہی سرسوں
اور جسے محسوس کر کے پروین شاکر جیسی حساس شاعرہ یہ گنگنا اٹھتی ہے
گوری کرت سنگھار
بال بال موتی چمکائے روم روم مہکار
مانگ سیندور کی سندرتا سے چمکے چندن وار
اپنا آپ درپن میں دیکھے اور شرمائے نار
گوری کرت سنگھار… گوری کرت سنگھار

آپ نے کبھی سردیوں میں شلجم کاٹ کر دھوپ میں سکھا کر رکھے ہیں پھر انھیں پورے سال پکا پکا کر کھایا ہے؟ اس دور میں جب بے موسم کی سبزی سارا سال ملتی ہو ،یہ تصور بھی محال ہے. ورنہ آلو گوبھی کے سالن میں میتھی کے تڑکے کی خوشبو جو مزہ سردیوں میں دیتی ہے وہ شاید آپ اب محسوس بھی نہ  کر پائیں. مٹر اور چقندر بھی سردیوں کی سوغات ہیں وہ گاجر کہاں سے لائیں گے جو آرگینک کھاد سے زیر زمین تیار ہوتی تھی اور پھر آلو، مٹر، گاجر، مولی، شلجم، شملہ مرچ گوبھی کی مکس سبزی میں خوبصورت سا رنگ اور ذائقہ بکھیر دیتی تھی. کبھی آپ کے بچے نے گائے کے دودھ سے بنا تازہ مکھن کا پیڑہ روٹی پر رکھ کر چینی ڈال کر کھایا ہے؟ آپ کے اور میرے بچے تو سیاہ و سفید دور میں  جی رہے ہیں ۔ان کی زندگی میں اتنے مصنوعی رنگ بھرے جا چکے ہیں کہ اصلی دیسی گھی کی خوشبو سے انھیں ابکائیاں آنے لگتی ہیں ،یہ پاپڑ چھولے کھا کر جوان ہونے والی نسل شیر جیسا کلیجہ اور پرانی زیرک نگاہی کہاں سے لائے گی؟ یہ نسل مدبر اور فطین نہیں بن سکے گی، سامنے لکھا نظر آ رہا ہے…!

جاری ہے

پہلی قسط کا لنک   https://www.mukaalma.com/14118

Save

Advertisements
julia rana solicitors london

Save

Facebook Comments

سائرہ ممتاز
اشک افشانی اگر لکھنا ٹھہرے تو ہاں! میں لکھتی ہوں، درد کشید کرنا اگر فن ہے تو سیکھنا چاہتی ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply