انسانی پنجے کا نشان۔۔۔ثنا اللہ احسن

میرے والد صاحب اپنے چند دوستوں کے ساتھ دھوپ میں کرسیاں ڈالے بیٹھے تھےان کے ایک دوست قادری صاحب جن کا تعلق انڈیاں سےتھا کہنے لگے آپ میں سے کسی نے دو مختلف دریاِؤں کو ایک دوسرے پر سے کراس کرتے دیکھا ہے ظاہر ہے اکثریت کو جواب نفی میں تھا قادری صاحب نے ان دریاؤں کے متعلق بتاتے ہوئے ایک واقعہ کا ذکرکیا جو ان کی آنکھوں دیکھا تھا جو کہ ان ہی کی زبانی پیش کر رہی ہوں۔
یہ بات تقریباً ۶۰۔۱۹۵۵ کی ہے جب میں واٹرورکس میں کام کرتا تھامیرا ٹرانسفر ہندوستان کے ایک شہر روڑی میں ہو گیا جہا پر مجھے وہ دونوں دریاں جو ایک دوسرے پر جمع کی شکل میں گزرتے تھے دیکھنے کا  موقع ملا یعنی ایک دریا کے اوپر سے کنکریٹ کی نہر کی شکل کا پل بنا یا تھا دوسرا دریا اس نہر نما پل میں سے ہو کر گزرتا تھاکیونکہ اس قسم کے دریاؤں کی کراسنگ عام نہیں ہوتی اس ہی لئے اسے دیکھنے کے لئے لوگ دور دور سے آیا کرتے تھے۔
ایک روز ان دریاؤں کی کراسنگ سے تھوڑا دور ہٹ کر جہاں عام آدمی کم ہی جایا کرتے تھے کچھ لوگوں کو جمع دیکھا مجھے بھی تجسس ہوا میں بھی ان لوگوں کی طرف گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ ایک شخص دریا میں نہا رہا تھا اور اس شخص کی کمر پر ایک انسانی ہا تھ کا واضح نشان نظر آرہا تھا جس طرح کوئی زخم بھرنے کے بعد اپنا نشان چھوڑجاتا ہے- لوگ اور میں اسےحیرت سے دیکھتے رہے – جلدہی اس شخص نے محسوس کیا کہ وہ لوگوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے وہ شخص جلدہی دریا سے باہر نکلا اور اپنے کپڑے جو کہ دریاکے کنارے پڑے تھے اٹھا کر تیزی سے قریبی کٹیا میں چلا گیا – اس شخص کی کٹیا آبادی سے کافی دور واقع تھی- مختصراًکہ لوگ وہاں سے چلے گئے چونکہ میرا تعلق واٹر ورکس سے تھا تو میرا اکثر وہاں سے گزر گزر ہوتا تھا اکثر اس کی کٹیا کی طرف نظر پڑتی تھی میں نے دیکھا کہ ایک نوجوان روزانہ اس شخص کے پاس موجود ہوتا تھا- پہلے تو میں سمجھا کہ شاید سٹہ کا نمبر وغیرہ  معلوم کرنے آتا ہوگا کیونکہ اکثر لوگ جانتے ہیں کہ سٹہ باز وہی ہوتے ہیں اور ایسے اشخاص سے جو دنیا سے الگ تھلگ زندگی گزارتے ہیں ان سے اس قسم کے نمبر وغیرہ پوچھتے ہیں- ایک دن اتفاق سے اس نوجوان کا اور میرا آمنا سامنا ہو گیابات چیت ہوئی تو میں نے اس سے پوچھا کہ بھائی اس شخص کے پاس کیوں آتے ہو۔؟ تو اس شخص نے میری غلط فہمی دورکرتے ہوئے بتایا کہ وہ ایک رسالےسے منسلک ہے اورجب سے اس بابا کی کمر پر پنجے کا نشان دیکھا ہے وہ اس کہ حقیقت معلوم کرنا چاہتا ہے کہ یہ پنجے کا نشان اس کی کمر پر کس طرح بنا ؟ اس نے بتایا کہ میں کئی روز سے بابا کی خدمت کر رہا ہوں اور بابا کے لئے کھانے پینے کی اشیاء لاتا ہوں لیکن بابا نہ یہ اشیاءقبول کرتا ہے اور نہ ہی پنجے کے نشان کے معاملے پر کوئی بات کرنے کو تیار ہے – میں نے اس صحافی سے عرض کیا کہ بھائی اگر آپ کو اس پنجے کے نشان کی حقیقت کا علم ہو جائے تو رسالے میں چھاپو گےتو یہ کوئی راز تو رہے گا نہیں اس لئے جب تم یہ راز معلوم کرلو تو مجھے بھی آگاہ کرنا یقیناًیہ راز بہت دلچسپ ہوگا ۔


اکثر اوقات ادھر سے گزرتے ہوئے میری ملاقات اس صحافی سے ہوجایا کرتی تھی ایک دن اس سے میری ملاقات ہوئی تو اس نے مجھے بتایا کہ بابا جی نے بلا آخر مجھے تمام کہانی سنائی ہے میں نے تمام کام موخر کیا اوراس صحافی کے ساتھ وہیں دریا کے کنارے بیٹھ گیا اور اس سے درخواست کی کہ مجھے بھی پنجےسے متعلق کہانی سنائے۔
اس صحافی نےمجھے بتایا کہ جب میں نے بابا کی پیٹھ پر پنجے کا  نشان دیکھا تھاتب سے میں بابا کے پیچھے لگا ہوا ہوں میں نے ہر طرح سے بابا کےدل میں جگہ بنانے کی کوشش کی اور اس راز کو جاننے کی کوشش میں لگا رہا اور بلا آخر میں اس میں کامیاب ہو گیاہوں۔
بابا نے مجھے بتایا کہ جب میں جوان تھاتو مجھے انسانی خون پینے کی عادت ہو گئی تھی انسانی خون نہ ملنے کی صورت میں میری حالت ایک درندے کی طرح کی ہو جاتی تھی اور میں یہ بھی محسوس کرنے لگا تھا کہ انسانی خون پینے سےمجھ میں طاقت بہت بڑھ گئی ہے باقاعدہ خون حاصل کرنے میں مشکل پیش آنے لگی کیونکہ بڑے آدمی کو پکڑ کر اس کا خون پینا نہایت مشکل تھا تو میں نے بچو کو اغوا کرنا شروع کردیااور بچو کا خون پینے لگا ۔
ایک روز ایک گاؤں سے ایک بچے کو اغوا کر کے لے جارہا تھاکہ گاؤں والوں کو پتا چل گیاگاؤں والے میرے پیچھے بھاگے جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ مجھ میں انسانی خون پینےسے بےپناہ طاقت آگئی تھی تین چار مرتبہ ایسا پہلے بھی ہوا تھا کہ کسی ایک آدھ آدمی کو بچے کے اغوا کرنے کا علم ہوا اور وہ میرے پیچھے بھاگا تو میں اس شخص کو صرف ایک تھپڑمار کر گرا دیا کرتا تھااور اس کے بعد اس شخص میں اتنی سکت نہ ہوتی تھی کہ وہ میرا پیچھا کرسکے لیکن اس مرتبہ گاؤں کے کافی افرادمیرے پیچھے تھے میں بچے کو اٹھا کر بہت تیز بھاگ رہا تھامیں نے راستہ چھوڑکر کھیتوں کا رخ کر لیا اور منڈیریں پھلانگتا ہوا بھا گتا رہا تقریباًتمام افراد کو پیچھے چھوڑ دیا لیکن ایک بوڑھا شخص میرے تعا قب میں بھاگا چلا آرہا تھا اور میرا اور اس کا درمیانی فاصلہ مسلسل کم ہورہا تھا مجھے بڑی حیرت تھی اور کچھ خوف سا بھی محسوس ہونے لگا تھا کہ یہ بوڑھا شخص اتنا تیز کیوں دوڑ رہا ہے اور میرا پیچھا چھوڑنے کو تیار ہی نہیں میں نے بچے کو کھیت میں پھینک دیا اور مزید تیز دوڑ نے لگا لیکن وہ بوڑھا شخص مسلسل میرے پیچھے تھااورفاصلہ کم سے کم ہوتا جارہا تھا اور پھر ایک وقت آیا کہ وہ بوڑھاشخص میرے بہت قریب آگیااور اس نے ایک زور دار ہاتھ میری پیٹھ پر ماراوہ ہاتھ اتنا بھاری تھاکہ میں قلابازیاں کھاتاہوا گر پڑا اور بے ہوش ہو گیاجب ہوش آیا تو میں اکیلا کھیتوں میں پڑا تھا اور میری کمر میں شدید تکلیف ہورہی تھی اور میری کمر کا گوشت ادھڑسا گیا تھا میں اٹھا اور اپنے ٹھکا نے سے اپنا بوریاں بستر باندھ کر اس ویران مقام پر بس گیا اور میں نے توبہ کرلی اور انسانی خون پینا چھوڑدیا اب دنیا سے الگ تھلگ رہ کر زندگی گزار رہا ہو میں لوگوں سے اپنی پیٹھ چھپا کر رکھتا ہوں لیکن یہاں اتفاق سے کچھ افراد کا گزر ہوااور انہوں نے میری پیٹھ پر یہ نشان دیکھ لیا۔
لیکن یہ کہانی سنانے کے بعدوہ اس مقام سے غائب ہو گیا اس کہانی کے عام ہونے کےبعدوہاں کے گاؤں کے لوگوں کا خیال تھا کہ جس شخص نے بابا کی کمرپر ہاتھ مارا تھا وہ حضرت صابری کلیریؒ تھےکیونکہ قریب ہی کلیر ہے جہاں اب بھی حضرت صابری کلیریؒ کا مزار ہےجو کہ بہت جلالی مشہور ہیں کہاجاتاہےکہ حضرت صابری کلیریؒ کے مزار پر چھت نہیں ہےاور ان کے جلال کی وجہ سے کوئی پرندہ بھی ان کےمزار پر سے نہیں گزرتا۔

(تحریر کا اتنا  حصہ محترمہ ماریا چوہان صاحبہ کے بلاگ سے لیا گیا ہے)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آپ کی پیدائش 19 ربیع الاول 592ھ میں افغانستان کے شہر ہرات میں ہوئی۔ آپ ایک ایسے عظیم صوفی ہیں جن کا ہندو اور مسلمان دونوں ہی احترام کرتے ہیں ۔آپ بھارت کے اتراکھنڈ کے رڑکی شہر سے کچھ فاصلے پر کلیر نامی مقام پر اپنی قبر میں آرام فرما رہے ہیں ۔ آپ کا نام علی احمد صابر تھا۔آپ کے والد صاحب کا انتقال آپ کی پیدائش کے کچھ سالوں بعد ہی ہوگیا تھا ۔ اس کے بعد حضرت صابر کو ان کی والدہ اپنے بھائی بابا فرید الدین گنج شکر ؒ کے پاس ’پاک پتن شریف‘ لیکر چلی گئیں۔یہاں صابر صاحب نے بابا فرید کی شاگرد ی اختیار کرلی ۔
علی احمدصابر کلیری کے والد صاحب کا نام حضرت عبدالرحیم عبدالسلام شاہ تھا۔ آپ کی شادی کی کہانی انتہائی دلچسپ ہے ۔ ایک لمبے عرصہ بعد ان کی ماں افغانستان کے ہرات نامی مقام سے آئیں اوراپنے بھائی سے درخواست کیں کہ صابر کی اپنی کسی بیٹی سے شادی کردیں ۔یہ سن کر بابا فرید نے جواب دیا وہ شادی کرنے کے حق میں نہیں ہیں۔ لیکن بہن کے باربار کہنے پر انہوں نے خدیجہ نام کی لڑکی سے ان کی شادی کرنے کی سوچ لی ۔ رات کے وقت جب علی احمد صابر اپنے کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ وہاں ایک اجنبی عورت نماز ادا کررہی ہے جب وہ نماز سے فارغ ہوگئی تو صابر کوبتایا گیا کہ یہ آپ کی ہونے والی بیوی ہیں۔ اس پر صابر علی نے بے ساختہ جواب دیا کہ یہ ہرگز ممکن نہیں ہے ۔ ایک دل میں بیک وقت ایک ہی چیز ہوسکتی ہے۔ میرا دل تو پہلے ہی اللہ اور اس کے رسول کی محبتوں سے سرشار ہے ۔ اب اس طرح کسی دوسرے کی گنجائش نہیں ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنی زبان مبارک سے کچھ کلمات پڑھے جس کے نتیجہ میں ان کے سامنے موجود وہ خاتون راکھ کی شکل میں بدل گئیں۔ ایک دوسرے موقع پر حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ نے صابر کولنگر بانٹنے کے کام میں لگا دیا جسے انہوں نے بخوشی قبول کیا۔ لنگر بانٹنے سے فری ہو کرجو وقت بچتا اس میں وہ نماز ‘روزہ و دیگر اوراد و وظائف میں مشغول ہو جاتے ۔ انہوں نے 12سال تک مسلسل لنگر تقسیم کیا لیکن جب انہیں خود بھوک کا احساس ہوتا تو آس پاس کے جنگلوں میں جاکر درختوں کے پتے یاپھل وغیرہ کھا کر اپنا گزارہ کرلیتے اور پھر واپس آکر لنگر تقسیم کرنے میں مصروف ہو جاتے ۔
وہ مسلسل درختوں کے پتے وغیرہ کھانے سے لگاتار کمزور ہوتے جارہے تھے۔ جب ان کی والدہ ماجدہ دوبارہ لوٹ کرآئیں تو انہوں نے اپنے بھائی بابا فرید الدین گنج شکرؒ سے اپنے بیٹے کے کمزور ہو جانے کی شکایت کی۔ بابا فرید نے انہیں بلایا اور اس کی وجہ پوچھی تب حضرت صابر علی نے جواب دیا حضور آپ نے مجھے صرف لنگرتقسیم کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا نہ کہ اس میں سے کچھ اپنے لئے بھی لے لینے کا‘ بابا فرید گنج شکرؒ نے یہ سنتے ہی خوشی سے حضرت صابر علی کو اپنے گلے لگالیا اور فرمایا یہ صابر (صبر کرنے والا ) ہے اس دن سے وہ صابر کے نام سے مشہور ومعروف ہوگئے ۔ مشہور ہے کہ بارہ سال تک کلیر میں گولر کی شاخ پکڑ کر عالم تحیر میں کھڑے رہے مگر پائے عزیمت میں جنبش تک نہ آئی۔ یہ گولر کا درخت آج بھی آپ کے مزار کے احاطے میں موجود ہے اور لوگ بطور تبرک اس گولر کے پتے لے جاتے ہیں- جس پر حضرت صابر علی نے بابافرید الدین گنج شکرؒ کے ساتھ اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ گزارنے کے ساتھ ساتھ مذہبی و روحانی تعلیم و تربیت حاصل کی اس کے بعد حضرت بابا فرید ؒ نے آپ کو اپنا خلیفہ مقرر کردیا اور کلیر کی جانب روانہ کردیا۔آپ کی روحانیت اور کشف بارے بہت سے واقعات مشہور ہوئے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپ کسی وجہ سے شہر کلیر والوں سے ناراض ہوگئے تھے جس کی بنا پر یہ شہر ویران ہو گیا اور محض ایک گاؤں کی شکل میں اب تک موجود ہے اس سے زیادہ اس گاؤں نے کوئی ترقی نہیں کی ۔صابر صاحب کے مقبرے کو پیرِ کلیر شریف کے نام سے بھی جاناجاتا ہے ۔ یہ جگہ پوری دنیا کے لوگوں کیلئے ایک روحانی مرکز بنا ہوا ہے۔ آپ کی وفات 13ربیع الاول 690ھ کے دن کلیر شریف میں ہی ہوئی-
اکثر تذنگاروں نے آپ کی طرف ایسی باتیں منسوب کی ہیں جو ایک کامل ولی کی شایانِ شان نہیں ہیں۔صحیح بات یہ ہے کہ آپ کی سوانح کئی صدیوں بعد مرتب کی گئی ،تو اس میں رطب ویابس جمع ہوگیا۔انہوں نے آپ کو جلالی اور حضرت اسرافیل و موسیٰ علیہ السلام کے نقشِ قدم پر لکھا ہے۔ آپ نے مسجد نمازیوں پر گرادی، اور اسی طرح کلیر میں ہر طرف بارہ بارہ میل تک آگ لگادی،وغیرہ۔ لیکن یہ تو سب جانتے ہیں جس نے حضرت شیخ فرید الدین کےلنگر کا انتظام بارہ سال تک بڑے منظم طریقے سے سنبھالا ہو،اور جس کے حسنِ اخلاق ،اور صبر وقناعت،توکل و احسان کی بدولت ’’صابر‘‘ کا لقب عطاء کیا گیا ہو۔وہ اپنی ذات کےلیے یہ کام کیسے کرسکتاہے۔ تاریخِ وصال: 13/ ربیع الاول690ھ مطابق 1291ء کو واصل بااللہ ہوئے۔آپ کا مزار پر انوار کلیر شریف ضلع سہارن پور(ہند) میں مرجعِ خلائق ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ثنا اللہ خان احسن

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply