شکریہ جناح۔۔محمد فہد صدیقی

میں محمد علی جناح کے پاکستان میں بیٹھ کر اشوک نگر دلی کی اس مسجد کو دیکھ رہا ہوں جس کے مینار پر کوئی بلوائی سرخ جھنڈا لہرا رہا ہے ۔شہر میں چاروں طرف سے آگ کے شعلے بھی بلند ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔اکثریت کی بنیاد طاقت آزمائی جارہی ہے اور ہندوستان کے مسلمان سیکولرزم کا لبادے اوڑھے دنیا کی سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کے تاجداروں سے اپنا قصور پوچھ رہے ہیں ۔یہ حضرت نظام الدین اولیا کی دلی ہے ۔وہی  نظام الدین اولیا جو آج بھی لاکھوں لوگوں کے محبوب ہیں ۔وہ دِلی جہاں امیر خسرو تھے اور کہتے تھے” آج رنگ ہے ،اے ماں رنگ ہے ری،مورے محبوب کے گھر رنگ ہے ری” ۔کیا آج کوئی  خسرو کو بتائے گاکہ اس کے محبوب کی دلی کے رنگ بے رنگ ہوگئے ہیں ۔

یہ وہ دلی ہے جس کا ایک مکین گلی قاسم جان کا شاعر بے بدل مرزا اسد اللہ خان غالب بھی تھا، جو اپنے گھر کا پتہ صرف ”مرزا اسد اللہ خان غالب دلی ”لکھواتا تھا کیونکہ پوری دلی اسے جانتی تھی اور وہ دلی کو جانتا تھا ۔یہاں مسیح الملک حکیم اجمل خان بھی تھے،جن کے ہاتھوں شفایاب ہونے والوں میں مسلمان ،ہندو ،سکھ ،مسیحی سمیت ہر مذہب ،رنگ اور نسل لوگ شامل تھے اور ”ہمدرد” کے معماروں کا مسکن بھی یہی دلی تھی ۔

یہ وہ دلی ہے جہاں ڈپٹی نذیر احمد مراة العروس کے ذریعے  اردو کو ناول سے روشنا س کرارہے تھے۔ان کے کردار ”اصغری” اور” اکبری” لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی زندہ ہیں۔  اور یہ شاہد احمد دہلوی ہیں ۔ڈپٹی نذیر احمد کے پوتے ،خود قلمکار ہیں اور موسیقار بھی ہیں ۔ایک صبح دوستوں کو ناشتہ  پر  بلایا جاتا ہے ۔نہاری کھلانے کا وعدہ ہے ۔دوست مقررہ وقت پر نہیں پہنچتے تو نہاری ضائع کروادی جاتی ہے ۔ دوستوں نے نہاری کا پوچھا تو کہا کہ نہاری صبح ایک مخصوص وقت تک کھائی جاسکتی ہے اس کے بعد صرف گنوار نہاری کھاتے ہیں ۔تو وہ دلی جہاں نہاری کھانے کے بھی آداب ہوتے  تھے وہاں اب انسانوں کے گلے کاٹنے کے بھی آداب باقی نہیں رہے ہیں ۔

میں خود کو محمد علی جناح کے پاکستان سے دور دلی میں تصور کررہا ہوں اور ایسا لگ رہا ہے کہ کڑی دھوپ میں ننگے پاؤں کا سفر درپیش ہے ۔مجھے یہاں یقین دلانا ہے کہ تقسیم کے وقت پاکستان نہ جانے کا میرے پرکھوں کا فیصلہ درست تھا اور میں بھی آج اس کو صحیح سمجھتا ہوں ۔مجھے نجانے کس کس کو یقین دلانا ہے کہ میں بھی ”بھارت ماتا کی جے ہو ”پر یقین رکھتا ہوں ۔میرے نام کے ساتھ لگے ”خان” پر نہ جاؤ میں اچھا اداکار ہوں تو میری شناخت بھارت ہی ہے ۔میرے نام کے ساتھ ”مرزا” لگا ہے تو کیا ہوا ،ہوں تو میں پھر بھی ہندستانی اور میرے نام کے ساتھ لگے ”رحمان ” پر بھی نہ جائیے ۔میں ایک مہان موسیقار ہوں تومیری پہچان انڈیا ہی ہے ۔دلی میں میرے قدم جل رہے ہیں ۔غالب کے مزار کی ویرانی بتارہی ہے کہ وہ اداس ہیں ۔شاید انہوں نے کسی کو پتا لکھوایا ہوگا کہ ”اسد اللہ خان غالب دلی” اور وہ خط اب تک ان کو نہیں پہنچا ہے ۔دلی میں پھیلے وحشت کے سائے نے غالب کے خط کو بھی لاپتہ کردیا ہے ۔میں وہاں سے جامع مسجد کی جانب چل دیا ۔میں نے سنا تھا کہ اس کے مینار آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتے ہیں ۔میں وہاں جا کر بیٹھا تو ایسا لگا کہ غالب کے مزار کی ویرانی میرا پیچھا کرتے ہوئے یہاں تک آگئی ہے ۔مجھے دلی کی جامع مسجد کے مینار سسکیاں بھرتے ہوئے نظر آئے ۔مجھ سے وہاں نہیں رہا گیا اور میں وہاں سے چل دیا ۔

مجھے اب قطب مینار کی تلاش تھی ۔میں تیز قدم وہاں پہنچا تو ایسا لگا کہ وہ کہہ رہا ہے کہ تمہارے لیے پناہ یہاں بھی نہیں ہے ۔میں محمد علی جناح کے پاکستان سے دور دلی میں اپنی شناخت اور پناہ ڈھونڈتا پھر رہا ہوں ۔بس ایک سوال ذہن میں ہے کہ کوئی جائے امان ملے گی یا نہیں ؟ دلی نہ سہی  آگرہ ہی سہی  ،فتح پور سیکری نہ سہی  الہ آبادسہی  ،اجمیر شریف نہ  سہی  رامپورسہی  اور شاہ جہاں پور نہ سہی  عظیم آباد ہی سہی ، کوئی شہر مجھے اپنی پناہ میں لے گا لیکن جلد ہی مجھے اپنے سوال کا جواب مل گیا جب میں نے کسی کو کہتے سنا کہ ہندوستان میں رہنا ہے تو ”جے بجرنگ بلی ” کہنا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میں نے اپنے دماغ پرزور دینا شروع کیا تو مجھ پر ظاہر ہواکہ ہندوستان کبھی بھی سیکولر ملک رہا ہی نہیں ہے ۔قائد اعظم کا پاکستان اپنی شناخت اسلام بتاتا ہے چلو وہاں تو میزائلوں کے نام غوری ،غزنوی ،ابدالی اور بابر سمجھ میں آتے ہیں لیکن سیکولر بھارت میں میزائلوں کے نام اشوکا ،پرتھوی اور اگنی رکھنا تو سیکولرزم سے میل نہیں کھاتا ہے ۔مطلب مسئلہ صرف بی جے پی یا مودی نہیں ہے ۔سیکولرزم بس ایک ڈھونگ ہے ۔میرا سانس پھول رہا تھا ۔جگہ جگہ آگ لگی تھی ۔گائے کو قربان کرنے سے منع کرنے والے انسانوں کو قربان کررہے تھے ۔میں ایک مرتبہ پھر جامع مسجد کی جانب جا رہا تھا ۔میں بالآخر وہاں تک پہنچنے میں کامیاب ہوگیا لیکن وہاں ایک منظر دیکھ کر میں لرزگیا ۔مجھے مسجد کی سیڑھیوں پر ابوالکلام آزاد نظر آئے ۔ان کے اردگرد مجمع تھا جو ان سے ایک ”مخصوص” نعرہ لگانے کو کہہ رہا تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ عالم بے بدل کچھ سوچ رہے ہیں ۔شاید ان کو قائد اعظم محمد علی جناح یاد آرہے ہیں ۔میں نہیں چاہتا تھا میں ان کا جواب سنوں ۔لوگوں کا شور بڑھتا جار ہا تھا ۔مجھے مولانا ابوالکلام آزاد آج بے بس نظر آرہے تھے اور میں ان کے کچھ کہنے سے پہلے قائد اعظم کے پاکستان واپس آگیا  ۔مجھے قائد اعظم کے وہ الفاظ یاد آرہے تھے جب انہوں نے کہا تھا کہ ”جو مسلمان آج پاکستان بننے کی مخالفت کررہے ہیں ان کی آئندہ نسلیں ہندستان سے اپنی وفاداری ثابت کرتے کرتے زندگی گزاریں گی”میری آنکھوں سے آنسو رواں تھے اور میرے منہ سے بے ساختہ نکلا کہ ”شکریہ جناح”۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply