پانچ انگلیاں برابر ہیں, مصافحہ یا مکا؟ — بلال شوکت آزاد

کل شام میں اور انیس الرحمٰن باغی جب “نیرنگ کیفے اینڈ آرٹس گیلری”, جیل روڈ متضاد “کے سی” سے انعام رانا صیب, عثمان شاہد صیب اور دیگر احباب کی معیت میں یادگار شام گزار کر واپسی کی خاطر نکلے تو ہمیں شادمان انڈر پاس سے بائیں طرف اترائی سے شادمان مارکیٹ کی طرف مڑنا پڑا تاکہ ہم یوٹرن لیکر انڈر پاس کراس کرکے مال روڈ پر نکل جائیں۔

ہم جیسے ہی شاد مان والی سڑک پر مڑے تو وہاں پولیس والوں کی پیٹرولنگ ٹیم کھڑی تھی اور ہر موٹر سائیکل کو سائیڈ پر روک کر چیکنگ کررہی تھی۔

ہمیں بھی اشارہ دیا گیا۔

ہم بھی ذمہ دار شہریوں کی طرح رک گئے۔

وہ کل چار اہلکار تھے, دو کانسٹیبلز, ایک اے ایس آئی اور ایک ڈرائیور۔

جیسے ہی ہم رکے سامنے سے روکنے والا مسلح کانسٹیبل چل کر ہمارے پاس آیا اور بہت ہی عزت سے اس نے سلام کیا اور حال احوال پوچھ کر ہم سے سوال کیا کہ

“سر آپ کہاں سے آرہے ہیں اور کہاں جانے کا ارادہ ہے؟”

جبکہ اسی دوران اس ٹیم کا واحد سینئر اے ایس آئی دوسری بائیک والوں کا تفتیشی اور تصدیقی عمل مکمل کرکے ہمارے پیچھے سے آچکا تھا اور ہماری باتیں سننے لگا۔

خیر میں نے بہت ہی عزت اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہایت نرم لہجے میں اس مسلح اہلکار کو اپنا تعارف کروایا کہ

“سر ہم صحافی ہیں, بلاگرز ہیں جو ادھر ایک ملاقاتی پروگرام سے شرکت کرکے واپس شاہدرہ کی طرف عازم سفر ہیں”۔

اس مسلح اہلکار نے کنفرم کیا کہ سر آپ صحافی ہیں؟

آپ کا نام جان سکتا ہوں؟

میں نے اپنا اور انیس کا نام مع تخلص بتادیا اور یہ بھی کہ ہم کس طرح کے صحافی ہیں؟

تبھی اے ایس آئی نے ہم سے شناختی کارڈ طلب کیئے اور ہمارا ڈیٹا ایک اینڈرائیڈ مشین پر ڈال کر ریکارڈ چیک کرنے لگا اور پھر ہمارے موبائل نمبر مانگے جو ہم نے بلا چوں چراں دے دیئے اور ساتھ ان کو مکمل تعاون کرتے ہوئے جتا اور بتا دیا کہ آپ کو جو جو معلومات درکار ہوں وہ آپ ہم سے لیں کہ یہ آپ کی ڈیوٹی ہے اور ہم اس میں آپ سے مکمل تعاون کریں گے۔

انہوں نے مکمل تسلی کی اور پھر ہمیں جانے کی اجازت دی۔

جب ہم نکلنے لگے تو اس مسلح اہلکار نے ہمارا شکریہ ادا کیا اور قریب آکر یوں گویا ہوا کہ

“سر آپ پہلے صحافی ہمیں ٹکرے ہیں جنہوں نے ہماری اتنی عزت کی اور ہم سے ناصرف پورا تعاون کیا بلکہ بڑے تحمل اور احترام سے ہم سے بات کی اور ہماری بات سنی جبکہ اکثر ہمیں ایسے صحافی ٹکرتے ہیں جو ہمیں رکتے ہی دھمکی آمیز لہجے میں مخاطب کرتے ہیں کہ ہمیں کیوں روکا اور یہ دیکھو ہمارا پریس کارڈ کہ ہم فلاں چینل یا اخبار کے بڑے معتبر صحافی ہیں وغیرہ وغیرہ, مطلب ہمارا مزاج اس قدر خراب کردیتے ہیں کہ ہم ان کی بک بک کا ان کو تو جو جواب دینا ہو دیکر فارغ کرتے ہیں پر ان کی وجہ سے دیگر عام شہری بھی ہمارے کڑوے مزاج کا نشانہ بنتے ہیں اور یہ بات ہمیں بلکل اچھی بھی نہیں لگتی لیکن آپ لوگوں کا لہجہ اور آپکی جانب سے ہمارا احترام دیکھ کر ہماری سوچ بدل گئی ہے کہ اصل صحافی ایسے ہی ہوتے ہونگے اور جو ہمیں اکثریت ملتی ہے ناکوں پر بطور صحافی وہ سب دونمبر اور صحافتی مافیہ سے منسلک ہونگے”۔

بہرحال وہ یہ کہہ کر واپس اپنی جگہ مستعد کھڑا ہوگیا جبکہ میرا سینہ فخر اور جذبات سے چوڑا ہوگیا اس کی یہ باتیں سن کر اور کچھ افسردگی بھی ہوئی یہ جان کر کہ پیغمری پیشے صحافت سے منسلک لوگوں کا کام تو معاشرے کی بھلائی ہونا چاہیئے پر ہمارے صحافی ہی معاشرے کے بگاڑ میں پیش پیش ہیں۔

اور مجھے کل یہ بھی معلوم ہوا کہ ہماری پولیس کرپٹ اور کرخت نہیں بلکہ ہم کرپٹ اور کرخت ہیں جنہوں نے انہیں بھی اپنے جیسا بنا دیا ہے۔

پھر ہمارا ان سے کسی ناخوشگوار واقعے اور تن بیتی پر احتجاج کیسا؟

بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ جو دو گے وہی پلٹ کر آئے گا۔

پیار دوگے تو پیار آئے گا, نفرت دو گے تو نفرت آئے گی اور کرپشن دوگے تو کرپشن ہی آئے گی۔

ہمیں کل یہ بھی اندازہ ہوا کہ پولیس والے بھی احترام کرنا جانتے ہیں اور چاہتے ہیں لیکن مشروط, مطلب عوام بھی ان کا احترام کرے اور ان سے تعاون کرے شہری تحفظ کے معاملات میں۔

اور یہ بھی کہ وہ بھی پڑھے لکھے اور باشعور لوگ ہیں جن کے سینے میں دل اور سر میں دماغ ہے۔

لہذا آپ اگر کوئی توپ چیز ہیں تو رہیں, پر ان کے کار سرکار میں بے جا مداخلت اور دھونس کا سہارا لیکر انہیں مرعوب مت کریں ورنہ نتیجہ آپ کے حق میں بھی برا نکل سکتا ہے اور اگر آپ بچ کر نکل جائیں گے تو دوسرے معصوم شہری آپ کی وجہ سے دشواری کا سامنا کرسکتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں لیکن یہ کسی دوسرے انسان کی پانچ انگلیوں کو محبت, احترام اور عزت سے پکڑ لیں تو وہ مصافحہ بن جاتا ہے اور یہی پانچ انگلیاں گر مٹھی میں بند کرکے اس کا استعمال دوسرے انسان پر کریں تو مکا بن جاتا ہے اور بیشک آپ کے مکے کے جواب میں بھی مکا ہی ملے گا اور بہت زور دار ملے گا, لہذا یاد رکھیں کہ پانچ انگلیاں برابر ہیں, مصافحہ یا مکا۔

Facebook Comments

بلال شوکت آزاد
بلال شوکت آزاد نام ہے۔ آزاد تخلص اور آزادیات قلمی عنوان ہے۔ شاعری, نثر, مزاحیات, تحقیق, کالم نگاری اور بلاگنگ کی اصناف پر عبور حاصل ہے ۔ ایک فوجی, تعلیمی اور سلجھے ہوئے خاندان سے تعلق ہے۔ مطالعہ کتب اور دوست بنانے کا شوق ہے۔ سیاحت سے بہت شغف ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply