ہماری تصویر قابل رحم ہے۔۔۔عبداللہ خان چنگیزی

کچھ دن پہلے آئی ڈی کاڑد کی تجدید کرنے نادرہ آفس گیا سفید رنگ کے اجلے کپڑے پہنے شیو ہلکی سی چھوڑ دی کہ اچھا لگے گا ٹوکن نمبر لیا اور باری کا انتظار کرنے لگا، جب میری باری آئی خود کو بہت پُر وجاہت محسوس کیا اور ایک سرور کے ساتھ کاونٹر پر چل پڑا اجلی قمیض ہلکی مونچھ پر تیل کی مالش کئے ہوئے اور ہلکی داڑھی کے ساتھ خود کو انوکھا سپوت سمجھتے ہوئے کیمرہ مین کے سامنے موجود نشت پر براجمان ہوا اور دل ہی دل میں اس تخلیق پر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتا رہا جو کچھ ہی دیر بعد وجود میں آنے والا تھا ایک ٹک کی آواز آئی اور ہم سمجھ گئے کہ ہماری جوانی کی خوبصورت شاہکار اب محفوظ ہوگئی اور آئیندہ دس سالوں میں خواہ ہم کتنے ہی بدل کیوں نہ جائیں ہماری تسلی کے لئے یہی ایک ثبوت ہی کافی ہو کہ ہم بھی کبھی کچھ تھے، دوسری باری فنگر پرنٹ کی آئی وہ بھی ہم نے جلدی جلدی نمٹا دی اور پھر ڈیٹا انٹری کے لئے دوسرے صاحب کے پاس چل پڑے وہاں بھی ضروری خانہ پُری کردی گئی اور ہمیں  پرنٹر کی گڑگڑاہٹ سنائی دی، کیا دیکھتے ہیں کہ ایک پرنٹڈ کاغذ نکل آیا جو صاحب نے ہم کو تھماتے ہوئے کہا کہ باقی کے ضروری  مراحل سے گزار کر فائل فلاں جگہ پر جمع کر دیں، ہم نے ان کی بات سنی ان سنی کردی اور یک ٹک اپنی اس شاہکار تصویر  میں خود کو پہچاننے کی سر توڑ کوشش کرتے رہے اور کرتے رہ گئے اسی اثنا میں ہم چلتے چلتے پھر اس کیمرہ مین کے کاونٹر کے سامنے پہنچ چکے تھے ہماری بھر پور کوشش کے باوجود ہم نے جب خود کو نہ پہچانا تو سر اٹھا کر اس انسان نما جلاد کو دیکھنے لگے جو کیمرہ مین کے نام سے پہچانے جاتے تھے یکایک ہم دونوں کی نگاہیں آپس میں ٹکرا گئیں  اور ہماری دونوں آنکھوں سے دو معصوم سے گرم آنسو کے قطرے ہمارے رخساروں پر قیامت ڈھانے ٹوٹ پڑے ان آنسوؤں کی جلن اس وقت اور تباہ کن ثابت ہوئی جب کیمرہ مین کے چہرے پر کمینے پن اور سفاکیت کی ہلکی سی مسکراہٹ کی جھلک نمودار ہوئی جو اس کے ہونٹوں پر ہمارے آنسو دیکھ کر آئی تھی.

Facebook Comments

عبداللہ خان چنگیزی
منتظر ہیں ہم صور کے، کہ جہاں کے پجاری عیاں ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply