لاہور کی اک شام۔۔انعام رانا

(ستائیس جنوری ۲۰۱۹ کو “نیرنگ” میں محترم شاہد عثمان کی جانب سے منعقدہ ایک ادبی تحریک میں پڑھی گئی “گپ شپ”
خواتین، تھوڑی سی خواتین اور بہت سے حضرات، سلام۔ میں محترم شاہد بھائی کا ممنون ہوں جنھوں نے یہ محفل سجائی ہے۔ آپ سب کا ممنون ہوں جو انتہائی محبت سے تشریف لائے ہیں۔ میری بیگم پوچھ رہی تھیں کہ آج کیا ہے؟ میں نے کہا میرے ولیمے کا سال چل رہا ہے، پہلے لندن ہوا، پھر گھر والوں نے لاہور کیا، پھر بھائی یاسر علی مے کیا اور آج مکالمہ والوں نے کیا ہوا ہے۔ ولیمے کا کہنا یوں ضروری ٹھہرا کہ میری بیگم کو ابھی تک سمجھ نہیں آتا کہ آخر مجھ میں اسکا شوہر ہونے کے سوا ایسی اور کیا خوبی ہو سکتی ہے کہ لوگ مجھے اہمیت دیں۔

دوستو اس سے پہلے کہ میں بات آگے بڑھاؤں، آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں کہ میری کسی بھی بات کا انگریزی ترجمہ کرنا سخت منع ہے بلکہ میں نے قاری حنیف ڈار ساب سے فتوی لیا ہے کہ ایسا کرنے والے کا نکاح ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر خوش قسمتی سے ابھی نہیں ہوا، تو پھر گرل فرینڈ یا بوائے فرینڈ چھوڑ جائے گا۔ اور اگر  آپ کی گرل یا بوائے فرینڈ بھی نہیں ہے، تو بھئی آپ تو پہلے ہی اتنے بدقسمت ہیں، میری تقدیر سے کیوں کھیلتے ہیں۔؟

عزیزان گرامی، ایک شاگرد کی یہ خوش قسمتی ہوتی ہے کہ اسے اس کے استاد کی موجودگی میں عزت ملے، سراہا جائے۔ میری تحاریر میں آپ اکثر میرے استاد پروفیسر کا ذکر سنتے رہتے ہیں، میں انکے نام سے جھوٹے سچے قصے سنا کر اپ کا منورنجن کرتا رہتا ہوں، آج میری خوش قسمتی ہے کہ خالد محمود صاحب اس محفل میں موجود ہیں۔ اگرچہ مجھے یقین ہے کہ اس وقت سگریٹ کا کش زور زور سے کھینچتے ہوئے وہ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس جاہل میں ایسی کیا بات ہے کہ اسے سراہا جا رہا ہے۔ یقیناًًً  ایک استاد اور بیوی کی فطرت بہت ملتی جلتی ہے۔ مزاح برطرف، میں آج سب کو گواہ بنا کر یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جناب پروفیسر ساب، شکریہ، آج اگر میرے کہے لکھے میں کوئی جان ہے، میرے دل میں تھوڑی ہی سہی کچھ نظریاتی رمق موجود ہے تو اس میں آپ کی تربیت، جھڑکیوں اور گالیوں کا اہم حصہ ہے، آئی لو یو مودی۔

عزیزان گرامی میرے لئیے آج کی یہ محفل اس لئیے بھی بہت اہم اور خوشی کا باعث ہے کہ مجھے میرے ہی لاہور میں اس عزت سے، اس محنت سے نوازا جا رہا ہے۔ یہ شہر لاہور جو میری اولین محبوبہ ہے، جو مجھے ایسے ہی پیارا ہے جیسے سیدنا رسول کریم ص کو مکہ پیارا تھا۔ اس شہر لاہور کی سڑکوں پر، باغوں میں، ہر روش پہ حتی کہ اس کیفے نیرنگ میں میری زندگی ایک ایسی پینٹنگ کی مانند بکھری ہوئی ہے، جس کو جب تک مکمل نہ دیکھا جائے وہ ادھوری لگتی ہے۔ میں نے اپنی لا فرم کی ایک برانچ لاہور میں کھولنے کا ارادہ کیا اور کل ہی گلبرگ میں ایک دفتر لیا ہے۔ میری بیگم نے مجھ سے پوچھا کہ مجھے یقین ہے کہ تم پاکستان موو نہیں کر رہے تو پھر یہ دفتر کیوں؟ سچ پوچھیئے تو میں نے کئی منافقانہ سے جواب سوچے جیسے یہاں ایجنٹ لوگوں سے فراڈ کرتے ہیں، مین قومی خدمت کرنا چاہتا ہوں یا پیسے کمانا چاہتا ہوں؛ مگر سچا جواب تو یہ تھا کہ میں اپنے لاہور سے رشتہ جوڑے رکھنے کا ایک مزید بہانہ چاہتا ہوں۔ گو یہ لاہور وہ نہیں جو بارہ برس قبل چھوڑا تھا، مگر پھر بھی یہ میرا لاہور ہے۔ میرا لاہور اتنا بے ہنگم، اتنا پرشور مگر اتنا سماجی ویرانی کا شکار نا تھا۔ ہماری نوجوانی، جو ابھی کچھ ہی سال قبل کی بات ہے، کا لاہور ایسا تھا کہ ہمیں ادبی سیاسی سماجی تقریبات میں شرکت کرنا مشکل ہو جاتا تھا اور آج یہ عالم ہے کہ ایسی نشست منعقد کرنے کے لئیے مجھے لندن سے آنا پڑتا ہے۔

دو سال قبل مکالمہ کانفرنس کی تھی تو یقین تھا کہ دوست روایت کو بڑھائیں گے اور اب میرے آئے بنا ہی یہ سلسلہ چلے گا، افسوس ایسا نا ہو سکا۔ خیر یہ وہ خوبصورت لاہور نہیں بلکہ جمالیاتی طور پہ بھی وہ لاہور نہیں۔ اس شہر کی خوبصورتی کو “انفراسٹرکچر” کے شیدائیوں نے ایک بے ہنگم شہر بنا دیا ہے جہاں میں خود اپنے ہی گھر کا رستہ بھول جاتا ہوں۔ میری لاہور سے جذباتی وابستگی اپنی جگہ، میں لیکن یہ شکوہ اپنی اس جذباتیت یا ناسٹلجیا کی بنا پہ نہیں کر رہا۔ شہروں کی پلاننگ بہت اہم ہوتی ہے۔ رسول کریم ص سے منسوب قول ہے کہ اپنے شہروں کو زیادہ بڑا نہ کرو۔ یقینا ًًً یہ سٹی پلاننگ کا پہلا اصول ہے۔ ہم نے اردگرد کے شہروں کو ڈیویلپ کئیے بنا لاہور کو اس قدر پھیلا دیا ترقی یافتہ بنا دیا کہ اردگرد اٹھ کر لاہور آ گیا اور شہر چوک کر گیا۔

یقینا انفراسٹرکچر شہر کی ضرورت ہے، مگر لاہور کی خوبصورتی، تاریخ اور رواج کی قیمت پر یہ ترقی کیا واقعی دیرپا ترقی ہو گی؟ اور کیا یہ ترقی یافتہ لاہور اردگرد موجود احساس محرومی کو دو چند سہ چند کرنے کا باعث نہیں؟ میرے خیال سے اس پر بات کرنے اور اسے ایشو بنانے کی سخت ضرورت ہے۔

دوستو مجھے احساس ہے کہ میری بات کچھ بورنگ ہو گئی ہے سو بات بدلتے ہوئے مکالمہ کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کر کے اپنی بات اختتام کروں گا۔ مکالمہ جب شروع کیا گیا تو وجہ فقط اتنی تھی کہ ایک ایسا پلیٹ فارم بنایا جائے جو اس پہلے سے شدید تفریق کے شکار سماج میں مزید تفریق پیدا کرنے کے بجائے لوگوں کو قریب لائے، شدت کے بجائے تحمل پیدا ہو، پڑھنے لکھنے کا شوق بڑھے اور ایک دوسرے کا موقف سننے کا حوصلہ پیدا ہو۔ مکالمہ پہ کئی اعتراضات ہوئے، مگر اسکے باوجود ڈھائی سال سے زیادہ عرصہ ہوا مکالمہ الحمداللہ اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہے، چھ سو سے زائد نئے رائٹرز متعارف کروا چکا ہے اور کچھ نا کچھ حد تک اپنا اثر ڈالنے میں کامیاب رہا ہے۔ اللہ کے شکر کے بعد اس کا تمام کریڈٹ مکالمہ کی ٹیم کو جاتا ہے اور پھر  آپ دوستوں یعنی قاری کو جاتا ہے۔ سائیٹس اور لکھاری قاری کے بنا کچھ نہیں ہیں، مجھے ہنسی آتی ہے جب ہمارے سو کالڈ سوشل میڈیا سیلیبرٹی گردن تیڑھی کر کے قاری پہ احسان جتاتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ مجھے کونے پہ موجود پان سگریٹ والا بھی نہیں جانتا مگر اس قاری نے مجھے محبت دی، سر پہ اٹھایا؛ سو اسی لئیے میرے لئیے تو آپ لوگ، میرے قاری میرے محسن ہیں۔ لو یو آل۔
میں اپنی بات کے اختتام سے قبل آج کی اس خوبصورت محفل کا فائدہ لیتے ہوئے آپ قارئین اور دوستوں کے درمیان دو اہم اعلان کرنا چاہتا ہوں۔ اوّل تو محترم نعیم الرحمان کی محبت اور احمد رضوان کی لگن سے ہم نے مکالمہ کی اینڈرائڈ ایپلیکیشن بنا لی ہے جسے ہم آج یہاں سے لانچ کر رہے ہیں۔ میں نعیم کو اس کوشش پہ مبارک دیتا ہوں، وہ اسکی مزید تفصیل بتائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

دوستو مکالمہ کمرشل پراجیکٹ نہیں ہے، الٹا ہم پلے سے لگاتے ہیں۔ مقصد وہی جو اوپر بیان کیا اور خود کو پاکستان سے  آپ سے جوڑے رکھنا ہے۔ ایک منصوبہ بہت عرصے سے ذہن میں تھا۔ ہر لکھاری کی خواہش ہوتی ہے کہ اسے پہچانا جائے اور لکھاری کا خواب صاحب کتاب بننا ہوتا ہے۔ لیکن پبلشنگ کا کاروبار ایک عفریت بن گیا ہے۔ خیر قصور قاری کا بھی ہے، وہ پانچ سو کا برگر تو کھا لے گا مگر اتنے کی کتاب بہت مہنگی ہے۔ ایسے میں لکھاری پبلشر کے ہاتھوں استحصال لا شکار ہوتا ہے، پیسے دے کر کتاب چھپوائی جاتی ہے الا یہ کہ آپ سلمی اعوان ہوں یا تارڑ۔ ہم ایک کانسپٹ لے کر مکالمہ پبلشنگ کا آغاز کر رہے ہیں انشااللہ۔ ہم مکالمہ سے لکھاریوں کی پی ڈی ایف کتب کو شائع کریں گے جنھیں معمولی فیس ادا کر کے بننے والے بک کلب ممبر آنلائن پڑھ سکیں گے۔ اگر کوئی پرنٹڈ ورژن چاہے گا تو اسکو اس کتاب کی لاگت پہ سو روپے منافع رکھ کر کتاب پرنٹڈ فورم میں دی جائے گی اور یہ سو روپیہ لکھاری کو ملے گا۔ مقصد قاری کو کتاب کی جانب لا کر مطالعے کا شوق بڑھانا اور لکھاری کے لیے آسانی پیدا کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ مکالمہ کا یہ پراجیکٹ آپ کو پسند آئے گا۔
ایک بار پھر آپ سب کی آمد اور اس محبت کا شکریہ۔ ہمارے سینیئرز یہاں موجود ہیں اور اب ہم ان سے دانش کے موتی سمیٹیں گے۔ اللہ پاک آپ سب کو ہمیشہ خوش رکھے اور ہماری باہمی محبت و احترام یونہی قائم رہے۔ آمین۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply