درد و اَلَم۔۔۔۔محمد یاسر لاہوری

فکر و فاقہ اور استطاعت سے زیادہ محنت کے سبب آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے ظاہر ہو جانے کے باوجود اس کی آنکھوں کی خوبصورتی ابھی بھی کسی راہ بھٹکے”عاشق مزاج” کو اپنی گرفت میں لینے کے لئے کم نہیں تھی۔گو کبھی کبھار سہی، لیکن اس کے ہونٹوں پر بکھرنے والی مسکراہٹ اس کے حسن کو چار چاند لگانے میں دیر نہیں لگاتی تھی۔لمبے سیاہ اور گھنے بالوں میں کہیں کہیں چاندی کی طرح چمکتے سفید بال اس کی ڈھلتی جوانی کا حوالہ دے رہے تھے۔صحن کے دائیں بائیں گملوں میں سجے پھول پودوں کے درمیان سِلائی مشین ڈالے بیٹھی ہوئی فرحت کبھی اپنے بالوں میں سے نکل جانے والی آوارہ لٹ کو کان پیچھے کر رہی ہے اور کبھی سلائی مشین کے پیر تلے دیئے ہوئے کپڑے کی فولڈنگ کو سیٹ کر کے سلائی کرتی جا رہی ہے۔تیس، بتیس سال کی عمر کے لگ بھگ فرحت بھی ان لاکھوں لڑکیوں میں سے ایک ہے جن کی جوانی مفلسی کی بے رحم لپیٹ میں لِپٹے اپنے بابل کے گھر ہی گزر جاتی ہے۔اور یہ نیک، با حیا اور اپنے گھر و والدین سے وفادار دوشیزائیں اپنی جائز خواہشات و مطالبات کو بے بسی اور مجبوریوں کی مَنوں مٹی تلے دفن کر کے اپنی زندگی کے سنہرے دن یونہی دل بہلا کے گزار لیتی ہیں۔کبھی گھر کی جھاڑ پونچھ میں دل بہلا لیا، کبھی کتابیں پڑھ کر تو کبھی کبھار اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے معصومانہ انداز میں لڑائی جھگڑا کر کے، کبھی ماں باپ سے ناراض ہو کر اور پھر خود ہی ماں باپ کو لاچار و مجبور دیکھ کر گلے لگ کے ہنس لیں۔۔۔کچھ ایسی ہی ہوتی ہیں بہن بیٹیاں!!!

فرحت بھی کچھ ایسی ہی زندگی گزار رہی ہے۔زیادہ پڑھ لکھ نہیں سکی مگر اچھے نمبروں کے ساتھ ایف اے پاس اور قرآنی تعلیم سے آراستہ ،خوش شکل و خوش مزاج اور خوش سلیقہ بھی ہے۔ماں باپ اور دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے ہوئے اس نے وقت کے بوڑھے اور تجربہ کار ہاتھ کے بہت سے تھپیڑے سہہ لئے ہیں۔ریلوے میں ایک ادنی درجے کی ملازمت کرنے والا باپ بمشکل گھر کے اخراجات و مہنگائی سے لڑ پاتا ہے۔مہینے کے مہینے ملنے والی تنخواہ لڑکھڑاتے اور ڈگمگاتے ہوئے بمشکل آخری تاریخوں تک پہنچتی ہے، آدھی تنخواہ تو بجلی، گیس و پانی کے بِلوں میں صَرف ہو جاتی ہے اور باقی کی بچی ہوئی سے چھوٹیوں کی تعلیم اور باورچی خانہ چلتا ہے۔جوان بیٹی کی شادی کے لئے پیسہ و سامان جمع کرنا اونٹ کو سوئی کے ناکے میں سے گزارنے کے مترادف ہے۔ویسے بھی اب حالات پہلے سے بھی بدتر ہو چکے ہیں، لڑکی کو پہلی بار دیکھنے آنے کے پیچھے اصل میشن لڑکی کا امیرانہ طرز پر بنا گھر، باپ اور بھائیوں کا لمبا چوڑا بزنس اور گھر کے باہر کھڑی گاڑی کو دیکھنا ہوتا ہے۔جہیز کا ڈاکہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ لڑکی کا بیک گراؤنڈ کیا ہے۔۔۔باپ کے پاس کتنا مال و دولت ہے، بھائیوں کی کیا جائیدادیں ہیں۔۔لڑکی کے نام کتنی جائیداد کریں گے۔وغیرہ وغیرہ۔۔۔

زندگی کے نشیب و فراز سے لڑنے والوں کے لئے سورج ڈوبنے کا وقت بھی بہت جان لیوا ہوتا ہے، لگتا ہے کہ سورج کے ساتھ ساتھ دل بھی ڈوب جائے گا۔مغرب کا وقت قریب پہنچا اور پرندے اپنے اپنے گھونسلوں میں واپسی کے لئے مڑنے لگے تو فرحت نے بھی اپنے نامکمل سِلے ہوئے کپڑوں اور سلائی مشین کو سمیٹا، پھر کھانا تیار کرنے کے لئے باورچی خانے میں گھس گئی۔

شہر کے ایک مڈل کلاس علاقے کے بازار میں ڈیوٹی سے واپس آیا تھکا ماندہ فرحت کا باپ کچھ کھانے پینے کی اشیاء خرید رہا ہے۔لیکن آج روٹین سے کچھ ہٹ کے زیادہ خرچ کیا جا رہا ہے۔عام طور پہ مٹن کا گوشت، مہنگے پھل اور اور مختلف مشروبات خریدنا اشرف جیسے ایک عام ملازم کے لئے کچھ آسان کام نہیں لیکن آج کچھ خاص لگ رہا ہے، تبھی بازار میں موجود دکاندار نے پوچھا “بھائی اشرف آج خیر تو ہے جیب بھاری لگ رہی ہے” اور اشرف نے دل میں سوچا کہ اسے کیا پتہ جیب بھاری ہوئی ہے یا دل بھاری ہوا ہے۔نہیں ایسی کوئی بات نہیں، وہ کل اپنی فرحت بیٹی کو دیکھنے کچھ لوگ ا رہے ہیں دعا کیجئے گا۔دعاؤں کی فرمائش کے ساتھ پیسے دئیے اور سامان کو اٹھائے گھر کی راہ لی۔

باپ کے آتے ہی تینوں بہنیں پھول کی طرح کھِل اُٹھیں اور کوئی جوتا اٹھائے باپ کے پاس پہنچی تو کوئی پانی لے کر، فرحت باپ کے لئے تازہ روٹی بنانے کچن میں چلی گئی۔کم گو وفاشعار بیوی نے شوہر کے ہاتھ سے سامان لیا اور آئندہ روز آنے والے مہمانوں کی تعداد پوچھ کر سامان کچن می لے گئی، گو فرحت باخبر تھی کہ کچھ لوگ آ رہے ہیں اسے دیکھنے لیکن دل میں ایک عجیب سی چبھن تھی، لاتعلقی سی تھی۔ کیونکہ یہ پہلی بار نہیں ہو رہا تھا، پہلے بھی کئی لوگ آئے تھے اور ان کی غربت اور مڈل کلاس طبقے سے تعلق جیسی ناکردہ غلطی کے سبب رجیکٹ کر کے اس کے آئینے جیسے صاف شفاف دل میں احساسِ محرومی و کمتری کا بیج بو گئے تھے جسے وہ چاہ کر بھی اُکھاڑ نہیں پا رہی تھی۔کاموں سے فراغت کے بعد تھکاوٹ سے چور فرحت کو لیٹتے ہی نیند کی وادیوں میں کھو جانا چاہیے تھا لیکن نہیں، وہ تو کہیں دور خیالوں میں گم اپنے بھولے بھالے والدین اور بہنوں کی معصومیت کو سامنے رکھ کر “سزاوار نا ہونے کے باوجود” خود کو سزاوار سمجھ رہی تھی۔کہ میری وجہ سے آئے دن میرے گھر والوں کو یہ اذیت دیکھنی پڑتی ہے۔۔۔کوئی آتا ہے، ناز نخروں کے ساتھ خاطر مدارت کروانے کے بعد اپنے لڑکے کی خواہش پوری کرنے کے لئے لڑکی کی تصویر مانگتا ہے اور بعد میں کوئی نا کوئی نقص نکال کر غریب باپ اور بیٹی کے دل کو پاش پاش کر کے رشتہ کو ٹھکرا دیا جاتا ہے۔انہی خیالوں میں گم ناجانے کب فرحت کو نیند نے آلیا پتہ ہی نا چلا۔
اگلے دن دوپہر تک گھر کی صفائی ستھرائی کے بعد ماں بیٹی نے مل کر اپنی استطاعت کے مطابق نہایت  عمدہ کھانا تیار کیا، آج اشرف بھی آدھی چھٹی لے کر جلد ہی گھر آچکے ہیں۔مہمانوں کے آنے کا ٹائم قریب آیا تو فرحت حسب ضرورت تیار ہو کر الگ کمرے میں بیٹھ کر انتظار کرنے لگی۔لڑکے والے آئے کھانا کھایا، فرحت کے ہاتھ کا کھانا مناسب ہی نہیں بہت اچھا لگا اور تعریف بھی ہوئی۔عمر بڑی ہونے کے باوجود حسن نے بھی متاثر کیا، ایک کم عمر خاتون، جو شاید لڑکے کی بہن تھی” نے اپنے موبائل سے فرحت کی تصویر لے کر لڑکے کو دکھانے کی غرض سے محفوظ کی، کچھ عام روٹین کی باتیں ہوئیں۔۔۔ اب اصل انویسٹیگیشن شروع ہوئی کہ باپ کیا کرتا ہے، کتنا  کماتا  ہے، جائیداد کتنی ہے۔گاڑی تو رکھی ہی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔۔۔

اصل مقصد باپ کی نوکری، گاڑی یا جائیداد سے نہیں۔۔۔بلکہ کھنگالا اس لئے جا رہا ہے کہ اگر ان کہ پاس یہ سب نہیں ہے تو پھر بیٹی کو کیا دے پائیں گے۔ہمارے خاندان میں ہماری ناک نا کٹ جائے کہ ان کی بہو ایک غریب گھرانے سے آئی ہے، سسرال والوں نے داماد کو گاڑی نہیں دلوائی، اچھے شادی ہال میں بارات کو کھانا نہیں دیا۔۔۔اشرف ایک سیدھا سادہ انسان، ہمیشہ صاف گوئی سے کام لینے والا بھلا کسی کو اپنی بیٹی بیاہنے کے لئے کیسے چکر دے سکتا تھا۔لہذا اپنی کم آمدن اور زیادہ اخراجات کا تذکرہ کرنے کے بعد بھی شکریہ ادا کرنے کے انداز میں آسمان کی طرف چہرہ کر کے بولا کہ “پھر بھی الحمدللہ اس کا احسان ہے بہت سوں سے اچھی زندگی بخشی ہے اس نے ہمیں”
بے چارے اشرف کو کون سمجھائے کہ جس کے دل میں دولت کی حوس اور جس کے لئے  حُصُولِ مال و متاع ہی سب کچھ ہو، اسے یہ” ہر حال میں شکرِ رحمان ادا کرنا”  کچھ اچھا نہیں لگتا۔بالکل ایسا ہی ری ایکشن ان خواتین کا اشرف کے منہ سے یہ الفاظ سن کے سامنے آیا۔خیر چائے لے کر آتی ہوئی فرحت کو دیکھ کر اب آنے والے مہمانوں کا انداز وہ نہیں تھا جو کچھ دیر پہلے تھا۔۔۔کیوں کہ اب وہ فرحت کا ناقابلِ معافی گناہ جان چکے تھے، جی ہاں! کسی غریب باپ کے گھر بِنا اپنے اختیار کے پیدا ہونا “دولت اور جہیز کے پُجاریوں کی نظر میں” ناقابلِ معافی گناہ ہی ٹھہرتا ہے۔

لاتعداد مرتبہ سنا ہوا جملہ آج پھر سننے کو ملا کہ “دو چار دن میں بتا دیں گے بیٹے سے مشورہ کر کے” رسمی سلام دعا کے بعد مہمان رخصت ہوئے۔روٹین کے مطابق کاموں میں دن گزرے اور اشرف کے پاس پیغام ایا کہ لڑکا نہیں مانا ہماری طرف سے معذرت! شام واپسی پر آج اشرف کے وجود میں عجیب لڑکھڑاہٹ تھی، چہرے پر ایک بےوجہ کی ناکامی کے آثار واضح تھے۔

بے بسی، مجبوری، نقاہٹ، کیا کیا نہیں پڑھا جا سکتا تھا آج اس کے چہرے پر!
قدم تھے کے چلنے کو تیار نہیں تھے۔۔ٹوٹے ہارے اور شکست خوردہ دل کے ساتھ گھر پہنچا، شوہر کا اترا ہوا چہرہ دیکھ کر بیوی کچھ حد تک بات سمجھ گئی لیکن چپ رہی۔دونوں چھوٹیاں بھی ماضی قریب کے کچھ واقعات سے “چپ کو سمجھ کر چپ رہنا” سیکھ چکی تھیں۔بس ایک فرحت ہی تھی جو خوشی خوشی آئی ابا جان کو سلام کیا، لیٹ آنے کی وجہ پوچھی اور جواب کا انتظار کئے بغیر باورچی خانے میں اشرف کے لئے روٹیاں بنانے لگ پڑی۔روزانہ کی طرح کام مکمل کئے اور لیٹ گئی۔۔۔آج گھر میں سناٹا تھا۔ماحول بجھا بجھا سا، مانو کوئی ارمانوں کے مر جانے کا سوگ منا رہا تھا۔ماں باپ اور بہنوں کے سامنے خوش ہونے کی کامیاب کوشش کے بعد اب مزید دل پر بوجھ برداشت کرنا مشکل ہو گیا، آس پاس لیٹی بہنوں پر نظر ڈالی اور ان کو نیند میں دیکھ کر دل میں شکر ادا کیا کہ اب اس کے آنسوؤں کو کوئی رکاوٹ نہیں۔۔۔۔

تعلیم، تربیت، گھرداری اور قدرت کی طرف سے دیئے گئے حسن سمیت کیا نہیں میرے پاس جو ایک بیوی یا بہو بننے کے لئے ضروری ہوتا ہے۔۔۔؟ کیا میں اسی طرح کنواری رہ جاؤں گی؟ کیا میری شادی جلدی نا ہونے کی وجہ سے میری بہنیں بھی میری طرح عمر کے اس حصے کو پہنچ جائیں گی؟ آنے والے لوگوں کو میرے بابا جان کی شرافت، سچائی کیوں پسند نہیں اتی؟ میری حیا، تربیت سلیقہ مندی کیوں پسند نہیں آتی؟ سب جہیز اور دولت ہی کو کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ دلِ مُضطرب و بے چین نے سوالوں کے انبار لگا دئیے۔۔۔بے اختیاری حد سے بڑھی، نا چاہ کر بھی حسین رخسار موتیوں جیسے شفاف آنسوؤں سے تر ہو گئے، اندر موجود ایک عرصہ سے قید آنسوؤں کو جیسے راستہ مل گیا۔آج وہ ان آنسوؤں کے ساتھ پورا انصاف کرنا چاہتی تھی، آج اس نے ان کی قید کے تمام دروازے کھول دیئے تھے۔۔۔کہتے ہیں آنسو بہا لینے سے دل ہلکا ہو جاتا ہے لیکن اسے لگ رہا تھا کہ جیسے دل پھٹ جائے گا۔ستم در ستم یہ کہ چپ چاپ گھٹ گھٹ کے آنسو بہانا مزید تکلیف دیتا ہے۔جب جی بھر کے آنسو بہا لئے، سوچنے سمجھنے کی سکت نا رہی تو پہلو بدلا اور آنکھیں بند کیں۔۔۔نیند آنا نا ممکن تھا لہذا خاموشیوں سے باتیں کرتے کرتے رات گزرنے کا انتظار کرنے لگی۔۔۔ادھر فرحت کو لگ رہا تھا کہ سب سو چکے ہیں ادھر ماں بھی یہی سوچ کر دل کا غم ہلکا کر رہی تھی کہ کوئی نہیں دیکھ رہا۔

ہاں باپ میں ہمت تھی! آنسوؤں کے آگے بہت مضبوط “بند” باندھے سوچوں میں ڈوبا ہوا تھا۔۔۔۔لیکن کوئی کیا جانے کہ ” جو آنسو رخساروں پہ نہیں گرتے وہ دل پہ گرتے ہیں” اور دل پہ گرے آنسو روح تک کو گھائل کر جاتے ہیں۔

“جہیز اور جائیداد کی حوس نے ناجانے فرحت جیسی کتنی کلیوں کے رنگ اور خوشبوؤں کو پاؤں تلے روند ڈالا، کیسے بے حس اور ضمیر فروش ہوتے ہیں وہ خاندان جو بہو کی تلاش کی اڑ میں دولت، جائیداد اور اونچا خاندان ڈھونڈنے نکلتے ہیں۔
ضروری نہیں کہ ٹھکرائے جانے والی ہر لڑکی کا ظرف، صبر اور تقوی فرحت جیسا ہو۔۔۔جو اپنے ہر غم اور جائز خواہش کے مرنے کو خاموش آنسوؤں کے راستے بہا دے، کچھ نا سمجھی میں زندگی سے ناراضگی کا اظہار زہر کھا کر کرتی ہیں تو کچھ فطرتی خواہشات کے ہاتھوں مجبور ہو کر غلط راستہ کا انتخاب کر بیٹھتی ہیں۔ معاشرتی برائیوں کا ایک دروازہ جہیز اور جائیداد کی لالچ بھی ہے۔

ہو سکتا ہے جس لڑکی کی تصویر آپ اپنے بیٹے کو دکھانے کے لئے لائے ہیں، اس نے کبھی کسی نامحرم کو چہرہ تک نا دکھایا ہو۔۔۔دولت و جائیداد کی خاطر کسی نیک باحیا بہن بیٹی کو ٹھکرائیے مت، عزت کیجیئے!!!
انسانیت کے درجے سے نیچے مت گریئے۔آپ اپنا بیٹا بیچنے نہیں، بیاہنے جا رہے ہیں، لہذا جہیز، دولت اور جائیداد کی بجائے لڑکی کی حیا، پاکدامنی، تربیت اور خاندانی شرافت دیکھئے تا کہ آپ کی آنے والی نسل آپ کی شرافت اور تربیت کا ثبوت پیش کر سکے!!!!”

Advertisements
julia rana solicitors london

“سن اے مسلم! سانحہ یہ کہ ہم اچھے مسلمان نہیں رہے،
سانحے پہ سانحہ یہ کہ ہم اچھے انسان بھی نہیں رہے”

Facebook Comments

محمد یاسر لاہوری
محمد یاسر لاہوری صاحب لاہور شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بہت عرصہ سے ٹیچنگ کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ سائنس، فلکیات، معاشرتی بگاڑ کا سبب بننے والے حقائق اور اسلام پر آرٹیکلز لکھتے رہتے ہیں۔ جس میں سے فلکیات اور معاشرے کی عکاسی کرنا ان کا بہترین کام ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply