کہانی گو وزیراعظم۔۔۔۔وقار احمد چودھری

کہانی انسان کی کمزوری ہے ،ہم بچپن سے بزرگوں سے کہانیاں سنتے جوان ہوتے ہیں اور پھر زمانے بھر کی کہانیاں سننے کا اشتیاق لیئے ہر دوسرے شخص کو ٹٹولتے ہیں ۔مانگنے والے کی اپنی مجبوریوں بھری کہانی اور دینے والے کی اپنی،کام پر لگے مزدور کی کام چوری کی اپنی کہانی اور مالک کی مزدوری دیتے وقت اپنی کہانی اسی طرح عوام کی اپنی کہانی اور حکومتوں کی اپنی۔اسی کہانی کے رواج کو دیکھ کر عمران خان نے بھی کہانی سنانی شروع کی۔ پانچ دہائیوں سے پاکستان سے باہر رہنے والوں اور یہاں کے باسیوں کو کہانی سُن کر امید کی ایک کرن نظر آئی ۔غریب عوام کی آنکھوں میں چمک دیکھنے کو ملی۔اسد عمر کی شکل میں مسیحا نظر آیا جو پاکستانی معیشت کو زمین سے آسمان کی بلندیوں پر لے جائے گا۔عمران خان میں ایک محب وطن شخص نظر آیا جو پاکستان کی قسمت بدل کر رکھ دے گا۔مگر افسوس ایسا کچھ ہونے کے بجائے الٹ ہونے لگا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے شروع سے ہی لچھن کچھ ٹھیک نہ تھے سوچا  100 دن کے پروگرام کے مکمل ہونے تک کا وقت دیا جائے پھر تبصرہ  حق میں ہو گا مگر ساتھ ہی ملک میں محدود سی لوڈ شیڈنگ بے قابو ہو گئی،معیشت بگڑتی نظر آئی،اشیاء خوردنوش کی قیمتیں بڑھتی ہوئیں دیکھائی دیں ،لٹیروں ،جاگیرداروں ،وڈیروں اور سرمایہ داروں کی حکومتی ایڈجسٹمنٹ دیکھ کر اور 200 ارب ڈالر جیسی کہانیاں جھوٹی ثابت ہوتے ہی غریب کی آنکھوں کی چمک ماند پڑھ گئی ،تبدیلی کا نعرہ لگانے والے بھی کپتان کے فیصلوں سے نالاں نظر آنے لگے ،تحریک انصاف کو انصاف کی تحریک سمجھنے والے بھی سمجھ گئے کہ  یہ بھی روایتی سیاسی جماعتوں کی طرح ایک سیاسی جماعت ہے جسکے قائد نے حکومت بنانے کیلئے عوام کو محض ایک کہانی سنائی ۔
سیاسی جماعت کوئی بھی بُری نہیں ہوتی ،سب کا اپنا ایک ویژن ہوتا ہے جس پر عمل کر کے عوام کے دل جیتے جاتے ہیں ،مختصراً اگر ہم مشرف دور کی بات کریں تو امریت کے باوجود ملک میں میڈیا ہاوسز کو فروغ ملا ، پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری کے دور کو مجموعی طور پر بدترین دور کہا گیا کیوں کے ملک میں کوئی نمایاں تعمراتی کام نہیں ہوا مگر سرکاری ملازمین کیلئے ایک سنہرا دور ثابت ہوا کیوں کہ  انکی تنخواہوں میں دوگنا اضافہ ہوا اسی طرح مسلم لیگ ن کے دور میں تاریخی ترقیاتی کام ہوئے ملک میں منصوبے شروع کیئے گئے اور ملک کو بہترین ٹریک پر چلایا گیا ۔(پیپلزپارٹی کے قائدین یا ن لیگ کے قائدین نے اپنے ادوار میں کرپشن کی ہے تو ادارے ثابت کریں بجائے ہوا میں تیر چلا کر اپنی ساکھ خراب کرنے کے)
تحریک انصاف کے قائد اور وزیراعظم عمران خان سے سابقہ تمام ادوار سے بڑھ کر امیدیں وابستہ تھیں کیوں کہ  میری نظر میں وہ ایک محبت وطن ہیں مگر ان کے اردگرد وہی لوگ ہیں جو ہر آمر کے دور میں “سب اچھا” کی رپورٹ دیتے تھے ۔لب لباب اتنا کہ عمران خان کو جنرل ایوب بنایا جا رہا ہے چاپلوسوں کی فوج ظفر موج ہر وقت انہیں اپنے خصار میں رکھتی ہے اگر حکومت کی کوئی ناکامی بذریعہ “ٹیلی ویژن” وزیراعظم تک پہنچ جائے تو اسے مخالفین کی چال بازیاں کہہ دیا جاتا ہے۔ان چاپلوسوں اور چال بازوں کے خصار میں رہتے ہوئے اور پیٹھ پیچھے خلائی مخلوق کا ہاتھ ہونے کے بعد عمران خان کو شاید گمان گزرنے لگا کے وہ کوئی ڈکٹیٹر ہیں اور جو چاہیں فیصلہ صادر فرمائیں مگر جلد ہی ہوش میں آ کر کرسی کی خاطر “یو ٹرن “ لے لیتے ہیں ۔عمران خان بھی آہستہ آہستہ روایتی سیاست میں داخل ہو چکے ہیں اور ساتھ ہی خلائی مخلوق کی آشیرباد کی وجہ سے انوکھی آمریت کا نظارہ بھی پیش کر رہے ہیں جس میں پہلا ٹارگٹ میڈیا کو رکھا گیا اور انکے اشتہارات بند کر کے اور سینسر شپ لاگو کر کے آزادیِ اظہار کا گلا گھونٹا گیا۔اور بتایا گیا کہ ہم صرف ایک کہانی کی مار ہیں،اِدھر کہانی سنی اُدھر ہم ڈگمگا گئے۔

Facebook Comments

وقار احمد
صحافی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply