• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ضرورت مندوں اور پیشہ ور بھکاریوں میں فرق کیجیے۔۔۔۔محمد حسین آزاد

ضرورت مندوں اور پیشہ ور بھکاریوں میں فرق کیجیے۔۔۔۔محمد حسین آزاد

ایک ہوٹل میں روٹی کھا رہا تھا کہ تقریباً ایک دس سالہ بچہ میرے پاس آیا اور  سامنے بیٹھ گیا۔ وہ میرے پاس اس انداز کے ساتھ آرہا تھا کہ کہیں میں اسے ڈانٹ نہ دوں ۔ وہ اس بات کے لئے ذہنی طور پر تیار تھا کہ میں اسے ڈانٹ کر کہوں کہ یہاں سے چلےجاؤ کہیں اور بیٹھ جاؤ۔ مجھے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہاتھا۔میں نے اس سے کہا میرے ساتھ روٹی کھالو لیکن اس نے انکار کیا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ وہ اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا تھا کہ میرے  ساتھ  کھانا کھائے۔ وہ اپنے آپ کو بہت حقیر اور کم تر سمجھتا تھا کیونکہ  اس وقت وہ ایک بھکاری تھا۔کچھ وقت بعد ایک ویٹر نے کچھ سالن اور روٹی لاکر اس کے سامنے رکھ دی ۔۔
اس کا نام بصویر تھا اور اس کا تعلق لوئر دیر میدان کے علاقے کومبڑ سے تھا۔ اس نے بتایا کہ وہ چوتھی کلاس کا طالب علم ہے اور مدرسے میں بھی پڑھتا ہے۔میں نے اس سے بہت سارے سوالات کئے صرف یہ معلوم کرنے کو  وہ پیشہ ور بھکاری ہے یا محتاج ہے۔ لیکن ہر سوال کا بالکل ٹھیک ہی جواب دیتا۔ وہ بتارہا تھا کہ اس کا باپ مرگیا   ہے اور سارے گھر کا وہ خود کفیل ہے۔اس نے کہا،دو دن سے ہمارے گھر میں آٹا نہیں ہے۔تو کل آپ لوگوں نے کیا کھایا تھا؟ کل پڑوسیوں کے گھر سے لایا تھا۔ لیکن روز تو ان کے گھر سے نہیں لایا جا سکتا۔ کب سے یہ  کام  کر رہے ہو ؟ ایک سال سے۔ روز آتے ہو؟ نہیں جب سودا ختم ہوجائے تو آجاتا ہوں۔ لوگ پیسے دیتے ہیں؟ جب یہ کہوں کہ باپ مرگیا ہے پھر دیتے ہیں۔ لوگ ڈانٹتے بھی ہوں گے؟ ہاں بعض لوگ ڈانٹتے ہیں کہ گھر چلو بچے سوال نہیں کرتے۔آج کتنے پیسے اکٹھے کئے ؟ تین سو۔ کتنے وقت میں؟ تین گھنٹے میں۔ تین سو  میں کیا کرو گے؟ آٹا اور چائے خرید لوں گا۔ کتنا آٹا خرید لو  گے آٹا تو مہنگا ہے؟ پانچ کلو۔
صدمے کے ساتھ ساتھ مجھے حیرت بھی ہوئی کہ کومبڑ سے کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے یہ بچہ تیمرگرہ میں کیوں بھیک مانگنے آتا ہے۔ پھر سوچا اپنے نام اور عزت کی خاطر ایسا کر تا ہوگا تاکہ علاقے کے لوگوں کو پتہ نہ چلے۔ لیکن اس نے بتایا کہ اس کے پڑوسیوں سمیت سب گاؤں والوں کو پتہ ہے کہ وہ اپنی ماں اور کئی بہن بھائیوں کی پیٹ بھرنے کے لئے بھیک مانگتا ہے۔ان کے پورے  مہینے کا خرچہ پانچ ہزار روپےہوگا۔ اس نے بتایا کہ پچاس کلو آٹا پر وہ ایک ماہ گزارا کر لیتے ہیں۔ اس حساب سے ان کے گھر کا خرچہ پانچ ہزار سے بھی کم ہے۔
میں اس بچے کی مدد کرنا چاہتا تھا تاکہ یہاں سے ایک آٹے  کی بوری ساتھ لے کر جائے۔ اس مقصد کے لئے میں اسی  ہوٹل میں کئی نوجوانوں کے پاس گیا اور بچے کی مجبوری کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے بچے کو گھورتے ہوئے کہا ”بیٹا گھر چلو، بچے سوال نہیں کرتے “۔ میں نے بچے کو وہاں سے رخصت کیا اور ان صاحبان سے پوچھا کیا آپ لوگ انہیں جانتے ہیں، یہ کوئی پیشہ ور بھکاری تو نہیں ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ وہ انہیں نہیں جانتے لیکن ایسے بچوں کو پیسے نہیں دینے چاہیئے۔ کیونکہ یہ عادت ڈال کر پھر پوری زندگی بھیک مانگیں  گے۔ ان حضرات کی بات تو ٹھیک ہے کہ وہ عادت  بن جائےگی لیکن یہ بھی ایک سوال ہے کہ بچہ بھیک نہ مانگے تو کیا کریں؟ اس کی ماں خود گھر سے نکل کر مزدوری کرے ؟ خدا کے لئے محتاجوں اور پیشہ وربھکاریوں میں فرق کیجیے۔
ایک بیوہ عورت ہے جو بلکل لاچار ہے۔ اس نے مجھے کال کرکے بتایا کہ اس کے چھ بچے ہیں   جن  سب کی ذمہ داری ان پر ہے۔ لیکن آج تک اس نے یا اس کے کسی بچے نے بھیک نہیں مانگی۔ وجہ صرف یہ ہے وہ بہت زیادہ خود دار ہے۔ پھٹے پرانے  کپڑے پہنتے ہیں،روکھی سوکھی کھاتے ہیں لیکن کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتے۔ اور اس کے آس پاس رہنے والوں کو علم ہوتے ہوئے بھی ان کا یہی حال ہے۔ بصویر کی ماں اتنی ہی خود دار ہوگی لیکن وہ جو اپنے بچے کو لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے بھیجتی ہے یہ اس کی سب سے بڑی مجبوری ہوگی۔ لہذا ہمیں ایسے بچوں کو بھیک نہیں دینی چاہیئے بلکہ ان کی ایسی مدد کرنی چاہیئے تاکہ وہ بھیک مانگنا چھوڑ دیں۔
ہوٹل میں نوجوانوں نے بصویر کی مدد نہ کرتے ہوئے مجھے بالکل مایوس کیا۔ اس سوچ میں پڑ گیا کہ آخر بصویر جیسے بہت سے بچے ہیں ان کا کیا ہوگا۔ تو فوراً ذہن میں یہ بات آگئی کہ اللہ تعالی نے عبد الستار ایدھی جیسے سینکڑوں اور ہزاروں لوگوں کو غریبوں اور بے بسوں کی مدد کرنے کے لئے ہی پیدا کیا  ہے۔ سینکڑوں تنظیمیں لوگوں کی مدد کرنے کے لئے کام کر رہی ہیں اور ہزاروں نوجوان اس  سلسلے میں اپنا کردار ادا کر رہیں ہیں۔
پانچ کلو آٹا ہفتے میں ختم ہوجائے گا تو یہ بچہ پھر گھی اور آٹا خریدنے کے لئے بھیک مانگنے آئے گے۔ میں سب ویلفیئر تنظیموں کو سلام پیش کرتا ہوں اور ان سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ بصویر جیسے بچوں کے بارے میں پوری تحقیق کریں اور اگر امداد کے مستحق ہوں  تو ان کی مدد کریں تاکہ غربت کے نام پر بھکاری   بننے  اور بنانے کا دھندہ مکمل طور پر ختم ہوجائے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply