عجب فتنہ ہوا کا تھا۔۔گوتم حیات

پاکستان میں اردو اخبارات کے صف اول کے کالم نگاروں میں زاہدہ حنا کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ آپ باقاعدگی سے گزشتہ 33 برسوں سے ہفتہ وار کالم لکھ رہی ہیں اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔ اس کتاب پر کچھ لکھنے سے پہلے میں چند باتوں کو رقم کرنا چاہوں گا جو میڈم زاہدہ حنا اور ان کے کالموں سے متعلق ہیں۔

یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں نے زاہدہ حنا کے اُن پرانے کالموں کا بھی مطالعہ کیا ہے جو ساٹھ کی دہائی میں روزنامہ مشرق میں “ایک خاتون کی ڈائری” کے عنوان سے شائع ہوئے تھے اور پھر1988سے 2000 کے دوران جب آپ روزنامہ جنگ اخبار سے وابستہ ہوئیں تو آپ نے “نرم گرم”عنوان  کے تحت جنگ اخبار کے لیے ہفتہ وار کالم لکھے (اگر چہ بعد کے برسوں میں آپ نے جنگ اخبار کو ترک کر کے روزنامہ ایکسپریس سے وابستگی اختیار کر لی اور یوں نرم گرم کا یہ تسلسل روزنامہ جنگ سے ایکسپریس میں منتقل ہو گیا اور پڑھنے والے اب جنگ کے بجائے ایکسپریس کے صفحات میں آپ کے ہفتہ وار کالموں کو پڑھنے لگے) ۔میں نے یہ پرانے کالم یونیورسٹی کے زمانے میں پڑھے تھے۔ پاکستان اس وقت جنرل مشرف کے آہنی سیاہ دور سے گزر رہا تھا، نائن الیون کے ہولناک سانحے کے بعد ہماری جرنیلی حکومت سپر پاور کے احکامات پر آنکھ بند کر کے عمل کر رہی تھی، بہت سی معتبر آوازیں خاموش کروا دی گئیں تھیں یا انہیں ڈالروں کے عوض خرید لیا گیا تھا لیکن اس سیاہ دور میں بھی یہاں پر کچھ آوازیں مزاحمت کر رہیں تھیں، اپنے اصولوں پر زندہ رہنے کا جواز اپنے قلم کے ذریعے  پیدا کر رہیں تھیں اور ان ہی موئثر آوازوں میں زاہدہ حنا کا نام سرفہرست تھا۔ یہی وہ واحد کالم نگار تھیں جن کی بدولت مجھے ملٹری حکومتوں کی سفاکیوں کے بارے میں تلخ حقائق کا علم ہوا، پاکستان اور بیرونِ پاکستان جہاں جہاں آمرانہ طرز حکومت عوام پر مسلط کیا گیا، جمہوری آزادیوں کا گلا گھونٹا گیا، خواہ وہ اقلیتوں اور عورتوں پر روا رکھے جانے والے مظالم ہوں یا جنگوں اور بارودی سرنگوں میں زخمی ہونے اور موت کا شکار ہونے والے افراد، عوام کو یرغمال بنانے کے لیے اسلام کے نام پر جہاد مسلط کیا گیا ہو یا انقلاب کے نام پر کمیونزم کا من پسند جابرانہ نظام، زاہدہ حنا کا قلم نہایت ہی دلیری سے ان حقائق کو اپنے کالموں میں سموتا گیا اور ہم پڑھنے والے تلخ حقائق سے روشناس ہوتے گئے۔

میرے خیال میں کسی بھی معتبر تخلیق کار کا یہ اوّلین فرض ہے کہ وہ حقائق کو بےنقاب کر کے پڑھنے والوں کو تصویر کے اصل رُخ سے روشناس کروائے، بغیر کسی مصلحت اور خوف کے سفاک و تلخ حالات کو قارئین کے سامنے پیش کر دے کہ یہی معتبر لکھاریوں کا فرض ہے۔۔۔ اس حوالے سے ہمیں اپنے آپ کو خوش قسمت تصور کرنا چاہیے کہ ہمارے یہاں زاہدہ حنا جیسی بہادر لکھاری موجود ہیں جنہوں نے شروع دن سے آج تک الفاظ کے چناؤ میں کبھی کسی مصلحت پسندی سے کام نہیں لیا، بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ مصلحت پسندی انہیں چھو کر بھی نہیں گزری، میری اس بات کی تائید وہ لوگ یقیناً کریں گے جنہوں نے ان کے افسانوں، کالموں اور مضامین کا بغور مطالعہ کیا ہے۔

کرونا کے جس خوف کو ہم نے گزشتہ کئی مہینوں جھیلا ہے وہ اب تقریباً  رخصت ہو رہا ہے، وبا کے گھنے گہرے بادل آہستہ آہستہ چھٹ رہے ہیں، معمولاتِ  زندگی دوبارہ سے بحال ہو رہے ہیں، پاکستان کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں لوگ اس وبا کی وجہ سے جن سنگین مشکلات سے دوچار تھے، وہ اب ختم ہو رہی ہیں، کئی ممالک میں وہ پُر بہار رونقیں لوٹ آئی ہیں جو اس وبا کے آنے سے پہلے ہوا کرتی تھیں لیکن ان رونقوں کو دوبارہ بحال ہونے میں چار سے چھ ماہ لگ گئے، اس عرصے کے دوران لاتعداد لوگ ہمیشہ کے لیے دم توڑ گئے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اٹلی، اسپین، امریکا و چین وغیرہ میں وبا کی وجہ سے مرنے والوں کا تناسب حیران کُن حد تک بڑھ گیا تھا۔۔۔ کرونا کی وبا نے ہماری اس دنیا کو لمحوں میں تبدیل کر دیا، سماجی میل جول کی وجہ سے وائرس پھیلنے سے لوگوں کی اموات بڑھنے لگیں تو وبا کو مزید پھیلنے سے روکنے کے لیے مجبوراً حکومتوں کو لاک ڈاؤن کا راستہ اختیار کرنا پڑا، مشرق سے مغرب، شمال سے جنوب ایک کے بعد ایک ملک میں لاک ڈاؤن کی وساطت سے سب کچھ بند ہو گیا، معیشت کا پہیہ جام ہو گیا، تیل کی قیمتیں آسمان کی بلندیوں سے زمین کی پستیوں کی جانب منہ کے بل گر پڑیں۔۔۔ دنیا بھر میں اس جان لیوا وبا نے بیماری کے ساتھ ساتھ بےروزگاری میں بھی اضافہ کیا، ترقی یافتہ و ترقی پذیر ممالک کم و بیش ایک ہی جیسی ہنگامی صورتحال سے دوچار ہوئے۔ دنیا بھر کے سنجیدہ حلقوں نے اپنی اپنی حکومتوں کی نالائقیوں اور کمزوریوں کو آڑے ہاتھوں لیا، بہت سے ذہنوں میں یہ سوال بھی گردش کرنے لگا کہ دنیا بھر میں دفاع کے نام پر بےتحاشا بجٹ لگایا جا رہا ہے اگر اس کا نصف بھی انسانی صحت پر لگایا جاتا تو آج میزائلوں کی بجائے وافر مقدار میں وینٹی لیٹرز ہوتے، جن کی مدد سے بہت سے مریضوں کو باآسانی بچایا جا سکتا تھا، جو بروقت وینٹی لیٹرز کی عدم دستیابی سے موت کا شکار ہوئے۔

زاہدہ حنا کے کالموں کا یہ مجموعہ ہمیں ایک ایسی دنیا سے روشناس کرواتا ہے جو خونی سرحدوں سے ماورا   ہے، ملک و ملت، رنگ و نسل، زبان و مذہب اور قوم و کلچر سے بےنیاز ایک ننھا سا وائرس سیکنڈوں میں سرحدوں کو پھلانگتا ہوا انسانی جسموں کو اپنے حصار میں لے چکا ہے، کسی بھی ملک کا کوئی بھی وردی پوش محافظ جو جدید اسلحے سے لیس ہے، بےیار و مددگار بت بنا کھڑا ہے، اس کے پاس کوئی ایسا ہتھیار نہیں ہے جو مشترکہ طور پر اس ننھے وائرس سے فوری طور پر نمٹ سکے۔۔۔ وبا نہایت تیزی سے ایک فرد سے دوسرے فرد کو اور دوسرے فرد سے تیسرے فرد کو منتقل ہوتی جا رہی ہے، حکومتوں نے فوری طور پر اس وبا سے تنگ آکر اپنی اپنی سرحدیں بھی بند کر دی ہیں، مسافروں کے لیے زمینی و فضائی راستوں پر چلنے والی ہر قسم کی ٹرانسپورٹ بھی مؤخر کر دی ہے لیکن وائرس ہے کہ پھیلتا ہی چلا جا رہا ہے، غرض دنیا کا کوئی بھی ملک اس وبا سے خود کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔۔۔ اس دوران معاشی و سیاسی طور پر مستحکم کچھ ملکوں نے وبا کے دنوں میں اپنی اپنی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے ایسے احسن اقدامات بھی کیے کہ وہ ہم جیسے غیر جمہوری و کمزور معیشت رکھنے والے ممالک کے لیے مثال بن گئے۔۔۔

زیرِ نظر مجموعے میں شامل تمام کالموں کو بغور پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ زاہدہ حنا کے پاس امید کے روشن دیے موجود ہیں جو وہ اپنے گراں قدر لفظوں کے سہارے پڑھنے والوں کو سونپ رہی  ہیں۔
اس مجموعے میں شامل ایک کالم بعنوان “عالمی وبا کے مثبت و منفی اثرات” میں وہ لکھتی ہیں کہ
” کسی بھی عالمی وبا کی طرح کورونا کی وبا بھی سماجی، نفسیاتی، سیاسی اور معاشی حوالوں سے منفی اور مثبت دونوں اثرات مرتب کر رہی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کی ہر حکومت اور دنیا کا ہر شہری اس مشکل گھڑی میں اپنے حواس پر قابو رکھے، خوف زدہ نہ ہو اور تاریخ کی اس حقیقت کو سمجھ لے کہ ہر عالمی وبا کے بعد انسان نے بہتر سبق سیکھا ہے۔ امید نہیں یقین رکھنا چاہیے کہ انسان اس بحران پر بھی قابو پا لے گا اور اپنے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ مالی وسائل اور توانائیاں صرف کرے گا”۔

ان کالموں میں جہاں موجودہ سیاسی، معاشی و سماجی حالات کی عکاسی کی گئی ہے وہیں پر ہمیں وباؤں کی ہزاروں سالوں پر محیط تاریخ کے بارے میں بھی تفصیل سے آگاہ کیا گیا ہے۔ مختلف صدیوں میں جان لیوا وباؤں کی وجہ سے ہونے والی کروڑوں لوگوں کی اموات کے بارے میں پڑھ کر دل و دماغ پر افسردگی چھا جاتی ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی یہ احساس بھی اجاگر ہوتا ہے کہ اس روئے زمین پر انسان نے کٹھن و نامساعد حالات کے باوجود کبھی ہار نہیں مانی، مشکل سے مشکل حالات بھی اس کے اندر سے آگے بڑھنے کی جستجو اور لگن کو کم نہیں کر سکے۔ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں جہاں عوام کی رائے یہ ہو کہ “کورونا وائرس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے, یہ تو امریکہ اور چین کی سازش ہے” تو ایسے لوگوں کو گہرائی میں جا کر تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے، ہم ہر چیز کو محض سازش قرار دے کر رد نہیں کر سکتے، یہ وبائیں تو ان زمانوں میں بھی آکر اپنی ہولناکیوں سے انسانوں کو ہلاک کرتی رہی ہیں جب ابھی انسان نے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نہیں کی تھی۔

وبا کے خوف سے خود کو محفوظ کرنے کے لیے قرنطینہ میں رہنا یا کسی وبائی بیماری میں مبتلا ہو کر قرنطینہ میں چلے جانا دو الگ الگ کیفیات ہیں لیکن ان دونوں کیفیات کو جھیلنے والے بےبس انسان پر جو کچھ گزرتی ہے اس کا کچھ تجربہ کرونا کی حالیہ وبا کے دوران ہم میں سے بہت سے لوگوں نے یقیناً کیا ہو گا۔۔۔ کرونا کے سبب ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران ہم میں سے بہت سے ایسے ہوں گے جنہوں نے اس وبا سے خود کو محفوظ بنانے کے لیے خودساختہ تنہائی اختیار کی ہو گی کہ ہر قسم کے سماجی رابطوں سے دوری یا احتیاط ہی اس وبا سے نمٹنے کا ایک واحد علاج ہے۔ میں اپنے پڑھنے والوں کو بتاتا چلوں کہ اس کتاب میں شامل زیادہ تر کالم مصنفہ نے لاک ڈاؤن کے دوران ہی لکھے تھے، اس لیے ہمیں ان کالموں میں ان عظیم ہستیوں کا بھی ذکر ملتا ہے جو گزری ہوئی صدیوں میں برپا ہونے والی جان لیوا وباؤں کے دوران اپنی ہمت و حوصلے سے ایسے تخلیقی کام کر گئے کہ جنہیں ہم کبھی بھی فراموش نہیں کر سکیں گے۔ ان نامور ہستیوں میں ایک نام ہے نیوٹن کا اور دوسرا نام ہے بوکاشیو کا۔

اپنے کالم بعنوان” آئزک نیوٹن قرنطینہ میں” وہ لکھتی ہیں کہ
“ہم آج لاک ڈاؤن کے زمانے میں گھر میں بند ہو کر ذہنی دباؤ اور دیگر نفسیاتی مسائل کا شکار ہو رہے ہیں لیکن آئزک نیوٹن نے قرنطینہ میں رہ کر طاعون کے ختم ہونے کا انتظار نہیں کیا بلکہ وہ پہلے سے کہیں زیادہ عزم اور لگن کے ساتھ طبیعیات اور ریاضی کی گتھیاں سلجھانے میں مصروف ہو گیا”۔

اسی کالم کا ایک اور اقتباس ملاحظہ کیجیے۔۔
“نیوٹن چار سو برس پہلے پیدا ہوا تھا۔ جب لندن پر طاعون نے حملہ کیا تو اس وقت جدید طب اور سائنس کا آغاز بھی نہیں ہوا تھا۔ نہ جدید ہسپتال تھے، نہ ماہر ڈاکٹر، نہ جدید ترین لیبارٹریاں تھیں، نہ جدید اینٹی وائرل اور اینٹی بائیوٹک ادویات، کسی کو معلوم نہ تھا کہ وہ کب، کہاں اور کس وقت وبا کا نشانہ بن جائے گا۔ ان تمام منفی عوامل کے باوجود سر آئزک نیوٹن نے قرنطینہ میں رہ کر دنیا کو بدل دیا۔ یہ ہم سب کے لیے ایک مثال ہے کہ انسان مشکل ترین حالات میں بھی دنیا کو بہت کچھ دے سکتا ہے”۔

اب ہم بوکاشیو کا ذکر کرتے ہیں۔ کالم بعنوان “ہم ایسا نہ کر سکے” میں کالم نگار تفصیل کے ساتھ یورپ میں آنے والی مختلف وباؤں کا ذکر کرتی ہیں اور ساتھ ہی پڑھنے والوں کو اس تخلیق کار سے بھی روشناس کرواتی ہیں جنہیں دنیا بوکاشیو کے نام سے جانتی ہے۔ اس کالم سے مندرجہ ذیل اقتباس ملاحظہ کیجئے۔۔
” بوکاشیو نے اپنی شاہکار کتاب میں اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ طاعون کی وبا کے دوران ان عورتوں نے کس طرح اپنی ذہانت اور جرات کا مظاہرہ کیا اور سماجی عدم استحکام کا فائدہ اٹھا کر اپنی ذہنی صلاحیتوں کے ذریعے سماجی اور ذاتی آزادیاں حاصل کیں اور چرچ اور پدر سری سماج کے دباؤ سے نکلنے کی کوشش کی جس نے انہیں تاریخی طور پر محکوم بنا رکھا تھا”۔

یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ کٹھن ترین ادوار میں بھی انسانوں نے ہمت ہارے بغیر ایسے تخلیقی کام سر انجام دیے جو اب کلاسک کا درجہ اختیار کر چکے ہیں۔ وبا کے دوران قرنطینہ کے روز و شب میں نیوٹن اور بوکاشیو کا عزم و حوصلہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کی افسردہ زندگیوں کو نئے معانی سے متعارف کرواتا ہے۔

گزشتہ صدی کی دوسری دہائی میں جب دنیا پہلی جنگ عظیم کی محاذ آرائیوں میں مصروف تھی تو ایک “وبائی فلو” کے سبب کروڑوں لوگ اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ یہ وبا جس کو “اسپینش فلو” کا نام دیا گیا تھا، نے برطانوی ہندوستان میں بھی تباہی مچائی تھی۔ زاہدہ حنا نے نہایت تفصیل کے ساتھ اس دہشت ناک وبا کے بارے میں بھی قارئین کو اپنے کالم بعنوان “ٹھیک 100 سال پہلے” میں آگاہ کیا ہے۔ یہ ہماری (ہندوستان و پاکستان) کی مشترکہ تاریخ کا وہ المیاتی باب ہے جس میں تقریباً ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی زندگیوں کے چراغ گل ہو گئے تھے۔ وہ لکھتی ہیں کہ:
“اس فلو نے اس وقت کے ہندوستان کی پانچ فیصد آبادی کو موت سے ہم کنار کیا تھا۔ 1918 میں سینٹری کمشنر کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مرنے والوں کی تعداد اس وقت اتنی زیادہ تھی کہ ان کا کریا کرم کرنے کے لیے لکڑیاں تک کم پڑ گئیں تھیں جس کی وجہ سے نہ صرف دریائے گنگا بلکہ ملک کے دوسرے دریا بھی لاشوں سے پٹ گئے تھے۔ فلو کی وبا کے ساتھ خشک سالی بھی ہو گئی اور ملک کے کئی حصوں میں غریب اور خوراک سے محروم انسان ہلاک ہونے لگے”

ان  سطروں کو لکھتے ہوئے مجھے اس وقت راجندر سنگھ بیدی یاد آرہے ہیں۔ ہندوستان کے ممتاز افسانہ نگار راجندر سنگھ بیدی نے بیسویں صدی میں طاعون کی ہی وبا پر ایک شاہکار افسانہ تخلیق کیا تھا، اس افسانے کا عنوان “کوارنٹین” تھا۔ وہ اس افسانے میں پلیگ سے متاثرہ افراد کو کوارنٹین کیے جانے کے المیے پر دل دہلا دینے والی انسانی کیفیات کو قاری کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ کالم “ٹھیک 100 سال پہلے” نے بیدی کے شاہکار “کوارنٹین” کی یاد تازہ کر دی ہے۔ وہ اپنے افسانے میں رقم طراز ہیں کہ
“پلیگ تو خوف ناک تھی ہی، مگر کوارنٹین اس سے بھی زیادہ خوف ناک تھی۔ لوگ پلیگ سے اتنے ہراساں نہیں تھے جتنے کوارنٹین سے، اور یہی وجہ تھی کہ محکمۂ حفظانِ صحت نے شہریوں کو چوہوں سے بچنے کی تلقین کرنے کے لیے جو قد آدم اشتہار چھپوا کر دروازوں، گزر گاہوں اور شاہراہوں پر لگایا تھا، اس پر ’’نہ چوہا نہ پلیگ‘‘ کے عنوان میں اضافہ کرتے ہوئے ’’نہ چوہا نہ پلیگ، نہ کوارنٹین‘‘ لکھا تھا”۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ تو اب پڑھنے والے جان گئے ہوں گے کہ اس کتاب میں شامل کالموں کا مرکزی موضوع “کورونا” ہی ہے لیکن یہ مصنفہ کا ایک تخلیقی وصف ہے کہ اس ایک موضوع کو بنیاد بنا کر انہوں نے ہمیں ہمعصر اور گزری ہوئی تاریخ کے اوراق پارینہ سے روشناس کروایا ہے۔ اس میں ان خاتون سائنسدان کا بھی تفصیلی طور پر ذکر ہے جس نے پہلے پہل کورونا کو دیکھا تھا، اور وہ خوش قسمت چند بزرگ مرد و خواتین جنہوں نے کورونا کو شکست دی اور اس جان لیوا وبا سے نجات حاصل کر کے ساری دنیا کو حیرانی میں مبتلا کر دیا۔ اگر چہ کتاب میں کچھ کالم ایسے بھی ہیں جنہیں پڑھ کر دل دہل جاتا ہے۔ مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک سرمایہ پرستی میں غوطہ زن اور جنگوں میں الجھا ہوا موجودہ معاشی و سیاسی ڈھانچہ جس کے سبب کروڑوں افراد ہر گزرتے دن ایک نہ ختم ہونے والے عذاب میں مبتلا کر دیے گئے ہیں، حکومتیں دفاع کے نام پر بےدریغ پیسہ خرچ کر رہی ہیں لیکن مفلوک الحال عوام غربت، معاشی ناہمواری، بیماری، بےروزگاری اور قحط سالی سے تن تنہا نبرد آزما ہیں اور اب کورونا کی وبا کے سبب ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔میں اب اپنی بات کا اختتام کرنے سے پہلے جناب راجیندر منچندہ بانی کے چند اشعار یہاں نقل کرنا چاہوں گا؛
وہی اک موسمِ سفّاک تھا، اندر بھی باہر بھی،
عجب سازش لہو کی تھی، عجب فتنہ ہوا کا تھا،
غلط تھی راہ لیکن کس کو دم لینے کی فرصت تھی،
قدم جس سمت اٹھے تھے، ادھر ہی رخ ہوا کا تھا!

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply