خری ابا۔۔۔عارف خٹک

چچا رحیم خٹک کہتے ہیں کہ ہمارے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، وزیرستان اور میانوالی کی شادی شدہ خواتین جتنا حسد کھوتی اور لختئی (خوبصورت لڑکا) سے کرتی ہیں۔ اُتنا وہ اپنے محبوب شوہر کی محبوبہ سے نہیں کرتیں۔

میرا دوست عین غین خٹک کہتا ہے،کہ کھوتیوں سے محبت ہماری سرشت میں شامل ہے۔
کھوتی کو ہماری  اپنی زبان میں “خرہ” کہا جاتا ہے۔کھوتی سب کی سانجھی ہوتی ہے۔ کوئی بھی اس کو پکڑ کر اس پر سواری کرسکتا ہے۔ اس کو مار سکتا ہے اور اس کی مار سکتا ہے۔ اگر کسی عورت کے لئے آپ نے اس لفظ کو استعمال کرلیا۔سمجھ لیجئیے،آپ نے پشتو میں اُسے ایک ایسی گالی دے دی کہ اگر اُس گالی کے لئے آپ کے پانچ بھائی، آپ کا اکلوتا باپ، بقلم خود آپ اور آپ کی کھوتی کو جان سے مار نہیں دیا گیا،تو ایسے لوگوں کے لئے پشتو میں کوئی ایسا بُرا لفظ ہے ہی نہیں۔جو اس گالی کا مقابلہ کرسکے۔ لہٰذا جہاں “کھوتی” محبت، چاشنی سے بھرپُور اور ایک میٹھی میٹھی کسک دینے والا لفظ ہے۔وہاں اس کا بطور گالی استعمال ممنُوع بھی ہے اور حرام بھی۔ہمارے کرک کے مایہ ناز صحافی شکیل خٹک جرمن صاحب عموماً شکوہ کناں ہوتے ہیں۔کہ میری محبوبہ نے جب مجھے چنے کے کھیتوں سے کھوتیاں بھگاتے ہوئے دیکھا۔تو میری تین سالہ محبت کا خوبصورت دور اپنے انجام کو پُہنچ گیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہمارے ایک بزرگ رشتہ دار جو ساٹھ سے اُوپر کے تھے۔ ماشاءاللہ سے صوم و صلٰوۃ کے پابند تھا اور دین کی محبت اتنی کہ کیا بتاؤں۔بس اپنے ظفر جی کو ہی دیکھ لیں۔ چہرہ ایسا نورانی کہ بندہ قدموں میں گر کر دُعا مانگے۔ کافی لوگ اس غلط فہمی میں گرے بھی،مگر آج تک اُٹھ نہیں سکے۔ سرخ و سپید چہرے کےساتھ گھنی لمبی داڑھی،الحمداللہ بالکل اپنے لالہ نعیم کاکاخیل پر گئے تھے۔ مگر یہ الگ بات کہ دادا اپنی حرکتوں سے سید محمد سمیع پر گئے تھے۔ قریبی لوگ نام اور ذکر سُن کر کانوں کو ہاتھ لگاتے تھے۔علاقائی جرگے کے مشر تھے۔ کوئی جرگہ اُن کے بغیر ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ذومعنی پن میں سمجھ لیں اپنے وسی بابا کے اُستاد تھے۔ جرگے میں جب بولنے پر آجاتے تو ایسا فرفر بولتے،کہ بندہ دیکھ کر پریشان ہوجائے  کہ لالہ صحرائی نے پشتو کب سیکھ لی اور داڑھی کب رکھ لی۔
الغرض دادا جان کے اس وقت بھی اتنے فین تھے جتنے آجکل فیس بکی دانشوروں کے ہیں۔
دادا جی صُبح سویرے کلف لگا “شملہ” یا “کلاہ” سر پر رکھتے۔ ہاتھوں میں انگریزوں والی چھڑی اور واسکٹ کےساتھ کراس ریوالور لگا کر جب گھر سے نکلتے تھے۔ تو لوگ دانتوں تلے اُنگلیاں دبا ڈالتے۔
پیدل پہاڑوں میں واقع دوسرے گاؤں جاتے ہوئے رستے میں ان کو کہیں کھوتی نظر آجاتی۔ تو موصوف خُشوع و خُضوع سے اپنے سارے زیر جامے تہہ در تہہ اُتار دیتے۔ مگر سر پر کلاہ اور بدن پر ہولسٹر کو رہنے دیتے۔ اللہ جنت نصیب کرے،کہتے تھے کہ پشتونوں میں بغیر اسلحہ اور ننگے سر رات کو سونے والے مرد کےلئے بھی پشتو میں بہت بُرا لفظ ہے۔
لوگ آرہے ہیں یا جارہے ہیں،دادا کو کوئی فرق ہی نہیں پڑتا تھا۔ کہتے تھے کہ کام تبھی بنتا ہے،جب یکسوئی سے کیا جائے۔ موصوف کا نام ہی “خری ابا” پڑگیا۔
خری ابا کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سچ بولتے تھے۔اور اسی سچ کی وجہ وہ صاحب اولاد ہوکر نہیں مرے۔ بلکہ بے اولاد ہی مرگئے۔ تین بیویوں نے رہنے سے انکار کردیا تھا اور چوتھی کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ بالآخر نیشنل جیوگرافک ٹیم کا ممبر بن کر حیوانوں پر اپنی محبت نچھاور کرنے لگے۔کہ ایسے انسانوں پہ وقت اور جذبات لُٹانے سے اچھا ہے کہ بندہ کھوتیوں سے دل لگی کرتا پھرے۔
“خری ابا” مر گئے مگر ہم آج بھی اس کا نام روشن کئے جارہے ہیں۔ آج اگر حالات کی وجہ سے ہم کسی کو خری ابا نہیں پُکار سکتے۔تو “دادا” کہہ کر اپنا بھڑاس بلکہ لالہ صحرائی کی لُغت میں “البھڑاس”
آرام سے نکال لیتے ہیں۔

Facebook Comments

عارف خٹک
بے باک مگر باحیا لکھاری، لالہ عارف خٹک

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply