ایک دفعہ عباسی خلیفہ منصور رؤسائے سلطنت میں سے ایک امیر عمارہ بن حمزہ کے ساتھ دربار میں بیٹھا تھا۔ عدالت لگی ہوئی تھی۔
دفعتاً ایک شخص کھڑا ہوا اور بولا : میں مظلوم ہوں ، مجھے انصاف چاہیے۔
خلیفہ نے دریافت کیا: تجھ پر کس نے ظلم کیا ؟
اُس نے کہا : آپ کے امیر عمارہ بن حمزہ نے مجھ پر ظلم کیا ہے اور میری زمین پر غاصبانہ قبضہ کر لیا ہے۔
خلیفہ منصور نے اپنے امیر عمارہ بن حمزہ سے کہا: کھڑا ہو جا اور مدعی کے برابر جا کھڑا ہو؛ کیونکہ اس وقت تو ایک ملزم ہے۔
عمارہ نے کہا: امیر المومنین اگر زمین اس کی ہے تو میں جھگڑا نہیں کرتا اور اگر میری ہے تو آج سے میں نے اسے دے ڈالی۔ مجھے فیصلے کی ضرورت نہیں؛ میں اس عزت اور مرتبے کو جو معاشرے میں اور امیر المومنین کے ہاں مجھے حاصل ہے زمینوں کے عوض نہیں بیچتا۔ یہ سن کر اہل دربار نے نعرہ تحسین بلند کیا۔
سینکڑوں سال پرانے اس سچے واقعے میں جو پرنسپل بیان کیا گیا اس کو عملی صورت میں پاکستان کے مشہور بزنس مین حاجی ملک نور محمد نے اپنی زندگی میں اپلائی کیا۔
آپ نے 105 سال کی طویل عمر پائی۔ پچھلے کالم میں ہم نے بزنس مین طاہر ملک اور ان کی محترم والدہ سردار بیگم کا تذکرہ کیا آج ان کے والدحاجی ملک نور محمد کی زندگی سے کچھ سیکھتے ہیں۔
میں نے پوچھا طاہر ملک سےکہ ان کے والد کی اس طویل عمری کا کیا راز ہے جواب دیا خوش رہنا کمپرومائز کرنا۔ جھگڑے سے بچنا اور دشمنوں سے دوستی کرنا۔
اگر ہم لوگ صرف اس ایک پرنسپل پر عمل کر لیں تو زندگی کے آدھے سے زیادہ مسئلے ختم ہو جائیں گے۔
میں نے بڑے کاروباری لوگوں میں کمپرومائز کرنے کی حیران کن قوت دیکھی ہے بڑے میدان کا کھلاڑی اپنی انرجی کو بچا کر رکھتا ہے اور گلی محلوں کے جھگڑوں فیملی کے ایشوز سے بڑی صفائی سے اپنا دامن بچا کر نکل جاتا ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تعلیمات ہم سب کے لیے مشعل راہ ہیں۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“میں اس شخص کے لیے جنت کے اندر ایک گھر کا ضامن ہوں جو حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا چھوڑ دے۔”
جھگڑے سے اجتناب کرنے والے کو بہترین مؤمن کہا گیا: آپ ﷺ نے فرمایا
“مؤمن نہ تو طعنہ دیتا ہے، نہ لعنت کرتا ہے، نہ فحش گوئی کرتا ہے اور نہ ہی جھگڑالو ہوتا ہے۔”
: حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا
“مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ ناراض رہے
طاہر ملک نے اپنے والد کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ خوش خوراک تھے۔ بہترین سفارت کار، لباس کی نفاست کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح کے جیسا لباس پہننا پسند کرتے تھے۔ ہمیشہ بہترین سوٹ میں ملبوس، ٹائی، پارکر کا پن، جناح کیپ اور قائدا اعظم کے سٹائل کے جوتے۔ ادبی ذوق رکھتے تھے اور ابن انشا کے قریبی ساتھیوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔
ان کے اس لائف سٹائل پر منیر نیازی کی یہ نظم یاد آگئی
اک دن رہیں بسنت میں
اک دن جئیں بہار میں
اک دن پھر یں بےانت میں
اک دن چلیں خمار میں
دو دن رکیں گرہست میں
اک دن کسی دیار میں
حاجی ملک نور محمدکی زندگی سے اخذ کردہ کچھ پنچ لائنز آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔
۱۔ ایک اچھا کاروباری ہمیشہ قانون کا احترام کرتا ہے۔ لڑائی جھگڑے اور دھونس دھاندلی سے دور رہتا ہے اور مفاہمت کو اپنا ہتھیار بناتا ہے۔
۲۔اسی لیے آپ کو پاکستان کے ٹاپ کے کاروباری لوگ فوجداری مقدمات میں لڑتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے۔
۳۔ جس درخت پر زیادہ پھل ہو وہ زیادہ جھکتا ہے۔
۴۔گاہک کو کبھی ناراض نہ کرو وہ اللہ کی رحمت سے کم نہیں۔
۵۔ چائنا کی مشہور کہاوت پر یقین رکھتے تھے کہ جس شخص کو مسکرانا نہیں آتا اسے کاروبار نہیں کرنا چاہیے ۔
۶۔ دولت بانٹنے سے کم نہیں ہوتی۔
۷۔ بہت زیادہ سوچ بچار عمل سے دورے لے جاتا ہے ایکشن لینا پہلا قدم اٹھانا ضروری ہے۔
۸۔ کاروبار میں ساکھ کا ہونا انتہائی ضروری ہے آپ کو اپنی زبان کا پابند ہونا چاہیے۔
۹۔ اولاد کو کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی نظر سے۔
۱۰۔ہٹی، چٹی اور کھٹی۔ یعنی منافع تیسرے سال سے شروع ہوتا ہے۔
۱۱۔ آپ محنت سے کام شروع کریں تو منزل دور نہیں ہوتی۔
۱۲۔ فیملی کے ساتھ جڑ کر رہنا
( اپنے دوست عزیز خان کی بات یاد آگئی جو کہتے ہیں کہ اگر شیربھی کسی جگہ پر اکیلے رہنا شروع کر دے تو آوارہ کتے اسے گھیر لیتے ہیں۔)
۱۳۔جو لوگ تہیہ کر لیتے ہیں کہ بہترین سے کم تر زندگی پر سمجھوتہ نہیں کریں گے تو اکثر انہیں بہترین زندگی مل ہی جاتی ہے۔
طاہر ملک صاحب نے اپنے والد کی یادیں شیئر کرتے ہوئےکہا کہ وہ ان تمام اصولوں پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالی کے ساتھ امید کو باندھ کر رکھتے تھے۔
میاں محمد بخش نے اس فلسفے کو خوبصورتی سے ان الفاظ میں بیان کیا۔
مالی دا کم پانی دینا
بھر بھر مشکاں پاوے
مالک دا کم پھل پھل لانا
لاوے یا نہ لاوے
طاہر ملک نے اپنے والد کی کامیابیوں میں ویژن کی اہمیت پر روشنی ڈالی کہ انہوں نے ساٹھ کی دہائی میں پراپرٹی بنائی مختلف کاروبار سیٹ کیے جب لوگ ان چیزوں سے بالکل ناآشنا تھے۔
مولانا جلال الدین رومی کی حکایت یاد آگئی
ایک بوڑھے میاں ہانپتے ہوئے زرگر کے پاس پہنچے اور کہنے لگے۔ بیٹا سونا تولنے والی اپنی تر از و تو تھوڑی دیر کے لئے مجھے دے دو، گھر پر میں نے سونے کا برادہ تو لنا ہے۔
زرگر نے جواب دیا: ” بڑے میاں ! معافی چاہتا ہوں میرے پاس چھلنی نہیں ہے۔“ بڑے میاں نے حیرت سے کہا: ”ارے ارے مجھ بوڑھے سے تو مذاق کرتا ہے۔
میں تجھ سے سونا تو لنے والا تر از و مانگ رہا ہوں اور تو کہتا ہے کہ میرے پاس چھلنی نہیں ہے۔
بھائی مجھے چھلنی نہیں تراز و چاہیے تر ازو ،سنار نے کہا: ” قبلہ میں سچ کہہ رہا ہوں میری دکان میں جھاڑو نہیں ہے۔ بڑے میاں کو غصہ آگیا اور کہنے لگے : ” تجھے خدا کا خوف نہیں تو کیسی باتیں کر رہا ہے یا پھر تو بہرا ہے کہ میری بات کو سمجھ نہیں رہا۔ سنار نے کہا: ” جناب میں بہرا نہیں ہوں میں آپ کی باتیں سن رہا ہوں اور نہ ہی دیوانہ ہوں کہ آپ زمین کی پوچھیں اور میں آسمان کی کہوں ۔ آپ شاید حقیقت پر غور نہیں کر رہے۔ میں آپ کی حالت دیکھ کر انجام پر غور کر رہا ہوں کہ آپ کے ہاتھوں میں رعشہ کا عارضہ ہے اور نظر بھی کمزور ہے۔ اور اس عمر میں وہم کی بیماری بھی ہو جاتی ہے۔ آپ کے پاس ٹھوس ڈلی تو ہے نہیں جس کا آپ نے وزن کرنا ہے۔ پھر سونا بھی وہ جو برادے کی شکل میں ہے۔ ظاہر ہے جب ، جب آپ سونا تو لنے لگیں گے تو ہاتھ میں رعشہ کی وجہ سے سونے کے ذرات زمین پر گر پڑیں گے پھر انہیں اکٹھا کرنے کے لئے آپ کو جھاڑو کی ضرورت پڑے گی جب آپ جھاڑو سے مٹی اکٹھی کر لیں گے تو پھر لا محالہ آپ کو چھلنی کی بھی ضرورت پڑے گی میں نے پہلے ہی آپ کا انجام دیکھ لیا ہے اس لئے میں آپ کو ترازو نہیں دے سکتا ۔
طاہر ملک نے اپنے دادا حاجی احمد خان ملک اور اپنے والد کے درمیان ہونے والی محبت کا ذکر کیا کہ ان کے والد اپنے باپ کی خدمت کے لیے ہر وقت موجود ہوتے تھے بہت سارے ملازم ہونے کے باوجود ان کے لیے کھانا خود بناتے اور ان کے سارے کام اپنے ہاتھ سے کرتے بیمار باپ (طاہر ملک کے دادا)
کے منہ سے ہر وقت اپنے بیٹے نور محمد کے لیے دعائیں نکلتی رہتی تھیں کہتے تھے: “نور محمد روشن ستارہ بنے گا اور وہ دعائیں دیتے ہوئے ہی اس دنیا سے تشریف لے گئے۔
فیض احمد فیض کا یہ شعر طاہر ملک کے والد حاجی ملک نور محمد کی ذات کی عکاسی کرتا ہے
محبت کرنے والوں کی تجارت بھی انوکھی ہے
منافع چھوڑ دیتے ہیں خسارہ بانٹ لیتے ہیں۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں