کاٹیج نمبر 303۔۔۔۔۔مونا شہزاد

وہ بائیس دسمبر کی ایک شام تھی، علی نے طویل سفر کر کے واپس اسلام آباد جانا تھا۔اس کی نوکری نتھیا گلی سے آگے ایک چھوٹے سے پہاڑی شہر میں تھی ،اس کی فیملی اسلام آباد میں ہی مقیم تھی۔اس کے دفتر کے بیش تر لوگ رخصت ہوچکے تھے۔ غیر ملکی کمپنی ہونے کے باعث مالکان نے کرسمس کی چھٹیوں کے لئے دفتر میں دو ہفتے کی چھٹی اناونس کردی گئی تھی،اب نئے سال کے پہلے ہفتے کے بعد ہی سب نے دفتر جانا تھا۔ برف باری اپنے عروج پر تھی۔ پہاڑوں پر برف باری ایک عجب دلکش منظر پیش کرتی ہے۔سدابہار درختوں پر برف جمی ایک خوبصورت منظر پیش کرتی۔آج علی کو نکلتے نکلتے شام کے چار بج گئےتھے۔ راستے میں نتھیا گلی رک کر اس نے اپنے دوست عباس کو بھی پک کرنا تھا اس نے سوچا اگر موسم خراب ہوا تو نتھیا گلی رات گزار کر اگلے روز سفر دن کی روشنی میں کرلینگے۔۔پہاڑوں میں ویسے بھی شام جلدی ہوجاتی ہے۔علی نے اپنی تیاری گزشتہ رات ہی کرلی تھی۔ گاڑی کا پٹرول، تیل بھی کل ہی چیک کرلیا تھا۔علی جب گاڑی میں بیٹھا تو شام کا دھندلکا پھیل رہا تھا۔ابھی سفر شروع کئے آدھا گھنٹہ ہی گزرا تھا کہ موسم کے تیور خراب ہونے لگے۔پہاڑی علاقوں میں موسم بہت تیزی سے بدلتا ہے۔علی نے پریشان ہوکر باہر دیکھا، فضا ایک دم سے مٹیالی ہوگئی تھی، برف باری کی شدت بہت بڑھ گئی تھی ۔ہوائیں سیٹیاں بجاتی برف کو بکھیر رہی تھی۔Visibility ایک دم خراب ہوگئی  تھی، علی کو دو فرلانگ آگے کچھ نظر نہیں آرہا تھا ۔ دھند نے visibility ختم کردی تھی۔علی نے اپنے اوور کوٹ کے کالر اوپر کیے اس کو گرم گاڑی میں بھی سردی کی شدت محسوس ہورہی تھی ۔علی گاڑی کو بہت آہستہ چلا رہا تھا اسے اندازہ تھا کہ اس موسم میں ایکسڈینٹ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔سڑک بہت پھسلنی ہوگئی تھی، علی کی گاڑی میں winter tires تھے ۔مگر اس کے باوجود گاڑی پھسل رہی تھی ۔علی زیر لب آیت الکرسی کا ورد کررہا تھا۔اچانک گاڑی کے انجن سے گڑگڑاہٹ کی آواز آئی اور گاڑی رک گئی۔علی جانتا تھا اس موسم میں گاڑی کی خرابی کا کیا مطلب ہے۔اس کا جسم ٹھنڈے پسینے سے بھر گیا۔ وہ ٹارچ لے کر باہر نکلا اور بونٹ اٹھایا، اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔اندھیرا پھیل چکا تھا، دور سے بھیڑیوں کے بھونکنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔علی جانتا تھا کہ اب اس وقت اس سڑک پر کسی مدد کا انتظار کرنا حماقت کے سوا کچھ نہ تھا۔اس کو پتا تھا کہ اس کی گاڑی جلد ہی اس طوفان میں برف میں دب جائے گی۔اس کے ذہن میں وہ ساری بدقسمت اموات آگئیں جو لوگ برف کے طوفان میں اکیلے سردی کا شکار ہوکر مر گئے تھے ۔اس کے ہر مسام سے پسینہ نکل پڑا۔ اس نے ہمت کرکے گاڑی سے اپنا بیک پیک نکالا ،ٹارچ پکڑی اور اردگرد کا جائزہ لیا ۔اسے کچھ فاصلے پر پہاڑ کی بلندی پر واقع ایک کاٹیج نظر آیا اس کاٹیج سے آتی روشنی سے اسے تسلی ہوئی ۔اس نے کاٹیج کی طرف سفر شروع کیا ۔آدھے گھنٹے کی مشقت کے بعد وہ کاٹیج کے دروازے پر تھا۔ اس نے زور زور سے دروازہ کھٹکھٹایا کیونکہ طوفانی ہواوں کا شور بہت بڑھ گیا تھا ۔کچھ دیر بعد دروازہ کھلا، کھولنے والی کوئی عورت تھی۔علی نے بڑی عاجزی سے اس سے پناہ کی درخواست کی۔ اس نے سر ہلا کر اس کو اندر آنے کو کہا۔ علی کاٹیج کے اندر داخل ہوا تو اس کے تن بدن میں جان آئی۔اندر آتشدان جل رہا تھا،آتشدان کی لکڑیوں پر سوپ کی ایک بڑی دیگچی سٹینڈ کے ساتھ لٹکی ہوئی تھی ۔کاٹیج دیودار کی لکڑی کا بنا ہوا تھا ۔اس کے انداز تعمیر سے اندازہ ہوتا تھا کہ شاید وہ ایک صدی پرانا تھا۔ آتشدان میں شاید صندل کی لکڑی جل رہی تھی، جس کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی۔کمرے میں پڑا صوفہ وکٹورین سٹائل کا تھا۔ فرش بھی لکڑی کا تھا اور اس پر دبیز ایرانی قالین بچھا ہوا تھا ۔علی بے اختیار ہی آگ کے قریب بیٹھ گیا۔اس کا رواں رواں سردی سے کانپ رپا تھا۔ اس عورت نے فورا دیگچی سے سوپ نکال کر علی کو پکڑایا،علی نے دیکھا وہ انتہائی حسین و جمیل خاتون تھی اس کا حسن یقیناً  حوروں کو بھی شرماتا تھا، علی نے رغبت سے سوپ پینا شروع کردیا ،عورت مدہم آواز میں بولی:
“میں آپ کے کھانے   کا بندوبست کرتی ہوں”
علی نے سوپ کا پیالہ رکھا اور سجدہ شکر بجا لایا۔تھوڑی دیر بعد وہ عورت کھانے کی  ٹرے لے کر آئی، کھانے میں ہرن کا بھنا ہوا گوشت، کباب اور تندوری روٹیاں تھیں ۔علی نے کھانا کھایا تو برتن دیتے وقت اس کی توجہ پھر  ایک بار اپنی میزبان کے چہرے کی طرف گئی، وہ واقعی کسی شاعر کی رباعی تھی، اس کے چہرے پر سب سے خوبصورت اس کی آنکھیں تھیں ۔اس کی آنکھیں عجب پراسرار سی تھیں، علی کو وہ کچھ دعوت دیتی ،لو دیتی، جذبات بھڑکاتی ہوئی محسوس ہورہی تھیں ۔اس کے ہونٹوں پر ایک دلآویز مسکراہٹ تھی ۔ علی کو بے اختیار اماں کی یاد آگئی جو ہمیشہ کہتی تھیں کہ ہمارا دین بتاتا ہے کہ اگر نامحرم مرد اور عورت اکیلے ہوں تو ان کے بیچ تیسرا شیطان ہوتا ہے۔۔علی کی دل کی دھڑکن تیز ہوئی مگر اسے اپنی معصوم اور پیاری بیوی ایمان یاد آگئی جو اکثر کہتی تھی :
علی آپ میرا اعتبار ہیں ساری دنیا کہہ ڈالے کہ علی بے وفا ہے مگر مجھے پتا ہے کہ علی صرف میرا دیوانہ ہے۔
،اس کی نگاہوں کے آگے اس کے معصوم بچوں کے چہرے آگئے۔۔اس نے دل ہی دل میں استغفار کیا اور بولا:
جزاک اللہ بہن ! آپ کا یہ احسان میں تا عمر یاد رکھونگا ۔
اس عورت کا منہ لمحے بھر کے لئے حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔وہ سنبھل کر بولی:
“بھیا! کسی اچھی، نیک ماں کے سپوت ہو۔کسی نے پہلی بار اس مقدس رشتے سے پکارا ہے۔”
اب اس عورت کی آنکھیں اور چہرہ ایک عام گھریلو عورت جیسا محسوس ہورہا تھا ۔اس عورت نے کہا:
“میں نے بہت ڈرتے ڈرتے آپ کو پناہ دی تھی ۔تقریباًً  دس سال پہلے یہ کاٹیج جن کی ملکیت تھا ان کی بیوی اور نومولود بیٹے کو کوئی بڑی بے رحمی سے قتل کر گیا تھا ۔ایسی ہی ایک طوفانی برفانی رات تھی، جب عائزہ نے ایک “جوان سالہ مسافر” کو برف کے طوفان میں گھرا پاکر اس کو اپنے گھر پناہ لینے کی اجازت دی جس کا بدلہ اس نے عائزہ کی عزت لوٹ کر اور اس کو اور اس کے مظلوم بیٹے کو قتل کرکے دیا۔عائزہ کا میاں جب پانچ دن بعد برف کا طوفان ختم ہونے کے بعد گھر پہنچا تو بچے اور عائزہ کی لاشیں اسی آتشدان کے سامنے پڑی پائی گئی تھیں۔ ”
علی نے افسوس سے سر ہلایا اور بولا:
“پتہ نہیں انسان اپنے محسن کے ساتھ ایسی احسان فراموشی کیسے کر سکتا ہے؟
کیسے انسان درندہ بن جاتا ہے۔”
اچانک اس نے پوچھا:
بہن آپ نے پھر اس المناک واقعے کے بعد کاٹیج کو کیوں خریدا؟
اچانک اندر کہیں سے کسی نومولود کے رونے کی آواز آئی،خاتون بچے کو دیکھنے اندر چلی گئیں ۔
علی شدید تھک گیا تھا وہ صوفے پر دراز ہوگیا، اس کی آنکھ کب لگی اسے پتا ہی نہیں چلا۔صبح اس کی آنکھ دروازے کے کھٹکنے سے کھلی اس نے آنکھیں ملتے دروازہ کھولا تو سامنے عباس اور چند فارسٹ آفیسرز کے ساتھ کھڑا تھا۔اس نے علی کو گلے لگایا اور کہا:
“شکر ہے اللہ کا،تو صحیح سلامت ہے۔اس کاٹیج میں سے گزشتہ دس سالوں میں زندہ برآمد ہونے والا تو پہلا خوش قسمت شخص ہے۔”
علی نے مڑ کر دیکھا تو کاٹیج کے اندر جالے لٹک رہے تھے۔آتشدان میں آگ نہیں تھی البتہ آتشدان پر لگی تصویر میں موجود خاتون سے وہ بخوبی واقف تھا۔وہ وہی رحمدل خاتون تھی جس نے کل رات اس کی زندگی بچائی تھی۔علی بے اختیار کاٹیج کے اندر بھاگا گیا، پورا کاٹیج خالی تھا،اس عورت اور بچے کا دور دور تک کوئی  نام و نشان نہیں تھا۔
عباس نے بتایا کہ پچھلے دس سالوں میں جن جن کی گاڑی ادھر خراب ہوئی اگلے دن ان کی لاشیں اسی کاٹیج سے کٹی پھٹی ملیں ۔
علی کا دماغ سائیں سائیں کررہا تھا ۔علی نے اسلام آباد پہنچ کر سب سے پہلے لائبریری سے دس سال پرانے اخبار نکالے ،ہر اخبار کی شہ سرخی پر عائزہ کی تصویر اور اس کے   نومولود بچے کے  قتل کی کہانی تھی۔علی عائزہ سے بخوبی واقف تھا۔اس کو پتا چل گیا اس رات اس کے ایمان،اس کی کردار کی پختگی، اس کے والدین،بیوی بچوں کی دعاؤں نے اس کی حفاظت کی تھی،ورنہ کاٹیج نمبر 303 سے کبھی کوئی زندہ واپس نہیں آیا تھا۔

Facebook Comments

Munnaza S
میرا نام مونا شہزاد ہے، میں کالج کے زمانے سے لکھتی تھی،1994 میں بی اے کے دوران قومی اخبارات میں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا،جو گاہے بگاہے چلتا رہا۔2001 میں شادی کے بعد کینیڈا آنے سے سلسلہ رک گیا۔میں زندگی کی مصروفیات میں گم ہوگئی،زینب کے سانحے نے مجھے جھنجھوڑ کر بیدار کیامیں نے قلم سے رشتہ استوار کیا۔اب میری تحریریں تمام بڑے آن لائن پلیٹ فارمز،آن لائن رسالوں، دیگر رسالوں اور اخبارات میں چھپتی رہتی ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply