مقدمہ :
گلگت بلتستان مسلہ کشمیر کے تناظر میں اقوام متحدہ کے قراردادوں اور آئین کے آرٹیکل 257 اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے تین لارجر بنچ کی روشنی میں مسلہ کشمیر کا اہم جزو اور متنازعہ خطہ ہے۔ قیام پاکستان کے وقت گلگت بلتستان کی حیثیت سابق ریاست جموں کشمیر کے صوبے کے طور پر تھا ، لیکن کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ کی جانب سے 27 اکتوبر 1947 کو ہندوستان کے ساتھ عبوری الحاق کی وجہ سے اس خطے میں فوجی بغاوت ہوئی اور ہر سال یکم نومبر آتا ہے تو گلگت بلتستان میں نامکمل آذادی کا مناتے ہیں حالانکہ اس آذادی کے گلگت بلتستان کو ثمرات ملے نہ سیاسی سماجی اور معاشی آزادی ملی بلکہ آزادی کے باوجود بھی آج تک متنازعہ ہے لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس آذادی کے حوالے سے ہر سال ملک کے نامور اخبارات میں غیر معروف کسی نہ کسی لکھاری کا مقالہ اردو اور انگریزی زبانوں میں چھپ جاتا ہے جسکا لب لباب یہ ہوتا ہے یکم نومبر 1947 والی نامکمل آذادی کاکریڈٹ کرنل مرزا حسن خان آف گلگت کے بجائے برطانوی سامراجی ایجنٹ میجر ولیم بروان کو جاتا ہے۔ جوکہ یقینا گلگت بلتستان کے پچیس لاکھ عوام کیلئے تکلیف دہ اور تاریخ مسخ کرنےوالی بات ہے۔ راقم کی ہمیشہ سے کوشش ہوتی ہے کہ مسلہ کشمیر کے تناظر میں ہمارے مسائل ، تاریخی واقعات اور قانونی پیچیدگیوں اور سازشوں کے بارے میں عام آدمی کو معلومات حاصل ہو۔ کیونکہ جس قوم کو اپنی تاریخ اور ہیروز کے بارے میں علم نہ ہو وہ قوم دنیا میں اپنا مقام کھو دیتی ہے اور وجود برقرار رکھنے میں کامیاب نہیں ہوتے۔ آج خطے کی ہزاروں سال پرانی تاریخ میں انقلاب گلگت کے بعد کے واقعات پر مقامی سطح پر ذیادہ تر مفادات سے وابسطہ تاریخ دانوں، دانشورں قلم کاروں کی باتوں اور تحاریر کو بغیر کسی تحقیق اور تصدیق کے لوگ مستند مانتے ہیں اور بیانیہ بناتے ہے۔ کیونکہ بدقسمتی سے آج بھی کوئی ایسی لائبرئیری نہیں ہے جہاں تاریخ سے متعلق تمام قسم کی کتابیں دستیاب ہوں۔ اور نہ مقامی اخبارات میں اس قسم کے معاملات پر لکھنے والے مضامین کی اشاعت ہوتی ہے۔ دوسری طرف محددو تعداد میں اہل علم تاریخ پر مکمل عبور رکھنے کے باوجود وسائل نہ ہونے کی وجہ سے مسائل کا شکار ہیں لیکن سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کے آنے سےسچ اور عوام کے درمیان فاصلہ کافی کم ہوگیا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد کشمیر میں انقلابی کونسل کا قیام۔
کرنل مرزا حسن خان مرحوم آف گلگت اپنی کتاب شمشیر سے زنجیر تک کے صفحہ نمبر 127 میں لکھتے ہیں کہ۔1946 کے اوائل میں چند فوجی افسرحالات کا رُخ دیکھتے ہی یہ بھانپ گئے تھے کہ کشمیر میں مسلمانوں کی غفلت اور سوشلسٹوں کی غداری بالآخررنگ لاکر رہے گی۔ اس کے تدارک اور حالات کو لگام دینے کیلئے اُنہوں نے خفیہ سر جوڑ لیا جس کی فوج میں سخت ممانعت تھی۔وہ لکھتے ہیں جموں اور کشمیر میں اُس وقت ڈوگرہ فوج کا گڑھ تھا،شروع میں راقم کے ساتھ صرف میجر راجہ محمد افضل خان تھے، اس کے بعد میجر اسلم خان کو بھی اکیلئے میں اعتماد میں لیا ۔بعد میں کرنل محمد منشاء۔میجر شیر،میجر محمد دین اور میجر سید غضنفر علی شاہ سمیت کئی جونئیر مسلمان افسران بھی ان کے ساتھ مل گئے اور اس تمام معاملے میں سنئیروں سے اپنے آپکو دور رکھا۔وہ مزید لکھتے ہیں کہ بڑے غور خوض کے بعد اس بات پر اتفاق ہوا کہ فوجی بغاوت کے زریعے مہاراجہ کا تختہ اُلٹا دیا جائے گا۔اور ارادہ تھا کہ جب تاج برطانیہ کی ذمہ داریاں تقسیم ملک کے بعد ختم ہوگی تو مہاراجہ کی شاہی حکومت کا تختہ اُلٹ کر فوری طور پر پوری ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کریں گے۔ اس کتاب میں اُنہوں نے بہت کچھ لکھا ہے لیکن یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ کرنل حسن خان پاکستان کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کیلئے لڑنے پر فخر کرنے والا فوجی افسر تھا ۔ لیکن وہ اور اس کی اولادوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ افسوسناک اور الگ موضع بحث ہے۔
میجربروان کے نام سے منسوب بغاوت گلگت کی حقیقت۔
قارئین کیلئے یہ بات حیران کن بات ہوگی کہ برطانوی سامراجی ایجنٹ میجربراون جنگ آزادی گلگت بلتستان کا ایک اہم کردار ہونے کے ساتھ مشکوک رہے ہیں۔اُنکی کتاب بغاوت گلگت اُنکی وفات کے چودہ سال بعد انگریزی زبان میں منظر عام پر آئی اور لکھنے والوں نے اُس کتاب کی بنیاد پر اُسے گلگت بلتستان کا ہیرو بناکر پیش کیا اور بعد از مرگ پاکستان کے قومی اعزاز سے بھی نوازا گیا ۔دربار کے زیر اثر دانشوروں نے اُسی کتاب کی بنیاد پر حسن خان کے خلاف تحاریر اور کتابیں لکھی اور ایوارڈ حاصل کئے۔ میجر براون کے بارے میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرپرست اعلٰی استور سے تعلق رکھنے والے امان اللہ خان مرحوم اپنی کتاب جہد مسلسل جلد سوئم کے صفحہ نمبر 286 میں لکھتے ہیں کہ میرے قیام برطانیہ کے اواخر میں اپنے ایک عزیز حشمت اللہ خان جن کو گلگت کے تاریخی واقعات لکھنے کا شوق ہے ،کے کہنے پر میجر براؤن سے گلگت کے انقلاب سے متعلق دستاویزات مانگنے کیلئے فون کیا تو میجر براؤن نے کچھ تذبذب کے بعد مطلوبہ دستاویزات دینے کی حامی بھری۔ مگر ان دنوں مجھے اپنے ساتھی مقبول بٹ شہید کی تہار جیل میں پھانسی کا دکھ تھا۔ (مقبول بٹ ایک کشمیری آزادی پسند رہنما اور جموں و کشمیر لیبریشن فرنٹ کا بانی تھا جن کو ہندوستان کی حکومت نے نئی دہلی کے تہاڑ جیل میں پھانسی دی تھی)۔اسی دوران دیگر کاموں کی وجہ سے مجھے فرصت نہیں ملی کہ میں اسکاٹ لینڈ جا کر وہ دستاویزات حاصل کرسکوں۔ بعد میں فرصت ملتے ہی میں نے براؤن کا پتہ کیا تو ان کی اہلیہ نے کہا کہ اُنکا حال ہی میں پانچ دسمبر 1984ء کو انتقال ہوا ہے۔میں نے مطلوبہ دستاویزات کے بارے میں پوچھا تو مسز براون نے کہا کہ ” کچھ دستاویزات تو رائٹرز نیوز ایجنسی والے لےکر گئے ہیں اور باقی دستاویزات پاکستانی سفارت خانے کے پریس قونصلر مسٹر قطب دین عزیز لے گئے ہیں اور اب میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ مزید براں میجر بروان کی کتاب کے انگریزی ورژن کے صفحہ 15 میں صاف الفاظ میں لکھا ہےکہ ولیم براؤن کی گلگت سے واپسی یعنی کم از کم 1948ء تک اپنے پاس ایک ڈائری رکھتے تھے جو کھو گئی (بظاہر چوری ہوگئی تھی)۔ انہوں نے اسے بیانیہ انداز میں لکھا تھا اور ان کا ارادہ اسے چھپوانے کا تھا۔ لیکن آخر میں ارادہ ترک کیا اور بعد میں اس کی اصل ٹائپ شدہ مسودہ بھی کھو گئی تھی۔ مگر کاربن کاپی سے کام چلایا گیا جس کے مستند ہونے کا کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس لئے میجر براؤن کی یادداشت کے دیباچہ میں واشگاف الفاظ میں یہ لکھا گیا ہے کہ “اشاعت کیلئے اس یادداشت کی تیاری میں بہت لوگوں نے مدد کی اور وہ گروپ کپٹین شاہ خان کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں( جو ایک طرح سے حسن خان مخالف افسر کے طور پہچانے جاتے تھے) جنہوں نے گلگت بلتستان میں1947-1948 کے واقعات سے متعلق اس یادداشت میں شامل مواد کی تصدیق کرنے میں مدد کی۔
پاکستانی میڈیا اور کالم نگاروں کی من گھرٹ رائے۔
عام طور پاکستان میں میڈیا پر گلگت بلتستان کے مسائل زیر بحث نہیں آتے جس کی بنیادی وجہ خطے میں ریٹنگ ٹاور کی عدم موجودگی بتایا جاتا ہے۔ لیکن گلگت بلتستان کی نامکمل آذادی کے حوالے سے بڑے بڑے اخبارات میں مضامین شائع ہوتے ہیں جسکا نہ تاریخ سے کوئی تعلق ہوتا ہے کہ خطے کی زمینی حقائق سے آگاہ ہوتا ہے جو کہ اس خطے کی تاریخ اور یہاں کے عوام کی بنیادی سیاسی معاشی حقوق کے خلاف سازش ہے۔ سب اہم بات یہ بھی ہے کہ گلگت بلتستان کی بین الاقوامی اسٹریٹجک اہمیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں یہ خطہ عالمی طاقتوں کا مرکز نگاہ بھی ہے جہاں ایک طرف چین اور روس ہے دوسری طرف امریکہ اور امریکہ نے معدنیات میں انوسمنٹ کے بہانے گلگت بلتستان میں اپنا پنجہ گھاڑنا شروع کردیا ہے جس پر اس خطے کے عوام میں شدید خدشات اور تحفظات پایا جاتا ہے ۔ لیکن کارپوریٹ میڈیا کبھی اس ٹاپک کو زیر بحث نہیں لاتے بلکہ اس خطے کی تاریخ مسخ کرنے اور محسن کشی کیلئے اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔
کرنل مرزاحسن خان پر شیعہ ریاست کی قیام کا الزام۔
بلتستان سے تعلق رکھنے والےجماعت اہلحدیث کے نامور عالم دین اور مصنف مولانا حق نواز اپنی کتاب جنگ آذادی گلگت بلتستان اور کشمیر میں لکھتے ہیں کہ میں نے جب قائد اہل جماعت سنت گلگت بلتستان مکتب دیوبند قاضی نثار احمد اور مرحوم پروفیسر عثمان علی خان مرحوم سےمذکورہ کتاب لکھنے کیلئے اجازت طلب کرنے کی غرض سے ملاقات کی تو معلوم ہوا کہ مرحوم پروفیسر عثمان علی خان مرحوم کرنل حسن مرحوم کو ہیرو تو کیا بطور ایک مجاہد بھی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے۔ وہ ایک خط کا حوالہ دیکر یہ سمجھ رہا تھا کہ کرنل حسن خان چونکہ اس خطے کو شیعہ ریاست بنانے کا ارادہ رکھتے تھے جس میں انہیں کامیابی نہیں ملی ۔لہذا اُسے ہیرو بنا کر پیش کرنا چاہئے اور نہ ہی اسکے بارے میں کوئی کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔مصنف مزید لکھتے ہیں کہ مرحوم پروفیسر عثمان علی خان مرحوم جو خود ایک مشہور اور معروف شخصیت کے حامل ایک عظیم انسان تھے ۔انکا کرنل حسن خان مرحوم کے بارے میں کتاب لکھنے سے منع کرنا تعجب کی بات تھی۔ وہ نہ صرف کرنل حسن خان مرحوم کے مخالف تھے بلکہ میجر بروان کو انقلاب گلگت کا بانی سمجھتے تھے۔ مصنف مزید لکھتے ہیں کہ کئی بار کی ملاقاتوں کے بعد مجھے معلوم ہوا کہ مرحوم وہی گھسی پٹی باتیں جو حسن خان کے حوالے سے دشمن اور مخالف قوتوں کی طرف سے گھڑی ہوئی تھی انہی باتوں پر یقین کر بیٹھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ انگریز اور ڈوگروں کے ایجنٹوں کیلئے کرنل حسن خان کے ہر قسم کا کردار ناقابل برداشت تھا۔ اللہ تعالی نے اپنی مہربانی سے حکمت کے ذریعے ان کرداروں کے ایک اہم کردار کو ہمارے سامنے غیرمتوقع طور پر ظاہر کردیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو آذاد کرانا انگریزوں کے عزائم کو خاک میں ملانا کتنا بڑا جرم تھا مجھے یقین ہی نہیں آیا۔ وہ لکھتے ہیں کہ کتاب کو سطور بسطور پڑھنے سے معلوم ہوجائے گا کہ فرقے کے نام پر آپس میں لڑانے والے کون تھے اور ہیں، کیونکہ اُس نقلی خط کو میں نے اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ کچھ ایسا ہی میجر بروان کے نام سے منسوب کتاب بغاوت گلگت(اردو ) کے صفحہ نمبر 183 میں درج ہے جس کے مطابق وہ کہتے ہیں کہ حسن خان نے اُن سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ بیشک ہم جانتے ہیں کہ تم پاکستان کا وفادار ہو،تمام پاکستانی پاکستان کے وفادار ہولیکن ہماری پاکستان میں شامل ہونے کی خواہش نہیں ہے۔ہمارا ارادہ یہ ہے کہ ہم آذاد اسلامی ریاست بنائیں گے جس کا نام ریاستہائے متحدہ گلگت ہوگا۔اگر چہ ہم پاکستان سے دوستانہ تعلقات رکھیں گے۔ لیکن پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں کریں گے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ حسن خان کی اس بات پر میں نے دیکھا کہ تمام شیعہ لوگوں نے رضا مندی کا اظہار کرتے ہوئے سر ہلاہا۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ہے کہ جو شخص 1946 میں پوری ریاست کا پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کیلئے ریاستی فوج میں رہ کر منصوبہ بندی کر رہا ہو وہ کس طرح ریاست کے ایک حصے کو ڈوگرہ فوج سے الگ کرنے کے بعد الگ ریاست کا سوچ سکتا ہے۔ اس بات کا حسن خان نے برملا اپنی کتاب میں اظہار کیا ہے کہ مقامی اور انگریز سازشیوں نے انقلاب گلگت کے بعد ٹیبل کے بجائے سازشوں اور فرقہ واریت کا سہارا لیا۔ جس کے نتیجے میں ایک تحصیلدار پولٹیکل ایجنٹ کی صورت میں گلگت بلتستان پر مسلط ہوگیا ۔ یہاں یہ بات بھی عیاں ہوجاتی ہے کہ براون کے نام سے منسوب کتاب میں فرقہ واریت کی بنیاد پر حسن خان کو دیوار سے لگانے کی کوشش کی گئی۔ حالانکہ یہ بات تاریخی حقیقت ہے کہ جہاں حسن خان کو انقلابی کونسل میں اہلسنت اور اسماعیلی افسران کی مکمل تعاون حاصل تھی وہیں انقلاب گلگت میں باغی افسران سے تعاون کیلئے قاضی عبدالرزاق کا فتویٰ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ اسی طرح حسن خان کے پلاٹون میں اکثریت اہلسنت جوانوں کا ہونا اور اُن پر اعتماد کرنا اس بات کو واضح کرتی ہے کہ حسن خان سے خائف بروان نے فرقہ واریت کے بنیاد پر حسن خان کو بدنام کرنے کی کوشش کی۔ کیونکہ تاریخی کاکتابوں میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ تقیسم کشمیر کے بعد انگریز گلگت ایجنسی کو برطانوی بفر اسٹیٹ یا کالونی بنانے کی خواہش رکھتے تھے لیکن حسن خان کی آمد نے اُن کے خوابوں کو چکنا چور کردیا تھا۔
گلگت لداخ کے گورنر گھنسارا سنگھ کی گرفتاری کا واقعہ۔
نامور مصنف احمد شجاع اپنی کتاب مسلہ کشمیر کے صفحہ نمبر 172 میں لکھتے ہیں،کہ گلگت کے کپٹن حسن خان اسلام پرست تھے۔دوسری جنگ عظیم میں ملٹری کراس حاصل کرنے کے بعد جب 1946 میں واپس وطن لوٹے تو اُنہیں اُن کے مسلمان سپاہیوں کے ساتھ سرینگر سے گلگت جانے کا حکم ملا۔حسن خان نےکشمیر کے مسلمانوں کی زبوں حالی قریب سے دیکھا تھا اور اُنہوں نے واپس کشمیر پہنچنے سے پہلے ہی بغاوت کامنصوبہ بنایا تھا۔ اُنکا پروگرام تھا کہ اگر مہاراجہ ہندوستان کے ساتھ الحاق کرتے ہیں توبغاوت کردی جائے گی اور جموں سرینگر اور نوشہرہ جیسے اہم مقامات پر قبضہ کر لیا جائے گا۔اُن کے عزائم کا مہاراجہ کو علم ہوا تو اُن کو گلگت ٹرانسفر کرکے پیچھے اُن کی گرفتاری کیلئے کرنل عبدالمجید کی نگرانی میں جموں کشمیر رجمنٹ کی کمپنی بھیج دی گئی۔لیکن ہوا یوں کہ حسن خان کے بجائے خود کرنل مجید کو حسن خان نے گرفتار کرکے اسکاوٹس ہاوس گلگت میں نظربند کردیا۔ اس عرصے میں ریاست جموں کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ الحاق ہوگیا تھا اورایک طرح سے گلگت اسکاوٹس کی حیثیت ختم ہوگئ تھی۔ اسی طرح کتاب گلگت اسکاوٹس کے مصنف شاہ خان اپنی کتاب کے صفحہ نمبر126 میں لکھتے ہیں کہ انقلاب سے ایک دن پہلے انقلابیوں نے میجر بروان کو اپنے فیصلے سے اگاہ کردیا تھا اور اُن کو بتایا تھا کہ اگر بروان انقلابیوں کا ساتھ نہیں دیتے ہیں تو اُنہیں بحفاظت پاکستان روانہ کرنے کا بندوبست کیا جائے گا۔ یہاں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ اُس وقت بروان کی حیثیت ایک مجبور لیکن چالاک سازشی افسر سے بڑھ کر کچھ نہیں تھی۔یوں جب بروان کو معلوم ہواکہ گلگت کا معاملہ اُن کے ہاتھ سے نکل رہا ہے اور گلگت اسکاوٹس میں اُن کے ماتحت افسران حسن خان کے ساتھ ملے ہوے ہیں تو اُنہوں نے گورنر کو اطلاع کردی ۔ گورنر نے اپنی حفاظت اور بغاوت کو کچلنے کیلئے بونجی سے سکھ فوج طلب کی اور کپٹن بلدیو سنگھ کی کمپنی گلگت آنے کیلئے تیار ہوئی ۔لیکن حسن خان نے ایساہونے نہیں دیا اور خود گلگت کی طرف روانہ ہوئے۔ اس واقعے کی مزید وضاحت کریں توکرنل مرزا حسن خان اپنی کتاب کے صفحہ نمبر164 میں لکھتے ہیں کہ 31 اکتوبر 1947 کو سہ پہر چار بجے سب ضروری سامان لیکر اپنی کمپنی کے ساتھ گلگت کی طرف روانہ ہوئے کیونکہ ہمارا مقصد گلگت پر چڑھائی کرکےگورنر کی گرفتاری کے راہ میں جو بھی مشکلات آئیں اُن سے نپٹنا تھا۔ کسے معلوم کہ آخری وقت کون اس منصوبے پر مخلص ہو اور کون آخری وقت میں چھوڑ کردشمن سے ملے اورجاگیروں کا طلب گار ہوگا ۔ اسی صفحے پر وہ اپنے اور بابر کے درمیان تعلقات کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اصل بوجھ میرے اور بابر کے کاندھے پر تھا (کیونکہ بابر گلگت اسکاوٹس کا افسر ہونے کے باوجود اُن کے ساتھ ساتھی نہیں تھے جبکہ حسن خان پوری کمپنی لیکر آرہا تھا)۔ادھر گورنر اس اُمید سے بیٹھا تھا کہ بونجی سے سکھ کمپنی بلدیو سنگھ کی قیادت میں گلگت آرہا ہے لیکن حسن خان نے گلگت پہنچ کر بابر کے ذریعے گورنر کو اطلاع دی کہ بلدیو نہیں میں حسن خان آیا ہوں(سوشل میڈیا پر بابر جو خط گھنسارا سنگھ کو پیش کر رہا ہے وہ حسن خان کا خط تھا)۔گھنسارا سنگھ نے اپنی کتاب Gilgit befor 1947 میں بھی اس بات کی باقاعدہ تصدیق کی ہوئی ہے۔ یوں گورنر گھنسارا سنگھ گرفتار ہوئے اور گلگت لداخ سے مہاراجہ آف جموں کشمیر کی حکومت ختم ہوکر آذاد کردہ علاقہ جات کہلائے۔ لیکن بدقسمتی سے انقلاب گلگت کے اس عظیم ہیرو کو تمغے کے بجائے پنڈی سازش کیس میں غداری کا لقب ملا ۔پس تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انقلاب گلگت کوئی حادثہ نہیں بلکہ جامع حکمت عملی کے بعد رونما ہونے والا واقعہ تھا جس کی بنیاد پر قدرتی وسائل ،معدنیات،جنگلات اور آبی وسائل سے مالا مال ریاست جموں کشمیر کا اہم حصہ گلگت بلتستان اکثریتی علاقے ہندوستان کے قبضے میں جانے سے بچ گئی اور ہندوستان کو آج تک یہی غم کھاے جا رہا ہے۔ اس تاریخی کارنامے کو انجام دینے کیلئے حکمت عملی تیار کرنے والے شخصیت کا نام کرنل مرزا حسن خان تھا۔جنہوں نے نہ صرف مہاراجہ کے فوج میں شامل افسران کو اپنے ساتھ ملایا بلکہ گلگت اسکاوٹس کے افسران جن میں بابر خان،سعید درانی وغیرہ کو بھی اپنا ساتھی بنایا۔ ان تمام واقعات کو خلاصے کے طور پر قوم پرست رہنما نواز خان ناجی کچھ اسطرح بیان کرتے ہیں کہ 1947 میں ہم کمزور تھے ہمیں سازشوں کے ساتھ پیکج ملا اور آزاد کشمیر آئین اور جھنڈا لینے میں کامیاب ہوئے ۔
یکم نومبر کے بعدعبوری حکومت کی تشکیل کیلئے حسن خان کا کردار۔
حسن خان اپنی کتاب کے صفحہ نمبر 171 میں اس واقعے کو کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔میں شاہی گروانڈکے جلسے سے نکل کر سکاوٹ لائن میں آیا تو کرنل کمانڈنگ کے بنگلے میں سب افسر اور گلگت کے معززین جمع تھے اُنہیں جیسے چُپکے سے کسی نے دعوت دیکر بُلایا گیا تھا یہی حال پریڈ گرونڈ کا بھی تھا جو کہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مجھے کہا گیا کہ مجلس مشاورت یا انقلابی کنونشن کی ہنگامی بیٹھک تھی جو عبوری حکومت کی تشکیل کیلئے بلائی گئی تھی۔کمرے میں داخل ہوا تو جملہ حاضرین کے درمیان انگریز افسر بھی مدعو تھے۔ میرے رفیق اس کار خیر میں اپنا ہاتھ بٹانا چاہتے تھے اور اپنے مہرے آگے لانا چاہتے تھے۔ علاقہ بھر کے کرم فرماوں کی اس سے بڑی بن بلائی غیرنمائندہ جماعت میں نے کبھی پہلے نہیں دیکھی تھی۔ہرابولہوس اس میں مدعو تھااور اگر موجود نہ تھے تو صرف بونجی گیریژن کے انقلابی افیسر،جو کچھ تو بھوپ سنگھ والی پڑی میں مورچے سنبھالے ہوئے تھے اور کچھ خود بونجی میں محمد خان جرال اور نادر علی خان کے ماتحت میرے انتظار میں رہ گئے تھے۔ انگریز اس میٹینگ میں بڑھ چڑھ کر بول رہے تھے اور باقی اُنکے ہاں میں ہاں ملائے جارہے تھے کیوں نہ اسکاوٹ افیسر تو اس تربیت میں پل کر جوان ہوئے تھے۔ میرے لئے اخلاقی چیلنج تھا کہ اکیلا کس طرح اس جمہوری علم پر ردعمل کرتا ہوں۔وہ ہنزہ کےمرحوم میر جمال خان کو اس عبوری حکومت کی صدرات پیش کرنا چاہتے تھے۔
اگر اس تجویز پرعمل ہوتا تو صرف انگریز اور میروں کے لواحقین کا بھلا ہوتا۔تمام علاقہ فیوڈل نظام کے تحت آتا اور راقم رفتہ رفتہ پش پردہ چلا جاتا۔کوئی وثوق کے ساتھ نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس کے بعد پاکستان کے بارے میں اُن کا کیا رویہ ہوتا کیونکہ میر آف ہنزہ نے اس واقع سے ایک ماہ بعد Instrument of Accession پر دستخط کئے جبکہ اس سے صرف تین ماہ پہلے مہاراجہ کے ساتھ وفاداری کا اعلان بھی کرچُکے تھے۔یہ ایک ماہرانہ منصوبہ اور نامعقول چال تھی جس کی تائید سوائے گلگت کے عوام کے جو باہر گراونڈ میں نعرے مار رہے تھے،کمرے میں موجود سب نے جمہوری طریقے سے کی تھی، راقم نے اسے تدبر سے رد کردیا اور پستول نکالیا اور مرحوم راجہ شاہ رئیس خان جو گلگت کے ہی ایک شریف بزرگ اور راجہ خاندان کے فرد تھے کو صدربنا دیا۔ اُن سے دیگر میر اور راجے خار کھاتے تھے کیونکہ اُن کے خاندان اور راقم کے خاندان میں قدیم سے تعاون تھا۔سعید دورانی اس انقلابی حکومت میں میرے ڈپٹی مقرر ہوئے لیفٹنٹ غلام حیدرکو ان علاقوں میں پولٹیکل ایجنٹ مقرر کردیا اور بابر سعید درانی کے نیچے کوارٹر ماسٹر مقرر ہوئے۔ اُنہیں عملا انقلاب کے دوران فوج کو رسل پہنچانے کے مشکل فرائض اُنکی مرضی سے سونپے گئے تھے اور حاضرین کی اس تجویز کو اُنہوں نے پسند کیا تھا۔ملک اور قوم کی ہمدرد،اس مجلس مشاورت نے میری کسی تجویز کو رد کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی تو مجھے اُن کے دل جوئی کی خاطریہ تجویز ماننی پڑی کہ سول فوجی دونوں معاملات میں دونوں انگریز افسر میرے مشیر ہونگے، جب تک مجلس مشاورت برخاست نہیں ہوئی تھی،میں نے یہ زہر چُپکے سے پی لیااور میٹنگ کے برخاست ہوتے ہی ان دشمنان ملت کو اُن کے بنگلے میں نظربند کردیا اور اسکاوٹس ہی کا پہرہ بٹھا دیا تاکہ یادگاررہے۔ راقم حسب سابق مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جو بھی کہیں مقرر ہوئے ،تعجب ہے کہ خود اپنے کاندھوں پریہ بوجھ ڈالتے وقت کسی نے مجھ سے تعرض نہیں کیا۔جیسا کہ عرض کیا ہے اس مجلس مشاورت کا دل رکھنا میرا فرض ہوگیا تھا اس لئے میٹنگ کی برخاستگی کے فورا بعد انگریزوں کی گرفتاری کا حکم دیا، اور اُنہیں اسکاوٹ سرداروں سے گرفتار کروایاجو اُنہیں ساتھ لے آئے تھے اور میرے مشیر مقرر کروا رہے تھے۔ انقلاب بغیرسازشوں کے کامیاب نہیں ہوتے ہیں جانی دوستوں کے آستینوں میں بڑے بڑے سانپ پلتے ہیں سردست کوئی بڑا سانپ ہماری گرفت سے باہر نہ تھا لیکن رینگتے دشمنوں کی کبھی کمی بھی نہیں تھی۔ اس نامعقول مجلس کی ابدی برخاستگی سے پہلے ایک پیغام راقم کی ہی ڈیکٹیشن پر میرے نام نہاد مشیروں نے حکومت پاکستان کو بھیجا تاکہ سول امور میں ہماری مدد کیلئے ارتباطی افسر بھیج دیں جو ہمارے اور اُن کے درمیان رابطہ رکھنے کا ذریعہ بنے۔ اس سے مدعا گلگت کے عوام کو یہ دکھانا تھا کہ ا کیلئے نہیں ہیں بلکہ ایک ملک ہماری پشت پر ہے،ہم سب کچھ کشمیر کو اس سے ملانے کیلئے کررہے تھے اپنا کوئی مطلب اس کے سوا کچھ نہ تھا۔ لیکن بعد میں یہ پولٹیکل ایجنٹ عملا ان علاقوں کا مالک بن بیٹھا اور ہماری انقلابی جدوجہد کی تحریک خود بخود دم گھٹ کر رہ گئی۔ یوں ان تمام تاریخی حقائق کو پڑھنے کے بعد قارئین فیصلہ کریں کہ انقلاب گلگت کا اصل ہیرو کون ؟ حسن خان کے عظیم کردار کو پس پشت ڈالنے کی وجہ کیا تھی؟ آج اُن کی اولادوں کو باپ کے قبر پر فاتحہ تک پڑھنے کی اجازت کیوں نہیں؟ ۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حسن خان کی تصویر وزیر اعلیٰ اور گورنر ہاوس سمیت تمام سرکاری دفاتر میں آویزاں ہوتی، لیکن افسوس وہ اور اُنکے پوری ٹیم کی تصویر گلگت میں چوراہے کی دیوار میں گھاڑ رکھا ہے۔ اس سے بڑا المیہ اورصدمہ کیا ہوسکتا ہے۔
مسئلہ گلگت بلتستان آخری حل کیا ہے۔
اس خطے کے عوام کی خواہشات ، توقعات اور اسمبلی میں متعدد بار صوبے کیلئے متفقہ قرارداد منظور ہونے کے باوجود ریاست کا آج بھی موقف یہی ہے کہ یہ خطہ چونکہ قانونی طور پر متنازعہ اور سابق ریاست جموں کشمیر کی اکائی ہے اور اس خطے کی قسمت کا فیصلہ سلامتی کونسل کے قراردادوں کی روشنی میں رائے شماری اقوام متحدہ کی نگرانی میں ہونا باقی ہے، جو پوری ریاست میں ہونی ہے۔ پس یہ بات سمجھنے کی ہے کہ سلامتی کونسل کی قراردادیں ہوں یا کراچی ملٹری ایگریمنٹ یا آئین پاکستان کے آرٹیکل 257 ، آرٹیکل 1 ،سمیت سپریم کورٹ آف پاکستان کے متعدد فیصلوں کی روشنی میں گلگت بلتستان کشمیر سے جدا نہیں کشمیر سے ہٹ کر گلگت بلتستان کے حوالے کسی قسم کے فیصلے جس میں اس خطے کی جعرافیہ پر منفی اثر پڑنے کے امکانا ت ہوں وہ غیر قانونی اور یو این سی آئی پی کے قرادادوں کی خلاف ورزی ہے۔ جسکی بنیادی وجہ گلگت لداخ یکم نومبر 1947 کی آذادی بین الاقوامی سطح پر تسلیم نہ ہونا اور اُس وقت کے فیصلہ سازوں کی نااہلی اور کمزور خارجہ پالیسی یا مجبوری تھی کہ گلگت لداخ آذاد ہوکر بھی متنازعہ ہوگیا ۔ اس بنیاد پر اقوام متحدہ کے ایک قرارداد جو 13 اگست 1948 کو پاس ہوئی جس پر پاکستان اور ہندوستان دستخط کار ہیں،یہ حکم دی تھی کہ مسلہ کشمیر کی حل کیلئے رائے شماری تک خطے میں لوکل اتھارٹی حکومت کو یقینی بنائیں ۔جس پر عمل کرنے کے بجائے آج تک مختلف سیاسی اصلاحاتی پیکجز کے زریعے خطے کو چلایا جارہا ہے ۔ اس وجہ سے یہ خطہ تمام قسم کے قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باجود بااختیار سیاسی ڈھانچہ نہ ہونے کی وجہ سے گندم سبسڈی کو حقوق اور موت اور زندگی سمجھ بیٹھا ہے۔ لہذا خطے میں جب تک بااختیار سیاسی نظام کا قیام عمل میں نہیں لاتے مسائل کم ہونے کے بجائے مسلسل اضافہ ہوگا۔ لہذا وقت کا تقاضا ہے کہ اس خطے کووہ حقوق دئے جائیں جسکا یہ خطہ حقدار ہے۔ ایک آئین ساز اسمبلی کا قیام عمل میں لاکر اس خطے کے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس خطے کی ستتر سالہ سیاسی،سماجی، تعلیمی اور معاشی محرومیوں کا ازالہ کریں، ورنہ عین ممکن ہے کہ سوشل میڈیا کے اس تندو تیز دور میں نئی نسل کی طرف سے جس قسم کے سولات اُٹھائے جارہے ہیں وہ آنے والے وقتوں میں بہت پیچیدہ حالات کا سبب بن سکتے ہیں۔
Facebook Comments


بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں