ککو کے نام ایک خط۔۔۔۔اختر عمر

ککو
سدا خوش رہو

تمہارا ۲۳ مارچ ۱۹۸۶ کا لکھا ہوا خط مجھے پورے ایک مہینے کے بعد ملا تھا۔ اپنے گاؤں میں اپنی وا وا ہے پر یہ لاہور شہر ہے، یہاں گاؤں والوں کو کوئی نہیں پوچھتا ۔ سارے ہی ریکارڈ لگاتے رہتے ہیں ہم گاؤں والوں کا۔ پینڈو پینڈو کہہ کر چھیڑتے رہتے ہیں۔ گاؤں میں تو ہم لوگوں کی ٹھیک ٹھاک بدمعاشی قائم ہے۔ ہر چھوٹا بڑا چوہدری صاحب چوہدری صاحب کرتا ہے، پر یہاں ہوٹل کا بار والا بھی لفٹ نہیں کراتا۔ بس اتنی مہربانی کرتا ہے کہ ہمارے نام کے آگے صاحب لگا دیتا ہے۔ اوئے ککو ذرا پڑھائی میں دل لگا اپنے گاؤں میں تو ماسٹر کیا ہیڈ ماسٹر بھی ہم کو سلام کرتا ہے۔ پر ادھر کے ماسٹر بڑے اوکھے ٹائپ کے ہیں۔ سیدھے سیدھے فیل کر دیتے ہیں۔ دادی مجھے بھی بہت یاد آتی ہے یار ککو اس کے بغیر اپنا بھی دل نہیں لگتا ہے شہر میں۔
دادی کو سمجھا دینا فکر نہ کریں میں شہر میں کوئی خراب لوگوں کے ساتھ نہیں بیٹھتا ہوں۔ یہاں سب پڑھے لکھے اور با تمیز لوگ ہیں اپنے گاؤں والوں کی طرح نہیں کہ بندہ کسی سے بات کرنے کے لیئے بھی کسی سیانے کا انتظار کرے۔ میری پڑھائی ٹھیک جارہی ہے اور مجھے امید ہے کہ فرسٹ ایئر میں میرے اسی فیصد سے زیادہ ہی نمبر آئینگے۔
فصلیں اچھی ہوئی ہیں پڑھ کر خوشی ہوئی۔ چاچے فضل کریم کا لڑکا آیا تھا اور السی کی پنیاں بھی مل گئی تھیں لیکن یہ تیرے خط ملنے سے پہلے کی بات ہے ۔ اس دن چھٹی کا دن تھا۔ ہوسٹل کے سارے ہی لڑکے میرے کمرے کے باہر جمع ہوگئے تھے۔ جیسے ہی چاچے فضل کریم کا لڑکا اٹھ کے گیا سب  نے میرے کمرے پر دھاوا بول دیا اور کیا آیا ہے گاؤں سے کہہ کر اسی وقت ساری پنیاں چٹ کر گئے ۔ مجھے بس چکھنے کو ہی ملی تھی۔
بھائی قمر کے ویزے کا سن کر خوشی ہوئی، اس لیئے نہیں کہ وہ دبئی چلا گیا ہے۔ بلکہ اصلی خوشی اس بات کی ہے کہ اس نے جو دو بندے مارے ہوئے تھے اس کے بدلے سے فی الحال تو وہ محفوظ ہوگیا ہے۔ ککو میں تیرے سے پھر کہہ رہا ہوں کوئی جھگڑا وگڑا نہیں کرنا کسی کے ساتھ، تو بھی سر پھرا ہے میں جانتا ہوں ۔ اس لیئے نصیحت کر رہا ہوں۔ میں جب گاؤں آؤنگا تو اسٹیشن پر کوئی ٹریکٹر لانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ٹیکسی کرلینگے۔ ابھی تیرے کو پارکر پین کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ بال پین سے لکھا کر اور ہاں کسی مٹیارنی کو خط لکھنے کا ارادہ اپنے دل سے نکال دے۔ یہ سب بری باتیں ہیں۔
بڑی پھوپھو کے بیٹے یونس کو بھی نوکری مل گئی ہے پڑھ کر خوشی ہوئی۔ بڑی پھوپھو  بیچاری بہت پریشان رہتی تھیں۔ پھوپھا جی کے مرنے کے بعد سے ان کے سسرال والے ان کو بہت تنگ کیا کرتے تھے۔ کتنی مشکل سے انہوں نے یونس کو پڑھایا تھا۔ کبھی میاں جی فیس دیتے تھے یونس کی کبھی بے جی اپنی جوڑی ہوئی پائی پائی پھوپھو کو دے کر ان کو تسلیاں دیتی تھیں۔ چل اب ان کے بھی دن پھر جائیں گے۔ یونس اچھا لڑکا ہے اور قابل بھی ہے جلد ہی ترقی کر کے آفیسر بن جائے گا۔
ہاں میاں جی کے پوتے حسن مسعود کا پڑھ کر بھی خوشی ہوئی۔ میری بہت دوستی تھی اس سے، بڑا قابل بندہ ہے۔ اس نے فائن آرٹس میں اسکلپچرز میں ڈگری لی ہے۔ حسن مسعود بڑا ذہین ہے وہ ایک نہ ایک دن بڑا نام کمائے گا۔ یار ککو تو اس سے ملا کر، میں بھی اس کو خط لکھونگا۔ اس سے تو بہت کچھ سیکھے گا ۔ ابھی تو تو بالکل گنوار ہی ہے۔ شہر آئے گا تو تیرا پکّا پڑا وال توا لگنا ہے جس کو شہر والے ریکارڈ کہتے ہیں۔
پٹواریوں کا بکرا پکڑ کر تو نے اچھا نہیں کیا ۔۔۔۔۔ خیر اب چپ رہنا ۔۔ اور آئندہ ایسے کام نہ کرنا کہیں تیری وجہ سے میاں جی کی عزت خراب ہو ۔ وہ اب بوڑھے ہوچکے ہیں اور گھر پر کوئی جوان بندہ بھی نہیں ہے کہ وہ جھگڑے کرتا پھرے تیرے لیئے۔ بندہ بن کے رہ۔
بھائی مکرّم کون سے اعتکاف میں بیٹھا ہے ابھی رمضان تو بہت دور ہیں۔ وہ کسی سے چھپا ہوا ہوگا۔ افغانستان کے جہاد میں گیا ہوا تھا۔ کسی ایجنسی سے چھپا ہوا ہوگا۔
ہاہاہا ۔۔۔ حفیظ کا خط پکڑا گیا اور چوہدریوں اور پٹواریوں میں سر پھٹھول ہوئی پڑھ کر مزہ آیا۔ ویسے حفیظ کو پٹواریوں کی لڑکی سے سچّا پیار ہے۔ ہیر رانجھے والا۔ اس نے باز نہیں آنا ہے۔ میں تو ڈرتا ہوں کہ ان کا انجام بھی ہیر رانجھا والا نہ ہو جائے۔ اور تو بھی اب بینا کو خط لکھنا چھوڑ دے۔ دل لگا کر پڑھ تاکہ شہر آکر کسی اچھے کالج میں داخلہ مل سکے۔ پہلے کچھ بڑا آدمی بننے کا سوچ پھر یہ عشق وشق کا چکر چلانا۔ اور ہاں تو نے یونیورسٹی کی لڑکیوں کے متعلق پوچھا ہے نا۔ تو سن شہر کی پڑھی لکھی لڑکیاں تو شہزادیاں ہوتی ہیں ککو، اپنی گاؤں کی چھٹی، آٹھویں پاس کے چکر میں نہ پڑ، شہر آ پھر یہاں ہی کسی پڑھی لکھی لڑکی سے لائن بنانا اور شہر کی لڑکی سے ہی شادی کرنا۔
ابا جان چک مراد کس کا فیصلہ کرانے گئے تھے۔ وہ کمہاروں اور نائیوں کے لڑکے اور لڑکی کا چکر تو نہیں تھا۔ میرے سامنے کمہاروں کا لڑکا نائیوں کی لڑکی لے کے بھاگ گیا تھا۔ میں نے تو سنا تھا اس نے شادی کرلی تھی اس سے اور کراچی چلا گیا تھا۔ شاید پولیس میں بھرتی ہوگیا تھا کراچی میں۔
جب سب لوگ مان گئے ہیں تو اباجان بھی مان جائیں گے، لالہ کو الیکشن میں کھڑا ہونا چاہئے۔ آجکل اسی کی جیت ہے اور اسی کی عزت جو حکومت کا الیکشن جیتے ۔ سارے کام نکل جاتے ہیں۔ خاص کر پولیس اور کوتوالی کی ذلّت سے نجات مل جاتی ہے۔ تو بھی ابا جان کو بول کہ عظمت لالا کو الیکشن لڑنے دیں۔
اور یہ نائٹ کلب کی بات اپنے ذہن سے نکال دے بس دل لگا کر پڑھا کر، میں تو ایسے ہی دوستوں کے ساتھ چلاگیا تھا یہ دیکھنے کہ نائٹ کلب میں ہوتا کیا ہے۔ کوئی خاص بات نہیں ہے اس سے اچھے اپنے گاؤں کے میلے اور اس کے مزے ہیں۔
اب رات بہت ہوگئی ہے صبح پہلی کلاس میں جانا ہے اس لیئے خط ختم کرتا ہوں۔ اباجان، اماں جی، بے جی، میاں جی اور سب رشتہ داروں، ملنے والوں، دوستو، نائیوں، سب کو بہت بہت سلام کہنا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

فقط
تیرا بڑا بھائی
خرّم علیجاہ

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply