شہرِ آذر کے یہ مصائب ہیں
سارے بت، معبدوں سے غائب ہیں
وہ جو اک جام ہی سے بہکے تھے
آج تک اس ادا سے تائب ہیں
حضرتِ شیخ اب ہیں آسودہ
واعظوں کے امیر نائب ہیں!
ہم تو پیرِ مغاں سے بیعت ہیں
جن کے سب انتظام صائب ہیں
وہ نہیں مانتے مگر کیا ہو،
ہاں ترے معجزے عجائب ہیں
آ جو بیٹھی ہے وہ غُرابوں میں
فاختہ کے سخن غرائب ہیں
حافظِ خستہ تن سے ملتے ہیں
جو نوابوں کے بھی نوائب ہیں
فرہنگ:
غرائب:نا مانوس،
غراب:کوے
نوائب:نائب/قائم مقام کی جمع
آسودہ:خوش
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں