داستانِ زیست۔۔۔محمد خان چوہدری/قسط11

تعارف:

محمد خان چوہدری کا تعلق چکوال کے ، بجنگ آمد کے  مصنف کرنل محمدخان کے قبیلہ سے ہے، جن کی چھاپ تحریر پر نمایاں ہے، میجر ضمیر جعفری بھی اسی علاقے سے ہیں انکی شفقت بھی میسر رہی، فوج میں تو بھرتی نہ ہو سکے لیکن کامرس میں پوسٹ گریجوایشن کر کے پہلی ملازمت فوج کے رفاعی ادارے میں کی، پھر اِنکم ٹیکس کی وکالت کی، لیکن داستان نویسی میں چکوال کی ثقافت حاوی ہے، مکالمہ  پر  ان کی دو درجن کہانیاں چھپ چکیں ہیں  ، آج کل داستان زیست قسط وار بیان کر رہے ہیں۔جس کے  دوسرے باب کی پہلی قسط  آپ کے  ذوقِ مطالعہ کے لیے حاضر ہے۔

گزشتہ قسط:

راستے  میں سفارت خانے کی باتیں ہوتی رہیں ، کہنے لگے تمہارا تو اب ڈرنکس کا مسئلہ نہیں  ہو گا، بانڈڈ سٹور سے ملتی رہے گی، ہمیں  ان مراحل کا علم نہیں  تھا سو چُپ رہے ، شیزان پہنچے تو انجینئر کتابوں کی دکان سے اشفاق احمد کی کتاب اٹھائے آ رہا تھا، ہم کھڑکی  کے ساتھ کونے والی اپنی مخصوص ٹیبل پر بیٹھے تھے، زراعت نے کوک کی بوتل کھول کے رکھی ، ہم نے جیب سے فلاسک نکالی ، گلاس ٹیبل کے نیچے کرکے  پیگ بنائے انجینئر نے معذرت کر لی۔۔
یہاں بھی فرحی کی بات نکل ہی آئی  ، ہم نے انکی شفٹنگ بارے بتایا، باس نے ہلکی آواز میں نعرہ مارا۔۔۔
گفتگو زنانہ پوشیدہ امراض پہ  آ گئی، تینوں نے اس پہ  خوب طبع آزمائی   کی ، ٹیپ ہو جاتی تو کسی حکیم کے شفاخانے  کے اشتہار کی زبردست کمنٹری تھی۔
کھانا کھایا، سویٹ ڈِش کی جگہ شیزان کی قلفی منگوائی  ، راجہ صاحب نے اعلان کیا کہ کل شام کی فلائیٹ سے وہ پانچ دن کی چھٹی پر کراچی جا رہے ہیں ، انجینئر نے اطلاع دی کہ وہ بھی سکیسر جا رہا ہے، ہم کیسے پیچھے رہتے ۔۔۔۔
ہم نے کہا، کل سے ڈی بلاک کا سروے شروع کریں جو شام کو ہو گا اور فرحی کا پتہ لگائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors

نئی قسط!

“ ارے واہ آج تو بہت بن ٹھن کے آئے ہو ، بر دکھائی پے جانا ہے کیا ؟ یہ رینگلرز کا سُوٹ ! “
صبح صبح سفارت خانے میں ہمارے دفتر میں سینئر کولیگ محترمہ چہکتی ہوئی  تشریف لا کے مخاطب ہوئیں۔
ہم باقاعدہ شرما گئے، سامنے کرسی پر براجمان ہوتے مزید استفسار کیا، “ تم نے ایمبیسی کس تاریخ کو جوائن کی ؟
سوال ہی سٹپٹا دینے کو کافی تھا ساتھ اس کی آنکھوں کی ضوپاشی ، چہرے پر پھیلی خوشی ، ہم تو پریشان ہو گئے
سامنے میز پر پڑے کیلنڈر سے چیک کر کے تاریخ بتائی،
چمکتی آنکھوں اور دمکتے گالوں سے مجھے دیکھتے مسکرا کر کہا ، بیالیس دن پہلے کی یہ تاریخ میری زندگی کی یادگار رہے گی۔۔
ہم نے اپنے حواس جمع کئے ، اسے غور سے دیکھا، آنکھوں کے نیچے ہلکے پیلے رنگ کے ڈورے اس بات کے غماض تھے کہ بی بی کا کوٹھ کرائے پر چڑھ گیا ہے، ہم نے تُکا مارا ، مُبارک ہو !
یوں لگا کہ وہ اٹھ کے ہمارا منہ چومنے کو ہے، اچھا ہوا اس نے ہونٹ سکوڑ کے ہوائی  بوسہ لیتے کلینک کا ادا شدہ بل پکڑا دیا ، ساتھ یورین کی پازیٹیو رپورٹ نتھی تھی، محترمہ خیر سے دوبارہ پریگنینٹ تھی، پہلے ایک بیٹی تھی۔۔۔
ہمیں بھی شرارت سوجھی، کہا ۔۔ہم نے تو یہاں پہلے دن بس آپ سے شیک ہینڈ کیا تھا، ہم بے گناہ ہیں !
ویسے ہم یہ کہتے میز پہ  اتنے آگے جھکے تھے کہ اس نے گال پہ  چپت لگاتے کہا ” تم بڑے وہ ہو ” مجھے یہ پیسے دو!
چار سو روپے کا ووچر بھرا ، دراز سے کیش نکال کے اسے دے دیے۔۔
سفارت خانے میں ہمارا آفس ، اُس بنگلے کے ڈائننگ روم میں تھا، درمیانی منزل پہ، شمال کی طرف دیوار گیر بڑی کھڑکی تھی، پردے ہٹے ہوں تو سامنے سڑک ، پارک اور پہاڑ تک نظر آتے ،
اسلام آباد میں مارگلہ فیس گھر آج بھی مقبول ہیں، برآمدے صحن یا ٹیریس پر بیٹھے مارگلہ کی پہاڑیاں بالکل ساتھ میں لگتی ہیں، ویسے تو اس علاقے کے موسم کے لحاظ سے صدیوں سے گھروں کا رخ جنوب کو ہوتا تھا، پرانی سرکاری عمارات بھی جنوب یا مشرق کے رخ بنی ہوئی  ہیں، لیکن اسلام آباد میں شمال کی جانب پہاڑیوں کی وجہ سے یہ رخ جنوب پر فوقیت رکھتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ اسلام آباد شہر ٹیڑھا بنا ہے، کوئی سڑک بھی مشرق مغرب کی اطراف میں سیدھی نہیں۔
اس لئے تمام مساجد سڑک کے متوازی نہیں  بلکہ ترچھی ہیں، شمال جنوب کے رخ بنی کوئی  سڑک بھی اس زاویہ پر نہیں کہ آپ کی سمت ان پر چلتے قطب یا سول کے رخ سامنے ہو، یہی ٹیڑھا پن یہاں لوگوں کے مزاج میں بھی بس گیا ہے۔
اُس زمانے میں تو اسلام آباد میں اسلام بھی کم تھا اور آبادی بھی تھوڑی تھی۔
فارن آفس
یہاں تین قسم کی مخلوق بستی تھی، اوّل درجے پے غیر ملکی سفارتی عملے کے اہلکار تھے، ان کے مقابل سرکاری افسران تھے لیکن ان سے ذرا کم کروفر کے ساتھ، سفارت خانے کے تھرڈ سیکریٹری کے پاس بھی بڑا گھر اور بڑی نئی گاڑی ہوتی تھی، ان کے لئے مخصوص مارکیٹس اور دکانیں تھیں، تیسرے درجہ پر سرکاری ملازم اور دیگر نوکری پیشہ لوگ تھے۔
ویسے تو اسلام آباد میں لاتعداد سٹون کرشر لگنے کے باوجود جنگلی حیات بہت تھی، گیدڑ، بندر اور جنگلی سؤر بکثرت تھے۔۔
لیکن اہم ترین مخلوق پیکرز، پراپرٹی ڈیلرز ، ایمبیسی کا گھریلو سامان بیچنے والے کباڑیئے ، اور بانڈڈ سٹور والے تھے۔
پہلا ہفتہ تو چانسلری اور سفیر صاحب کی رہاش گاہ کی سٹاک ٹیکنگ میں لگ گیا ، ویک اینڈ ہمارے پیش رو کی رخصتی
کی پارٹیوں میں گزرا، جب سارے کھاتے چیک کئے ، اگلا مرحلہ ماہانہ اکاؤنٹ اپنے فارن آفس کو ڈپلومیٹک میل میں بھجوانا تھا ، پہلے ہفتے کے بیگ میں نہ جا سکی، ٹیلیکس پے ہماری ملازمت کی منظوری کے ساتھ ہدایات بھی آ گئیں۔
بنک کے ساتھ مسئلہ یہ نکل آیا کہ چونتیس ہزار ڈالر کی ترسیل غلطی سے ہمارے ڈالر اکاؤنٹ میں دو بار کریڈٹ ہو گئی تھی، پہلی بار ٹیلیکس میسج پہ  اور دوبارہ ایڈوائس آنے پہ، غلطی بنک کی تھی، لیکن وہ اب اسے ریورس نہیں کر سکتے تھے کنورٹیبل فارن کرنسی اکاؤنٹ میں سفارت خانے کی تحریری ہدایت کے بغیر اب کوئی ایکشن ممکن نہ تھا،معاملہ تین ماہ سے لٹکا ہوا تھا، بنک مینجر اور آفیسر سے پورے سال کی بنک اکاؤنٹ سٹیٹمنٹ بنوائی، اسے ماہانہ اکاؤنٹس کے ساتھ نتھی کر کے بھجوا دیا، اس پہ پہلی ڈانٹ پڑی، سفیر صاحب نے پوزیشن کلیر کر دی ، یہ مجھ سے پہلے کا واقعہ تھا۔
فارن آفس اکاؤنٹس نے بھی چیک کر لیا اور چونتیس ہزار ڈالر بنک میں بھیج دیے۔
یہ بات اسلام آباد کی بستی میں پھیل گئی ، بنک والے تو مرید ہوئے باقی متعلقہ لوگوں پر بھی دھاک بیٹھ گئی۔
دوسرا اہم مسئلہ چھ عدد نیشنل کے ریورس ایبل ایر کنڈیشنرز کا تھا، بانڈڈ ویر ہاؤس کو پاکستان فارن آفس کو بھیجے گئے ایگزمشن سرٹیفکیٹ کی کاپی دے کے اے سی تو ڈیلیور ہو کے لگ بھی گئے ، لیکن اپرووڈ سرٹیفکیٹ کی کسی نے پرواہ نہ کی ، کسٹم والوں کے آڈٹ میں پوائنٹ آؤٹ ہوا ، ہمارے پیشرو کے تعلقات اس بانڈ والوں سے کشیدہ ہوں گے ورنہ کام مشکل نہ تھا، بانڈ والوں سے میٹنگ ہوئی، کاغذات تیار کرائے ، سفیر صاحب سے اجازت لی اور ہم پہلی بارشاہراہ دستور پر فارن آفس گئے، ڈپٹی چیف آف پروٹوکول سے فون پر ملاقات طے کرتے لہجہ مانوس لگا اور وہ
اپنے جوہرآباد کے ملک نکلے، گرائیں ہونا ہمارے علاقے کا وہ شرف ہے کہ اس سے بڑھ کر تعارف نہیں۔
اس وزٹ کے بعد ہم فارن آفس ایسے جاتے جیسے اپنا کالج ہو، بانڈ والوں کا مسئلہ حل کر دیا تو انہوں نے فوری طور پر رینگلر کے دو سوٹ میچنگ شرٹس، ساکس ، نکٹائی  اورپاکٹ ہینکی کا گفٹ پیش کیا، اسے آپ ہماری پہلی اوپر کی کمائی
کہہ لیں ، اب ڈپلومیٹک سرکل میں ہمارا تعارف عام ہو گیا،
ایمبیسی میں سفیر صاحب کے علاوہ تین ڈپلومیٹ تھے، فرسٹ سیکرٹری فارسی صاحب انکے نائب ، باری صاحب کونسلر افیئرز اور ناصر صاحب تھرڈ سیکرٹری ایڈمن کے انچارج اور ہمارے کام کے انچارج، لوکل ملازمین میں مترجم ، ویزہ کلرک ، انگلش ٹائیپسٹ، ایڈمن اسسٹنٹ، لیڈی سیکرٹری، خاتون عربی ٹائپسٹ، اور ریسپشن والی بی بی، گارڈز سمیت۔۔
کلاس فور میں ڈرائیور کِک وغیرہ بارہ بندے تھے، ہم ان سب کے چوہدری بھی تھے، گارڈز پٹھان تھے جن میں ہمارے پسندیدہ لال داڑھی والے خان بابا تھے، جو چانسری میں لگے پول پر صبح ایمبیسی فلیگ چڑھاتے اور سیلوٹ کرتے۔
شام کو سیلیوٹ کر کے اسے اتار کے تہہ کر کے سنبھال کے رکھ دیتے، کوئی دیکھے نہ دیکھے ان کے اس کام کو احترام سے کرنے سے ہم بہت متاثر تھے۔
ہمیں دو ہفتے ہوئے تھے جوائن کیئے ، دن کا ایک بجا ہو گا خان بابا نے مجھے ریسپشن پہ  بلوایا، ہم دونوں سڑک پر آ گئے، بڑی رازداری سے کہنے لگا، آپکا کوئی رشتہ دار لڑکی آیا ، ہم سے آپکا پوچھا، بولا ذاتی کام ہے ، ہم نے اسے مارکیٹ بھیج دیا ،کہ کتاب کی دکان پہ انتظار کرو، ادھر گیٹ پہ  ٹھیک نہیں، ہم صاحب کو بتاتا ہوں ! تم جاؤ ادھر کوئی پوچھا تو ہم دیکھ لے گا !
ہم خان بابا کی ذہانت کے اور قائل ہو گئے، مارکیٹ سامنے پارک سے آگے تھی، اندر گئے تو بک شاپ پہ فرحی گریٹنگ کارڈ خرید رہی تھی، دکاندار تو سنگی تھا اسے سلام کیا تو فرحی آواز سن کے متوجہ ہوئی سلام کیا، کارڈ کی قیمت پوچھی ، دکاندار نے ہنس کے کہا، رہنے دیں صاحب سے لے لوں گا ، وہ نروس لگ رہی تھی، مارکیٹ سے باہر آئے۔۔
اس نے ایسے ملنے آنے پر معذرت کی، اور بتایا کہ وہ سیاحت کے محکمہ کے آفس میں انٹر ویو دے کے آئی ہے۔
سیلیکشن کی قوی امید ہے، بس دو ریفرنس چاہیئے تھے، جن میں ایک نام میرا دیا ہے۔
میں نے کہہ دیا فون کر لیتی آپ ! اس کی آواز دکھ بھری ہو گئی ، کہا ، کتنی بار فون کیا ، ہر بار ہولڈ کرانے بعد جواب ملا ، صاحب سیٹ پر نہیں، نام آپکی آپریٹر نے پوچھا نہیں، بتانا  میں نے مناسب  نہیں سمجھا۔
آج مجبوری بن گئی ، وہاں اعجاز صاحب ڈائریکٹر ہیں ، وہ آپکو جانتے ہیں، اب پلیز انکا فون اگر آئے تو بات کر لیں۔
فرحی نے اتنے تسلسل سے بات کی اور اچانک ملاقات کی حیرانی سے مجھے صورت حال سمجھنے میں دیر لگی۔
میں نے پوچھا اب کہاں جاؤ گی، وہ بھی نارمل ہو گئی، ہلکا سا ہنس لے کے، بولی ۔۔۔جہاں لے جاؤ۔۔
سڑک پر نہ ہوتے تو اس محبت کا جواب بوسہ تھا پر ۔۔۔۔ اسے کہا مارکیٹ میں دس منٹ ونڈو شاپنگ کرو۔۔
دفتر سنبھال کے اور کار لے کے یہیں آتا ہوں، اس نے نچلا ہونٹ دانتوں میں کاٹتے کہا ۔۔ جلدی آنا !
جاری ہے۔۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply