مکالمہ کے سو دن اور جشن

مکالمہ ۔۔۔ کسی بھی زندہ اور متحرک تہذیب کی پہچان ۔۔۔ اسی نظریے کو لے کر انعام رانا نے مکالمہ کی ابتدا کی۔ اس کی آواز پہ ہم سب دوستوں نے لبیک کہا البتہ دل میں کچھ اندیشے بھی تھے کہ کامیابی کیونکر ممکن ہو سکے گی۔ لیکن شوق جب جنون بنتا ہے تو راہیں کھلتی چلی جاتی ہیں، در وا ہوتے چلے جاتے ہیں۔ سو مکالمہ ہمارا شوق نہیں، جنون ٹھہرا۔ اسی شوق سے جنون تک کے سفر میں پوری ٹیم ایک خاندان کی طرح کام کرتی رہی ہے ۔ تمام دوستوں کی مکالمہ کے ساتھ محبت ایسے رہی جیسے کسی ماں کا اپنے بچے کو پیدائش کے بعد سرد وگرم سے بچانا تھا۔ قافلہ جب چلا تو بہت سے پیارے دوستوں کو ان کی مجبوریوں یا ذاتی مصروفیات جیسی وجوہات پہ الوداع بھی کہنا پڑا لیکن نشان منزل پہ نظر رکھ کے، مکالمہ کی محبت سے نہال، ہم بغیر رکے چلتے رہے ۔

آغاز میں مکالمہ کا فیس بک گروپ سنبھالنے کے لیے بھی کافی سخت اقدامات کرنے پڑے کہ ہمارے ہر گروپ میں بعض مولوی حضرات کی تبلیغ نے ایک بار تو ہمیں بوکھلا کر رکھ دیا مگر پھر سمجھ میں آیا کہ یہ مبینہ تبلیغی سلسلسہ آج کل ہر سائٹ اور ہر گروپ پہ چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اس کی آڑ میں مسلکی اور فروعی اختلافات کو ہوا بھی دی جاتی ہے۔ چنانچہ باوجود اسلام سے محبت رکھنے، خود کو خدا کے سامنے جوابدہ سمجھتے ہوئے، منافرت کے اس بڑھتے ہوئے سلسلے کو روکنے کے لیے فوری طور پر ایک ایڈمن پینل تشکیل دیا گیا جس نے انتہائی بصیرت کے ساتھ پورے گروپ میں محبت کے ساتھ مکالمہ کی مہم کو مزید آگے پہنچایا۔ہم سب کے موسیو نے جہاندیدہ نظر سے گروپ کے آپسی مسائل کو حل کیا اور ایک خاندان کے بزرگ کی حیثیت سے سب کے لیے ہمیشہ شفقت کے شجر سایہ دار کا کردار نبھایا۔

ہوئے کچھ دوست مہرباں
ہوئے کچھ دشمن جاں
مکالمہ کے سو دن کیسے پورے ہو گئے، پتہ بھی نہیں چلا۔ اس محبت بھرے کارواں کی کامیابی کا راز وہ لوگ ہیں جو اپنی انتہائی مصروفایت کے باوجود اپنے قیمتی وقت کا گراں قدر حصہ مکالمہ کی نذر کرتے رہے۔ اس دوران ویب سائٹ ڈویلپرز کے ایشو نے ہموار چلتی گاڑی کو گویا بریک لگا دی۔ ایسے میں محمود فیاض بھائی کی حوصلہ افزائی اور مشوروں نے ہمیں سنبھلنے میں مدد دی۔ سائٹ کی نئی لُک اور آؤٹ لُک کے بعد اسے سمجھنے اور سمجھانے کے دور سے نکلے تو احساس ہوا جو بچہ ابھی پسندیدگی کی منازل طے کر رہا ہے، اس کی ملاقات سب مہربان رشتوں سے کرانے کا وقت آ پہنچا ہے۔

اپنی ایک تحریر “فن پاروں کے سفر” میں، میں نے عرض کیا تھا کہ دور جدید میں قلم کاروں کے فن کی قیمت لگ رہی ہے جو ایک افسوسناک رویہ ہے۔ اس لیے کہ فن بیچنے کے لیے نہیں، سراہنے کے لیے ہوتا ہے۔ آپ فن کو سراہتے ہوئے اسے اپنی چاہت کا نذرانہ پیش کر سکتے ہیں لیکن فنکار کو خریدنا جرم ہے۔ معاشرے کی اصلاح کی ذمہ داری جن کے شانوں پر ہے، اگر وہی بک جائیں تو کیا ہوگا؟ اور جو کچھ فی الوقت ہو رہا ہے، بدتر ہو جائے گا۔

مکالمہ اسی سوچ کو بدلنے کے لیے نئے لکھاریوں کو ایک پلیٹ فارم دے رہا ہے۔ وہ لوگ جو سوچ رکھتے ہیں، وہ لوگ جو فکر کرتے ہیں اور اصلاح کی نیت سے اپنے قلم کو آزاد رکھتے ہوئے مکالمہ کو سجا رہے ہیں، ان سب لکھنے والوں کو سلام۔

مکالمہ کے سو دن الجھتے، سنورتے، ہنستے، جھگڑتے گزرے لیکن Blessing in Disguise کے مصداق ایک منفرد ٹیم ضرور تشکیل دے گئے ہیں، جس میں پڑھنے والوں کا رشتہ، لکھنے والوں سے، ایک خاندان کی طرح قائم ہے۔ ایسا بہت کم اداروں میں دیکھا جاتا ہے کہ چیف ایڈیٹر عام لوگوں سے مشورہ کر تے ہوئے نئے قدم اٹھائے لیکن مکالمہ نے یہ روایت بھی قائم کی اور ہم دعاگو ہیں کہ یہ روایت سدا قائم رہے۔

سو دوستو، جشن کی تیاریاں عروج پر ہیں، سو دن پورے ہونے کے ساتھ ساتھ سب ساتھیوں کے ملنے کی بے تابی نے دن گزارنا مشکل کر دیا ہے۔ اعلان ہوا کہ 17 دسمبر کو یہ تقریب منعقد ہوگی تو بقول محمود بھائی ایسا لگتا ہے کہ جیسے پرانے زمانے میں شادیوں سے بہت پہلے ایک پنڈال سج جاتا تھا، بزرگوں کے مشورے ہوتے اور تبادلہ رائے سے اس تقریب کو یادگار بنانے کی ترکیبیں سوچی جاتیں ۔ ایسے میں مکالمہ ٹیم کا ایک ایک فرد جس محنت اور لگن سے اپنے فرائض کی ادائیگی کے ساتھ دوسروں کی مشکلات کو بھی حل کرنے میں لگا ہے، وہ میرے جیسے طالبعلم کے لیے قابل فخر ہے کہ میں بھی اس ٹیم کا ایک حصہ ہوں۔

شادیوں کے مواقع پر ناراض رشتہ داروں کو منانے سے لے کر نئی لڑائیوں کے نہ پنپنے کی مستعمل دعاؤں کے ساتھ آپ سب کا شکریہ جو مکالمہ سائٹ،گروپس اور پیجز پر اس کارواں کے ہم قدم ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ “مکالمہ روبرو” میں آدھی ملاقاتیں پوری ہونے پر یقینا آپ بھی اسی مسرت و انبساط کے احساس کو پا لیں گے، جس کے لیے ہم سب اس وقت کاوشوں میں مصروف ہیں۔ اس پوری ملاقات کے دوران، آپ ان سے ملیں گے جن کو پڑھ کے آپ نے اپنے اذہان میں محبت کے بت تراشے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آئیے مل کر اس محفل کو خوبصورت بنائیں، یادگار بنائیں۔
رہیں قلم یہ سلامت
سفر حق کا جاری رہے
کہ طلوعِ صبح کا اذن ہے
مکالمہ میرا، مکالمہ تیرا !!

Facebook Comments

عائشہ اذان
سچ سے سوچ کے خوابوں کو قلمبند کرنے کی خواہش میں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply