• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • اقدامِ امام حسین ، موجودہ بغاوتیں اور ہمارے دانش ور۔۔۔ ڈاکٹر شہباز منج

اقدامِ امام حسین ، موجودہ بغاوتیں اور ہمارے دانش ور۔۔۔ ڈاکٹر شہباز منج

حسبِ معمول محرم کے ان دنوں میں واقعۂ کربلا اورامام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کے اقدام پر ، اہل علم میں بحث جاری ہے۔مسلمانوں کا (سنی ہوں یا شیعہ ) روایتی اور عمومی موقف اس بارے میں یہی رہا ہے کہ امام صاحب کا اقدام یزیدی ظلم و جبر کے خلاف ایک آئیڈیل شرعی اقدام تھا؛ آپ رضی اللہ عنہ نے یزید کی بیعت نہ کر کے ، ظلم و جبر کے مقابل کھڑے ہو کر،اپنی اور اپنے اہلِ خانہ اور معصوم بچوں تک کی جانیں قربان کر کے ظلم و جبر اور فسق و فجور کے خلاف آواز اٹھانے کو دینِ محمدی ﷺ اور اس کے حقیقی حاملین کی علامت باور کرایا۔البتہ کچھ لوگوں نے اسے خروج ، حصول ِ اقتدار کی کوشش ،امام کی خطا یا اجتہادی خطا سے تعبیر کیا۔ موخر الذکر قبیل کے نقطۂ ہائے نظر کو مسلمانوں میں عام طور پر کبھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا گیا۔اہلِ تسنن کے یہاں واقعۂ کربلا اور شہادتِ حسین کو دیکھنے کا زاویہ بلاشبہ اہل تشیع سے مختلف ہے، ان کے نزدیک اہلِ تشیع اس ضمن میں غلو کا شکار ہوئے ہیں، لیکن اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ بایں ہمہ وہ عمومی طور پرشہادتِ حسین کو دینِ اسلام کے لیے ایک بڑی قربانی کی حیثیت سے دیکھتے آ رہے ہیں؛ان کے نزدیک شہادت ِ حسین اور اس سے متعلق واقعات کا استخفاف ناصبیت کی نامحمود کاوش ہے۔راقم الحروف عام اہلِ سنت کے اس موقف کو درست سمجھتا ہے، اور موخر الذکر آرا کو ناصبیت یا اس کا شاخسانہ۔

موجودہ دور میں دہشت گردی ، ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ کے تناظر میں بعض اہل ِ فکر امام حسین کے اقدام کو اس زوایے سے دیکھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اگر اس کو درست اور شرع کا مطلوب اقدام قرار دیا جائے، تو ان عسکریت پسند گروہوں کو اس سے تایید فراہم ہو گی۔لیکن یہ محض ایک بے محل اور غلط اندیشہ ہے، جس کے حوالے سے کچھ گزارشات پیشِ خدمت ہیں:

مذکورہ نوعیت کے عسکریوں گروہوں کے طریق میں کوئی مماثلت جناب امام کے طرزِ عمل سے ہے اور نہ ان کے مقابل امام کے مقابل سے مماثل ہیں۔امام کا اقدام مذکورہ انواع کے عسکری گروہوں کے اقدامات سے اپنی نوعیت میں یک سر مختلف ہے۔امام صاحب کا اقدام حکومتِ وقت کے خلاف مسلح تصادم کی نوعیت کا ہر گز نہیں تھا۔تاریخ کی کوئی شہادت ایسی نہیں ، جس سے ثابت ہو سکے کہ آپ یزید یا اس کے کسی عامل سے جنگ کرنے نکلے تھے۔آپ کا جنگ کا ارداہ ہوتا تو یقیناً آپ عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے جانے کی بجائے، اپنے حامیوں کے ساتھ تیار ی کے بعد مسلح جتھے کی صورت میں نکلتے۔آپ اہلِ کوفہ کے اصرار پر نکلے ، اور اس بنا پر کہ امت کی ایک بہت بڑی تعداد یزید کے فسق و فجور اور ظلم و جبر کی بنا پر اسے مسلمانوں کا جائز حاکم نہیں سمجھتی اور چاہتی ہے کہ میں اس ذمہ داری کو اٹھاؤں ، تو میرا اس سے گریز شریعت اور نانا کے مشن کی خلاف ورزی ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں پہنچ کر جب آپ نے معاملے کو برعکس دیکھا، اور یزیدیوں کو اپنے اور اپنے اہل وعیال کے درپے آزار پایا، تو تصادم سے گریز کرنا چاہا، مگر ظالموں نے بچ بچاؤ سے متعلق امام کا کوئی آپشن نہ مانا۔ لہٰذامذکورہ مسلح گروہوں کے لیے جواز کے اندیشے کے تحت امام کے اقدام کا استخفاف کسی طرح درست قرار نہیں دیا جا سکتا۔

جہاں تک واقعاتی شواہد کا تعلق ہے ، تو ان کی روشنی میں بھی یہ اندیشہ بے بنیاد قرار پاتا ہے۔ان شواہد میں سے چند یہ ہیں:

1۔آج تک اکابرینِ امت میں اس نوع کے کسی عسکری گروہ کےاقدام کے لیے جناب امام کے اقدام کو تاییدی شاہد نہیں سمجھا گیا۔

2۔امام حسین کے پیروکار ہمیشہ ایسے گروہوں کے مخالف رہے ہیں۔

3۔ایسے گروہ اکثر و بیشترخارجی عقائد کے حامل رہے ہیں، اور خارجی خود حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اہلِ بیت کے دشمن چلے آتے ہیں۔

4۔ایسے گروہ خود اپنے لیے امام حسین کو اسوہ کم ہی سمجھتے ہیں۔

5۔اگر موجودہ نوعیت کی بغاوتوں کے لیے اسوۂ حسین سے استدلال ہو سکتا تو چلو اہلِ سنت نہ سہی ، اہلِ تشیع تو ایسا عام کر رہے ہوتے، اور جہاں جہاں وہ اقلیت میں ہیں ، سنیوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہوتے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ سنی ہی نہیں شیعہ بھی ایسے اقدامات کے روادار نہیں، بلکہ ایسے اقدامات کی انھی گروہوں کی جانب سے سب سے زیادہ مخالفت ہوتی ہے۔

پھر اگر تفہیم کی خاطر فرض کرلیں کہ امام کا اقدام مسلح تصادم ہی تھا، تو بھی اس کا یہ مطلب کہاں سے نکلتا ہے کہ جو گروہ جب چاہیے، جس مرضی حکمران کے خلاف ہتھیار اٹھا لے اور اپنی تایید میں امام حسین کے اسوے کو پیش کرنا شروع کر دے۔کیا امت اور اس کے علما ، محققین اور اہلِ دانش کے لیے یہ جاننا مشکل ہے کہ کس کا کون سا اقدام کس کے خلاف اس زمرے میں آتا ہے اور کون سا نہیں!واللہ اگر ٹی ٹی پی اور داعش وغیرہ سے متعلق یہ وہم بھی ہو سکتا کہ ان کے اقدامات لیے اس عظیم اسوے میں کوئی تاییدی مسالہ ہے، تو امت کا سوادِ اعظم انھیں یوں رد نہ کر چکا ہوتا۔ ایسے اقدامات کے لیے اس اسوے سے دلیل تبھی لائی جا سکتی ہے، اور کسی بھی زمانے میں تبھی لائی جا سکے گی ، جب یہ ثابت کر دیا جائے کہ اٹھنے والا گروہ امام کے طرزِ فکر و عمل سے حقیقی تمسک رکھتا ہے ،اور جس کے خلاف اٹھ رہا ہے وہ یزید کا خوشہ چیں ہے، اور اہلِ نظر جانتے ہیں کہ امت کو یہ باور کرانا آسان نہیں، اگر اتنا ہی آسان ہوتا، تو اس طرح کے عسکری گروہ امت سے حسین کی محبت کو اپنے لیے کیش کرا چکے ہوتے۔

اب ذرا واقعۂ کربلا اور شہادتِ حسین سے متعلق اپنے دانش وروں کی حالیہ استخفافانہ تحریروں پر مختصر تبصرے:

ایک تحریر برادرم عمار ناصر صاحب کی ہے ، جس میں آپ نے قراردیا ہے کہ جناب امام رضی اللہ عنہ کا اقدام “گنجایش” کی قبیل سے ہے۔ اس پر مجھے عمار بھائی سے بس ایک گزارش ہے کرنا ہے، اور وہ یہ کہ آپ تو اتنے کھلے ذہن والے ہیں؛ آپ کی فقہ میں بہت توسع ہے، تو امام صاحب کے لیے اتنی تنگ دامانی کیوں؟ میرے بھائی! گنجایش تو ہم “استاذ امام” کے تمام اقوال و اقدامات کی شرع سے بآسانی نکال سکتے ہیں، کیا امام عالی مقام کے لیے بھی بس ایسی ہی “گنجایش” کافی ہے! امام صاحب تھوڑا سا حق زیادہ ہی رکھتے ہیں “استاذ امام” سے تو، تھوڑا دل بڑا کر کے، ان کے لیے کچھ بڑی گنجایش نکالنی چاہیے، اگر برا نہ مانیں تو!

ایک سلفی اہل ِ علم نے بعض ناصبیت زدہ کتابوں کے حوالے سے مشورہ دیا ہے کہ ان میں گویاتحقیق کے دریا بہائے گئے ہیں ، اور واقعہ کربلا کو ایک نئے انداز سے بیان کرنے کی قابل داد و تحسین کوشش کی گئی ہے۔ ان کا مشورہ یہ بھی ہے کہ واقعۂ کربلا سے متعلق نئی تحقیقات کو غیر جانبداری سے اور غیر جذباتی انداز سے دیکھنا چاہیے۔ اب ایسے لوگوں کی خدمت میں کیا عرض کیا جائے ، جو نواسۂ رسول کی ظالمانہ شہادت پر اسے تو غیر جذباتی انداز سے دیکھنے کا مشورہ دیتے ہیں ، اور خود اپنے ایک ایک جملے اور فرمان کے بارے میں اتنے جذباتی ہیں کہ اس سے اختلاف یا اس کی تردید کو اپنے حق میں واقعۂ کربلا سے بڑا ظلم سمجھتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان “غیر جذباتی” لوگوں سے میری بس اتنی گزارش ہے کہ میں تمھارے جذبات سے واقفیت چاہتا ہوں اس صورتِ حال پر کہ تمھارا نواسہ اپنے سارے خانودے سمیت سرِ صحرا پیاسا مارا گیا ہے اور میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ جناب معاملے کو ذرا معروضی انداز سے دیکھیں، ممکن ہے موصوف سے کوئی اجتہادی خطا ہو گئی ہو، نئی نئی تحقیقات آ رہی ہیں ، انتظار کریں ، وہ آپ کے زخموں کو بھر دیں گی، آپ کو باور کرادیں گی کہ ذرا سی بات تھی جسے اندیشۂ عجم نے جسے یونہی زیب داستاں کے لیے بڑھا دیا ہوا ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply