کینیڈا کی لڑکیاں۔۔۔۔۔اوں ہوں

کینیڈا کی لڑکیاں۔۔۔۔۔۔اوں ہوں
احمد رضوان
اگر آپ عنوان دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جس طرح خط کا مضمون بھانپ لیتے ہیں لفافہ دیکھ کر، تو آپ کی یہ غلط فہمی ہم یہیں دور کیے دیتے ہیں کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے جسے پڑھ کر آپ کے جذبات بر انگیختہ ہونے کا کوئی چانس ہو ۔ نہ تو ہمارا ارادہ کینیڈا کی لڑکیوں کی بود وباش ،عادات و اطوار یا ناز وانداز کے بارے کچھ بیان کرنے کا ہے اور نہ ہی ان کی پروفائل پر روشنی ڈالنے کا ،کہ لڑکیاں ساری دنیا میں ایک ہی میک اور ماڈل کی ہوتی ہیں بس رنگت فرق ڈال دیتی ہے ۔مزید بر آں اس طرح کے کام اور کلام کرنے والوں کے بارے میں ہر کلچر اور زبان میں بہت برا لفظ استعمال کیا جاتا ہے اورویسے بھی جب سے کینیڈین ڈیٹنگ ویب سائٹ ایشلی میڈیسن ہیک ہوئی ہے اور خفیہ پروفائل سامنے آنا شروع ہوئے ہیں سب کو اپنی اپنی فکر لگی ہوئی ہے۔ اس لئے ہم اصل موضوع کی طرف آتے ہیں کہ وجہ تسمیہ اس عنوان کی ’’روبینہ فیصل‘‘کی کتاب ’’خواب سے لپٹی کہانیاں‘‘ کا ایک افسانہ ہے جس پر ہمیں اظہارِ خیال کرنے کی دعوت دی گئی ۔کچھ تو تقریب بہر ملاقات چاہیے کی طرح موقع تھا انکی کتاب کے مکرر تقریب اجراء کا جو ان سب احباب کی پرزور فرمائش پر منعقد کی گئی جو مئی میں ہونے والی افتتاحی تقریب میں شرکت نہ کرسکے تھے اور متمنی تھے کہ ایک بار مزید اکٹھے ہوا جائے ۔
تقریب کی انتظامیہ نے ایک انقلابی قدم یہ اٹھایا کہ روایتی بک لانچ کی بجائے اسے ساری فیمیلی کے لئے ایک ایونٹ کی شکل دے دی جس میں سب کی دلچسپی کے لئے کچھ نہ کچھ رکھا گیا۔ روبینہ فیصل کے ایک افسانے کو منتخب کرکے ایک سٹیج ڈرامہ پرفارم کیا گیا ۔حلال بیوی کےنام سے جس میں ایک چھوٹا سا کردار میرے بیٹے عمر نے بھی ادا کیا اورخوب داد سمیٹی ۔ وہیں دو سیشن ہوئے ’’روبرو‘‘ کے نام سے ،جس میں مصنفہ کے افسانے کا مرکزی خیال پیش کرکے ان سے سوالات پوچھے گئے اور ان افسانوں سے پسندیدہ پیراگراف پڑھ کر سنائے گئے۔ اسی سلسلہ میں خاکسار نے روبینہ فیصل کے لکھے گئے افسانے ’’کینیڈا کی لڑکیاں‘‘ کا مرکزی خاکہ پیش کیا اور سوالات پوچھے ۔آپ سب کی دلچسپی کے لئے میں اس کا مرکزی خیال یہاں پیش کردیتا ہوں باقی اصل موضوع کے ساتھ انصاف تو روبینہ فیصل نے ہی کیا ہے اور کیا خوب کیا ہے ۔
چھٹی حس جو انسان کی عقلِ سلیم و وجدان کا مظہر ہوتی ہےمگر کچھ عورتوں کے باب میں، میں اسے چھٹی ہوئی حس کہتا ہوں اس پر روبینہ کی کہانیوں کے کئی کردار پورا اترتے ہیں جیسے ’’کینیڈا کی لڑکیاں‘‘ کی مرد مار رخسانہ جس پر لکھا گیا یہ افسانہ کینیڈا میں پیدا ہوکر پروان چڑھنے والی نئی نسل اور ان کی اپنے ہجرت کرکے آنے والے والدین کے خیالات اور معاشرتی و ثقافتی تفرقات کو بیان کرتا ہے ۔رخسانہ کینیڈا میں رہ کر بھی اپنے فرسودہ اور دقیانوس خیالات اپنی اولاد اور رشتہ داروں پر تھوپنا اپنا فرض منصبی سمجھتی ہے ۔اسے اپنی اولاد بالغ تو نظر آتی ہے مگر بالغ نظر نہیں، اور وہ اپنی واجبی تعلیم کو سب کے لئے واجب التعظیم گردان کر اپنے مصنوعی رعب داب اور اونچی آواز سے سب کی دلیلوں کو بودا ثابت کردیتی ہے ۔
کہانی کچھ یوں ہے کہ کٹی پارٹی میں اکٹھی ہوئی خواتین دن میں کسی کے گھر پوٹ لک کرکے اپنا وقت بتاتی ہیں اور سارے جہاں کا درد کا ہمارے جگر میں ہے کی تفسیر بنے ادھر ادھر کی باتوں سے ٹائم پاس کرتی ہیں ۔ رخسانہ ایک سخت گیر ماں ہے جس نے اپنی جوان اولاد کو اپنے کنٹرول میں رکھنے کے لئے ہر جائز اور ناجائز طریقہ سے ان کے اوپر حکم چلانا اپنا حق سمجھا ہوا ہے ۔مگر جب اس کی اپنی نند کسی غیر مذہب سے شادی کرلیتی ہے تو اس کا غصہ عروج پر پہنچ جاتا ہے اور وہ یہاں پر جوان ہوئی نسل کو بد اخلاق اور اپنی روایات سے باغی جانتے ہوئے انہیں برا سمجھتی ہے اور اپنے بیٹے کا نکاح فون پر اپنی بہن کی بیٹی سے پاکستان میں کردیتی ہے اور اپنی بھانجی اور ہونے والی بہو کے لئے رطب اللسان رہتی ہے کہ وہاں کی تربیت اور تعلیم کا تو جواب ہی نہیں ،مگر صدمہ تو تب اٹھانا پڑتا ہے جب وہی لاڈلی بھانجی جو بہو بن کر آرہی تھی ائرپورٹ سے ہی کسی اور کے ساتھ چلی جاتی ہےاور اسائیلم کلیم داخل کر دیتی ہے کہ وہ اس جبری شادی پر رضامند نہیں تھی اور اس نے یہ سارا کھکھیڑ یہاں آکر اپنے محبوب کےبلانے کے لئےکیا ہوتا ہے تاکہ اسے بھی کینیڈا سیٹل کرواسکے تو رخسانہ کو بہت خفت اٹھانا پڑتی ہے اوروہ کسی کو منہ دکھانے لائق نہیں رہتی ۔
اپنےاس ناکام تجربے کی بنیاد پر وہ اپنی بیٹی کے لئے یہیں سے لڑکاڈھونڈنے کے لئے بات چلاتی ہے تو لڑکے والے اسے وہی جواب دیتے ہیں جو وہ دوسروں کی بیٹیوں کے متعلق کہا کرتی تھی کہ یہاں کی پروردہ کبھی اچھی بیوی اور ماں نہیں بن سکتیں ۔ اس طرح جو بات وہ ساری زندگی دوسروں کی اولاد کے بارے کہتی سوچتی رہی وہی اپنی اولاد کے لئے ایک سوالیہ نشان بن کر سامنے آگئی۔افسانہ ان تمام پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی کماحقہ کوشش کرتا نظر آتا ہے جو اپنا گھر بار ،دوست یار چھوڑ کر پردیس میں آبسنے والے تمام والدین کے دل میں ہر وقت جاگزیں رہتا ہے کہ جس اولاد کی خاطر سارا دکھ جھیلا ،اگر وہی اولاد آپ کی بات سننے سے انکاری ہوجائے تو والدین کے دل پر کیا بیتتی ہے ۔وہیں دوسری طرف نئی نسل یہ سوچتی ہے کہ ہمیں ہماری مرضی سے جینے کا حق اس ملک کا قانون دیتا ہے تو ہم کیوں نہ پھر زندگی اپنی مرضی سے جئیں اوراپنی پسند کے جیون ساتھی کا انتخاب کریں ۔سوچ ملنی چاہئے ،کمر کے لوچ کا کیا ہے وہ تو شادی کے بعد سب لڑکیوں کی ایک جیسی ہی ہو جاتی ہے کمرہ نما۔
پس نوشت: روبینہ فیصل صاحبہ نے کمال مہربانی کرتے ہوئے اپنے افسانےمکالمہ پر ایکسکلوسو چھاپنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے جس پر ٹیم مکالمہ اور یہ خاکسار ان کا تہہ دل سے ممنون و مشکور ہے ۔امید ہے بہت جلد قارئین ان کے لکھے ہوئے خوبصورت افسانوں سے لطف اندوز ہو سکیں گے ۔

Facebook Comments

احمد رضوان
تیشے بغیر مر نہ سکا کوہکن اسد سرگشتہ خمار رسوم قیود تھا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply