”میرے بابا نے مُجھے بتایاکہ مَیں کیا ہوں، کتنی حسِین ہوں، کِتنی دِل کَش ہوں۔ اُس نے میری تربیت کی ہے۔“
اُس کی ماں کو اُس کے باپ نے، اُس کی کم سِنی میں چھوڑ دیا تھا۔ ماں کی دوسری شادی کر دی گئی۔ وہ ننھیال میں مامُوں کے یہاں پَلی، لیکن ماں کا سایہ سَر پہ رہا، کیوں کِہ سوتیلا باپ کمائی کی غرض سے مشرقِ وُسطیٰ میں تھا، تواُس کی ماں اپنے بھائیوں کے یہاں رہی۔ اُسے ہمیشہ یہ بتایا گیاکہ وہ عام شکل صُورت کی مالک ہے، اور وہ یہی سمجھتی رہی۔ وہ بارہ تیرہ برس کی تھی یا اِس سے کچھ اوپر، سہارے کی تلاش میں کسی کو چاہنے لگی۔ یوں پہلی بار جِنسی تعلُق کے کچے پکے ذائقے سے آشنا ہوئی۔
وہ مُجھے ٹرین میں ملی تھی۔ ریل کے راستے سفر کرنا مُجھے پسند ہے، لیکن ہَم سفروں سے بات چیت کرنے سے اجتناب برتتا ہوں۔ کوشش ہوتی ہے کِہ ٹرین چلتے ہی کتاب کھول کے بیٹھ جاؤں، یا کھڑکی کے قریب نِشَست ہو، تو باہر دوڑتے بھاگتے مَناظِر میں جِی لگا لیتا ہوں۔ اِس لیے کِہ اِرد گِرد بیٹھے مُسافِروں کے بے تُکے سوال جواب کے سیشن سے جان چھُڑائی جا سکے۔ یہ نہیں کِہ میں مردُم بیزار ہوں، لیکن مُجھے چھُوٹتے ہی ذاتی نوعیت کے سوالات کیے جانے سے چِڑ ہوتی ہے۔ ہمارے یہاں کا چلن یہ ہے، کِہ کسی کا نام بھی نہیں پُوچھا جاتا اور پہلا سوال یوں کرتے ہیں:
”آپ کیا کرتے ہیں؟“
طبیعت پہ جبر کر کے کہا جائے کِہ:
”مَیں لکھتا ہوں۔“
تو اگلا سوال داغ دیا جاتا ہے:
”اِس سے آپ کا گُزارا ہو جاتا ہے؟ کتنے پیسے کما لیتے ہیں؟“
مُطالعے کے بہت سے فوائد ہیں۔ اِن میں ایک یہ ہے، کِہ آپ ہَم سفروں کے مُہمَل سوالوں سے بچ جاتے ہیں۔
میرا تَجرِبہ ہے کِہ ٹرین کی”اَپر کلاس“ میں آپ کو زیادہ کہانیاں نہیں ملتیں، جیسا کِہ ”اِکانومی کلاس“ کے ڈَبے میں بکھری دِکھائی دیتی ہیں۔ سفر کِرداروں سے مِلاتے ہیں۔ اِس کہانی کے اِس کردار سے اَپر کلاس کے ”کُوپے“ میں ملاقات ہوئی۔
تحریر دِل چسپ تھی، لیکن مَدھم روشنی کی وجہ سے کتاب کے صفحوں پر مسلسل نظریں ٹِکانے سے میری آنکھیں دَرد کرنے لگی تھیں۔کتاب ایک طرف رکھ کے باہر دیکھا، گھُپ اندھیرا تھا۔ ٹرین کی چھَکا چھَک واضح سنائی دے رہی تھی، جو کتاب پڑھتے کہیں گُم تھی۔ مُجھے بند کھِڑکی کے شیشے میں اُس کا عَکس دِکھائی دیا۔ وہ سامنے کی نِشَست کی پُشت سے ٹیک لگائے، آنکھیں مُوندے بیٹھی تھی۔ مَیں نے گردن گھُما کے اُسے دیکھا۔ اُس کے ہونٹ پتلے تھے، نہ موٹے؛ ناک سُتواں جو اِس خطے کے باشندوں کی کَم کَم ہوتی ہے۔ گال بھرے بھرے، ٹھوڑی نازُک لیکن گوشت سے بھری۔ رَنگت صاف تھی۔ پپوٹوں سے ظاہر تھا، کِہ آنکھیں بہت بڑی نہیں ہیں۔ انھی لمحات میں اُس نے آنکھیں کھول دِیں۔ جیسے پپوٹوں کے پیچھے سے محسُوس کر لیا ہو، کِہ کوئی اُسے دیکھ رہا ہے۔ اُس کی بھُوری آنکھیں لمبائی میں عام سی تھیں، لیکن گہرائی میں اتنی زیادہ، جس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کِہ کتنی گہری ہیں، لیکن ڈوبنے کا اندیشہ بہَر حال ہوتا ہے۔
اُس کی عمر یہی کوئی تیس بتیس سال رہی ہو گی۔ کُوپے میں ہَم چار ہی تھے، دو مرد اوپر کی بَرتھ پر سو رہے تھے۔ اُن میں سے ایک اُس لڑکی کے ساتھ تھا۔ یہ مُجھے اِس لیے معلُوم ہے، کِہ وہ سفر کے آغاز میں، اُس نازنِین کے پہلو میں بیٹھا تھا۔ شاید کوئی عزیز ہو۔ موٹی سی توند والے اُس شخص کے دھیمے دھیمے خراٹے، رُک رُک کے سُنائی دیتے تھے۔ مَیں نے کلائی گھڑی دیکھی، رات کے گیارہ سے کچھ زائد کا عمل تھا۔
”آپ شاید سونا چاہتی ہیں، اور لائٹ؟“
مَیں نے اپنی خَجالت مِٹانے کے لیے کَہہ دیا۔ اُس کے لَب ہی نہیں آنکھیں بھی مُسکرائیں، جیسے وہ مُجھے بَرسوں سے جانتی ہو۔
”نہیں! لائٹ بند ہوئی تو میرے لیے یہاں بیٹھنا مُشکل ہو گا۔ مُجھے اندھیرے سے خوف آتا ہے۔“ مَیں کچھ کہتا، وہ اِس سے پہلے پُوچھ بیٹھی۔ ”آپ لکھتے ہیں، ناں؟“
کسی کا نام پُوچھنے سے پہلے، اُس کے پروفیشن کے بارے میں سوال کرنا، یہ پہلی بار تھا، کِہ مُجھے معیُوب نہیں لگا۔
”آپ کو کیسے پَتا؟“ مُجھے خُوش گوار حیرت ہوئی۔
”مَیں نے آن لائن پیپر میں آپ کی تصویر دیکھ کے پہچانا۔ اچھا لکھتے ہیں، آپ۔“ وہ ٹھہر ٹھہر کے بات کر رہی تھی۔ مَیں مسرور ہوا، جیسے ہر لکھنے والا پہچانے جانے پر ہوتا ہو گا۔ ”کیا آپ میری کہانی لکھیں گے؟“
”آپ کی کہانی؟“ میں نے غیر معمُولی اچنبے کا اظہار کِیا۔
”کیوں؟ کیا پہلے کبھی کسی کی کہانی نہیں لکھی؟“
اُس کے پُر سکُون انداز میں رَتی بھر کمی بیشی نہ ہوئی۔
”لکھی تو ہے، لیکن۔۔۔ لیکن کہانیاں ایسے تھوڑی لکھی جاتی ہیں۔“ مَیں اُسے سمجھا نہ پاتا۔
”تو کیسے لکھی جاتی ہیں؟ آپ تو رائٹر ہیں، آپ کے لیے لِکھنا کیا مُشکل ہے!“
یہ جُملہ میں نے کئی بار سُنا ہے، اور کئی بار سُنتا ہوں، نہ جانے اور کتنی بار سُننا ہو گا۔ ہر بار مُسکرانے کے سِوا، مُجھ سے کوئی جواب نہیں بن پاتا۔ مُمکن ہے کسی روز مُسکرانے کے علاوہ کوئی جواب دے پاؤں۔
”لکھیں گے، آپ؟“
اُس نے ایسے اُمید سے دیکھا، جیسے وہ ہزاروں مِیل پیدل چل کر، مُجھ سے اپنی کہانی لکھوانے ہی آئی ہو۔
کوئی ایک دَم سے ایسا بے تکلُف کیوں کر ہو جاتا ہے۔ ایسا اعتماد کون دیتا ہے! سفر میں کوئی جادُو ہے، کِہ ہَم سفر کھُلتے چلے جاتے ہیں۔ پنجابی اکھان ہے، ”راہ پیہا جانڑے، یا واہ پیہا جانڑے۔“ آپ کسی کے ساتھ لین دَین کریں یا سفر کریں، وہ تبھی پہچانا جاتا ہے۔ سفر میں مُلَمع اُتر جاتا ہے۔ یہ پنجابی اکھان میرا آزمُودہ ہے۔ کئی احباب کے ساتھ سفر کر کے، اُن کے متعلِق اپنی رائے پر نظر ثانی کرنے پر مجبُور ہوا ہوں۔
”کیا کہانی ہے، آپ کی؟“ مُجھے اُس میں دِل چسپی پیدا ہوئی۔
”مُشکل سی ہے۔“ اُس نے ایک لمحے کے لیے پلکیں جھُکائیں۔
”مُشکل سی؟ کیا مطلب؟“
اُس نے نِگاہ اوپر بَرتھ پر ڈالی، جیسے یقین کرلینا چاہتی ہو، کِہ اُس کی آواز سننے والا کوئی اور ذِی ہوش تو نہیں ہے۔ اِس دوران میں مُجھے یہ پُوچھنے کا موقع مل گیا، ”یہ آپ کے۔۔۔؟“
”سَر تاج۔“
اُس نے سوال مُکمل ہونے سے پہلے جواب دیا۔ میرا ردِ عمل ایسا تھا، جیسے یقین نہ آیا ہو۔ وہ میری حیرت زدہ صُورت دیکھ کے لُطف اَندوز ہوئی۔
”سَر کے تاج!“ اُس نے یوں واضِح کِیا، جیسے مذاق کرتی ہو، اور ساتھ ہی اپنی ہنسی کو دبا دیا۔ مَیں بھی مُسکرائے بغیر نہ رہا۔ اُس لڑکی کو پہناوے کا سلیقہ تھا، جب کِہ اُس کا ”سَر تاج“ ظاہر میں اُس طبقے کا لگتا تھا، جنھیں پہننے اوڑھنے کا طریقہ سلیقہ نہیں ہوتا، چاہے جتنے بھی مَتموَل ہوں۔ میرے ذہن میں جھَماکا ہوا۔ ضرور یہ اپنے بے ڈول رِشتے کا ماجرا کہنا چاہتی ہے۔
”اچھا! تو یہ کہانی ہے، آپ کی! آپ کی شادی آپ کے گھر والوں نے پَیسہ دیکھ کے کر دی! ہے ناں؟“
آپ نے دیکھا ہو گا، جب کسی گلوکار کا انٹرویو لیا جا رہا ہو، تو وہ کیمرے کے سامنے کَسمَسا کے بات کرتا ہے، لیکن جُونہی اُسے گانے کے لیے کہا جائے، اُس کا اعتماد دیکھنے لائق ہوتا ہے۔ میرے اندر کا فَسانہ جُو بیدار ہو گیا تھا، اور کہانی کہنے والے کا اعتماد بھی۔
”بہت جلد باز ہیں، آپ۔ بڑی جلدی کرتے ہیں نتیجہ نکالنے میں۔ مَیں نے تو سُنا تھا، کہانیاں لکھنے والے وہ دیکھ لیتے ہیں، جو دوسرے نہیں دیکھ پاتے۔ آپ تو وہی دیکھ رہے ہیں، جو سب دیکھتے ہیں۔“
مُجھے اُس لڑکی کا انداز مسحُور کر گیا۔ ”اچھا! آپ کہیے، میں صرف سُنوں گا۔“
رات طویل تھی، اور ٹرین کی کھَٹا کھَٹ کے علاوہ ہمارے بیچ میں کوئی مُخل نہ تھا۔ اُس نے کہانی کا آغاز کہیں اور سے کیا تھا۔ جو بھی ہو، تھا تو مَیں اجنبی ہی، ایک مُلاقات میں کوئی اپنا دِل کیوں کھول کے رکھ دے گا۔ اُس نے کچھ قِصہ اُس رات سُنایا، کچھ دو تین مہینوں کے بیچ کے وقفوں میں۔
وہ اٹھارہ اُنیس سال کی تھی، جب کوئی اُسے کالج کے گیٹ سے نکلتا دیکھ کر اُس پر فِدا ہو گیا۔ وہاں وہ اپنی کزن سے مِلنے آیا تھا۔ اُس سے رَبط بڑھایا۔ ٹُکڑوں میں سُنی اُس کی ہڈ بیتی طویل ہے، مُختصَر یہ کہ دونوں کے خاندان کی شدید مُخالفت کے با وجُود اُن کی منگنی ہو گئی۔ تقریب میں لڑکی کے خاندان کے کچھ لوگ شریک تھے، مگر عین وقت پر لڑکے کے گھر والوں نے آنے سے انکار کر دیا۔ محبُوب رُخصتی اور نِکاح سے پہلے مُجامعَت کا خواہش مند ہوا۔ نَہ نَہ کی تکرار کام نہ آئی، چاہتے نہ چاہتے جُر م سَر زَد ہو گیا۔ اُس کا کہنا ہے، کِہ وہ محض محبُوب کی خواہش پوری کرتی تھی۔ خُود حَظ نہ اُٹھاتی تھی۔ ایک بار، فقط ایک بار لُطف لیا اور اُس کی سزا یہ مِلی کِہ حمل ٹھہر گیا۔ اَن چاہے نے اپنے ہونے کا اعلان کیا، تو غَیر قانُونی طریقے سے اسقاط کروایا گیا۔ وہ اَتائیوں کے ہتھے چڑھی۔ کیس بِگڑ گیا۔ چار مہینے میں چار بار ڈی این سی کے اذیت ناک مرحلے سے گُزرنا پڑا۔ اِس سانحے کی بھنَک کسی اور کے کان میں نہ پڑی۔
اپنی سی کوشش کے با وجُود، لڑکا گھر والوں کو منانے میں نا کام رہا، تو لڑکی کے اہلِ خانہ نے رِشتہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ لڑکی کے ضمیر پر بوجھ تھا، کِہ مَیں اب کسی اور کے قابِل کہاں رہ گئی ہوں؟! وہ ماں کے سامنے ڈَٹ گئی، کِہ یہیں شادی کرے گی۔ رُخصتی ہوئی۔ اِس مرتبہ بھی لڑکے کے گھر والے شریک نہ تھے۔ لڑکی شادی سے پہلے مُجامعَت کے بھیانک نتائج بھُگت چُکی تھی۔ جِنسی عمل خوف کی صُورت، رَگ و پے میں سرایت کر چکا تھا۔ شادی کے پہلے ہی مہینے، میاں بیوی کے درمیان جھگڑے شروع ہو گئے۔ میکے کس منہ سے جاتی؟ اپنی ایک سہیلی سے اِس مجبُوری کا ذکر کیا، تو وہ اُسے اپنے ایک عزیز کے پاس لے گئی، جو دَم درُود کرتا تھا۔ کیا ہوا کیا نہیں، کیسے ہوا کیسا نہیں ہونا چاہیے تھا، اِس بحث میں کیا پڑنا۔ پِیر کے ہاتھ میں شفا تھی۔ اُس نے اُسے لذت کے مَفہُوم سے آشنا کِیا۔ کہتی ہے کِہ وہ اُن لمحوں میں اُس کے ساتھ بے خُود ہو جاتی تھی۔ وہ نہ ہو تواُس کی تڑپ رہتی تھی، لیکن اب اُن چار مہینوں کی، چارمُلاقاتوں کو یاد کرے، تو اپنے آپ سے گھِن آتی ہے۔
پہلے اُس پِیر نے، اُس کے شوہر سے دوستی کی۔ آئے دِن مُلاقات کرتا رہتا۔ شوہر کو الگ سے کہتا، کِہ یہ عورت تُمھارے قابِل نہیں ہے، اور بیوی کو الگ سے سمجھاتا، کِہ تُمھارے شوہر نے تُم جیسی پری صُورت، فرشتہ سیرت کی قدر نہ کی۔ پِیر کہتا تھا، ”اپنے شوہر سے طلاق لے کر مُجھ سے شادی کر لو۔“ وہ اِس کے لیے تیار بھی تھی۔ اُس کا کہنا تھا، ”مُجھے اپنے شوہر سے نفرت ہونے لگی تھی۔ جس کی خاطر میں نے ہر طرح کا سمجھوتا کِیا، خاندان بھر کی باتیں سُنیں۔ وہ بالکل اس کے بَر عَکس نکلا، جس جس بات کا دعوا کرتا تھا۔“
کہتے ہیں ناں، عِشق اور مُشک چھپائے نہیں چھُپتے۔ ایک روز پِیر کا کیا ٹیکسٹ میسیج اُس کے مجازی خُدا کے ہاتھ لگ گیا، جس میں بے تابی کا اظہار کیا گیا تھا، کِہ۔۔۔۔ اُس ٹیکسٹ میسیج میں، اُن کی قُربت کے، وصال کے لمحوں کا ذِکر تھا۔ شوہر نے لڑکی کی ماں کو بُلا بھیجا، اور اُس کی بیٹی کے کرتُوت بیان کیے۔ ماں دھَک سے رہ گئی، کِہ یہ کیا ہو گیا۔ اُسے ماں کے ہَم راہ کر دیا گیا۔ اِس دوران میں پِیر نے رابطہ کرنے کی کوشش کی، تو لڑکی نے اُسے صاف کَہ دیا، کِہ وہ کسی کو مُنہ دِکھانے کے قابِل نہیں رہے گی، لہاذا اُس کا پیچھا چھوڑ دے۔ پِیر نے پیچھا چھوڑ دیا۔
برسوں کی کہانی سُننے کے لیے وہ رات نہایت مُختصَر تھی۔ پھر کراچی اور راول پنڈی کے درمیان فاصلہ ہی کتنا ہے۔ جُدا ہونے سے پہلے، ہَم آپس میں ٹیلی فون نمبروں کا تبادلہ کر چُکے تھے۔ یُوں ہمارے بیچ میں رابطے کا امکان بنا رہا۔
اُس نے مُجھے پِیر کی تصویر وٹس ایپ کی۔ عجیب بے ڈھب سا آدمی تھا۔ آنکھیں بھینگی سی، کچھ کچھ اُس کے سَرتاج کا سا۔ مَیں نے اِستِفسار کِیا: ”ایسی نازُک اور حسِین عورت اُس پر کیوں کر فدا ہو گئی؟ یہ میری سمجھ سے بالا ہے۔“
”پِیر نے مُجھے تعویذ گھول کے پِلا دِیے تھے۔“
اُس نے کئی دِنوں کی ریاضت کے بعد، شوہر سے رابطہ کر کے، کسی نہ کسی طرح یقین دِلایا: ”میرا پِیر سے جِسمانی تعلُق نہ تھا، ہَم محض بوس و کنار تک ہی پہنچے تھے۔“ اگر چہ یہ جھُوٹ تھا؛ ویسے بھی سچ کی قدر کہاں ہوتی ہے۔ اِس دوران میں لڑکی کا سسُر فوت ہو گیا۔ سانحے دِل پگھلادیتے ہیں۔ شوہر نے اُسے مُعاف کر کے گھر میں جگہ دے دی۔ یوں ایک بار پھر اِزدواجی تعلُق کی گاڑی چلنے لگی۔ بتاتی ہے کِہ بیچ بیچ میں میاں کو دورہ پڑ جاتا تھا۔ وہ کہتا تھا: ”مُجھے جب جب خیال آتا ہے، کِہ تُم پِیر کے ساتھ سوئی ہو، تو یہ مُجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔“
انسانی کردار بھی رَنگ رَنگ ہیں۔ ایک طرف گھر والی کا پِیر سے وقتی لذت کا ناتا پسند نہ آیا تھا، تو دوسری طرف وہ ستم گر، اُسی پِیر کا مُعتقد بنا پھِرتا رہا۔
شادی کے ڈیڑھ سال بعد، اُن کے یہاں لڑکا پیدا ہوا۔ تیسرے سال حمل ٹھیرا، تو خصم نے ضد کر لی کِہ ابارشن کروا لو، مُجھے مزید اولاد نہیں چاہیے۔ وہ لرز گئی، کیوں کِہ ابھی اُسے اسقاط حمل کا پہلا خوف ناک تَجرِبہ نہیں بھُولا تھا۔ اس کے بَہ قول، اِس دوران میں اُس کے ہم سفر کا دِل کسی اور میں جا اَٹکا تھا۔ وہ حصولِ لذت کی غَیر فِطری راہ سے آشنا ہوا، جس کے لیے اُس کی زوجہ راضی نہ ہوتی تھی۔ اب وہ گھر میں کم، اور باہر زیادہ وقت دینے لگا تھا۔ اُن کے بیچ میں لڑائی جھگڑے معمُول ہوئے۔ ایسے میں منکوحہ کو طعنہ بھی دیا جاتا، کِہ وہ کبھی پِیر کے ساتھ مُنہ کالا کر آئی تھی، تبھی وہ کسی اور عورت سے رَبط بڑھا کے اُس کی بے وفائی کا بدلہ لے رہا ہے۔ اُدھر معشُوق نے مُطالبہ کر دیا، کِہ بیوی کو طلاق دو گے، تو میرے پاس آنا۔ دِل رُبا کے سامنے ٹیلی فون کال ملا کر، نکاحی کو کئی کئی بار طلاق دی۔ مطلقہ نے رو دھو کے ماں کو پُکارا۔ وہ ساس کے سامنے مُنکر ہو گیا، کِہ مَیں نے طلاق دی ہی نہیں۔ اکیلے میں اُسے سمجھایا، کِہ تُم حاملہ ہو، میرے کہنے سے طلاق نہیں ہو سکتی۔ الغرض! اِس دوران میں اُن کے یہاں بیٹی نے جنَم لِیا۔ شوہر نے زچہ کو گھر سے نکال دیا۔ اِس لیے کِہ اُس کے ساتھ رہنے سے اُس کی محبُوبہ ناراض ہوتی ہے۔
اِس بار وہ ماں کے گھر نہیں گئی، بَل کِہ بابُل سے رابطہ کیا، جس نے بچپن میں اُسے ماں کے حوالے کر دیا تھا۔ اُس کے والد نے دوسری شادی کر رکھی تھی، اُس میں سے بھی اولاد تھی۔
”اِس سے پہلے، مُجھے اپنے حُسن کا اِدراک نہیں تھا۔ اَب میرے بابا نے بتایا، کِہ مَیں کیا ہوں، کتنی حسِین ہوں، کتنی دِل کَش ہوں۔“
ایک دِن اُس کا باپ نہا کر غُسل خانے سے باہر آیا، تو وہ صحن میں بیٹھی اپنے بچوں کو کھیلا رہی تھی۔ باپ کے بدن سے صرف تَولِیا لِپٹا دیکھ کر اُس کی ایسی ہنسی چھُوٹی، کِہ رُکنے کا نام نہ لِیا۔
”بابا نے خِفَت مِٹانے کو کہا، کیوں ہنستی ہو؟ تُم بھی میرے بدن کا حصہ ہو۔ میرے جیسی ہو۔“
کون سا لمحہ تھا، کون سا پَل، کون سی گھڑی، وہ یہ بتانے سے قاصِر رہی۔ بس وہ ہو گیا، جس کے مُتعلق بات کرتے، وہ رو پڑتی۔ کب اور کیسے حَدیں کراس ہوئیں، وہ یہ صحیح سے بتا نہ پائی۔
”مَیں بچپن سے باپ کے پیار کو ترسی تھی، اَب بابا کے بازو پہ سَر رکھ کے سوتی تھی۔ اُسے چُومتی تھی، وہ مُجھے چُومتا تھا، کیوں کِہ ہَم صدیوں بعد مِلے تھے۔ کہنے کو اسے بَوس و کنار کَہ لو، لیکن تُم نہیں سمجھو گے۔ نہ میں سمجھا پاوں گی۔“
پِدر نے دُختر کو یہ تَربیت دینا شُروع کی، کِہ بستر میں خاوند کا دِل کیسے جیتا جا سکتا ہے۔ مرد کو سیکس کی لذت سے کیسے فیض یاب کرتے ہیں، کِہ وہ کسی دوسری عورت کی طلب نہ کرے۔ بابا یہ سب کُچھ نیک نیتی کے جذبے سے کر رہا تھا، تا کِہ اُس کی شہزادی اپنے گھر سُکھی رہے۔ بابُل کے یہاں اُس کی تربیت جاری تھی، کِہ شوہر نے طلاق کے کاغَذ بھیج دیے۔ بابا نے اسباق دینا نہ چھوڑے۔ تماشا یہ ہوا کِہ وہ اپنے ہی باپ کے بچے کی ماں بننے والی ہو گئی۔ روئی پِیٹی کِہ بچہ ضاءِع نہیں کروں گی، لیکن ایک دفعہ پھر اسقاط حمل کی اذیت سے گُزری۔ اُسے باپ کے رِشتے سے بھی نفرت ہو گئی۔
”تُم مرد بوجھ دینا جانتے ہو، بوجھ اُٹھاتے نہیں۔“
بابُل کے گھر سے نِکلی، تو ماں کے یہاں پناہ لی۔ اب کے دِل کشی پہلے سے سِوا تھی۔ اور یہ اِدراک بھی، کِہ اُس جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ بہت سوں نے اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا، لیکن اُنھیں یہ کَہ کر ٹھُکراتی رہی، کِہ وہ اُس کے لائق نہیں ہیں۔
”مَیں اب اتنی تَربیت یافتہ ہو گئی تھی، بابا نے یہ سِکھا دیا تھا، کِہ کسی کے پیار کے جال میں نہیں پھنسنا۔ مُجھے مَتمَول مرد کی تلاش تھی، آسُودگی کی تَمنا۔ خیال تھا کِہ دولت مند کے یہاں اور کُچھ ہو نہ ہو، آسُودگی تو ہو گی۔“
سوتے میں حلق سے خراٹے لینے والا، پھُولی توند والا شخص، اُس کا آسُودہ حال سَر تاج تھا۔
”پھِر؟ تُمھیں آسُودگی حاصل ہوئی؟“
”آسُودگی کسے کہتے ہیں؟“ اُس نے گویا خُود سے پُوچھا ہو۔
”مُجھے کیا معلُوم۔ تُمھی کہو؟“
اُس لمحے ہَم بستر میں بے لباس لیٹے ہوئے تھے۔ میرے سوال کرنے پر وہ خاصی دیر تک چُپ رہی۔ جب اُس نے کہنے کے لیے لفظ جمع کرلیے، تو گویا ہوئی: ”میرے لیے ایک مُعمہ ہے۔۔۔ مُعمہ یہ کِہ مُجھے نہ پہلے خاوند کے ساتھ ہم بستری کا مزہ یاد ہے۔ نہ اُس کے دیے دَرد کا شِکوہ ہے۔۔۔ نہ بابا سے جسمانی تعلُق رکھنے پہ ندامت باقی ہے۔ پَر کیا ہے کِہ مُجھے وہ پِیر نہیں بھُولتا، جس کی قُربت میں، مَیں اپنے ہوش گنوا بیٹھتی تھی۔۔۔ قسم لے لو، اگر چہ اُس نے مُجھے لذت سے آشنا کِیا، لیکن پھِر بھی مُجھے نفرت ہے، اُس سے۔۔۔ کیا ہے، کِہ مَیں اب وہی شدت ڈُھونڈتی پھرتی ہوں۔ وہ لذت نہیں ملتی جو اُس پِیر کے وصل سے حاصل ہوئی تھی۔ مَیں آج تک کسی اور کے ساتھ اُس اِنتہا پر نہیں پہنچی، جیسے اُس کے ساتھ۔۔۔ تُم بتا سکتے
”مَیں بچپن سے باپ کے پیار کو ترسی تھی، اَب بابا کے بازو پہ سَر رکھ کے سوتی تھی۔ اُسے چُومتی تھی، وہ مُجھے چُومتا تھا، کیوں کِہ ہَم صدیوں بعد مِلے تھے۔ کہنے کو اسے بَوس و کنار کَہ لو، لیکن تُم نہیں سمجھو گے۔ نہ میں سمجھا پاؤں گی۔“
پِدر نے دُختر کو یہ تَربیت دینا شُروع کی، کِہ بستر میں خاوند کا دِل کیسے جیتا جا سکتا ہے۔ مرد کو سیکس کی لذت سے کیسے فیض یاب کرتے ہیں، کِہ وہ کسی دوسری عورت کی طلب نہ کرے۔ بابا یہ سب کُچھ نیک نیتی کے جذبے سے کر رہا تھا، تا کِہ اُس کی شہزادی اپنے گھر سُکھی رہے۔ بابُل کے یہاں اُس کی تربیت جاری تھی، کِہ شوہر نے طلاق کے کاغَذ بھیج دیے۔ بابا نے اسباق دینا نہ چھوڑے۔ تماشا یہ ہوا کِہ وہ اپنے ہی باپ کے بچے کی ماں بننے والی ہو گئی۔ روئی پِیٹی کِہ بچہ ضاءِع نہیں کروں گی، لیکن ایک دفعہ پھر اسقاط حمل کی اذیت سے گُزری۔ اُسے باپ کے رِشتے سے بھی نفرت ہو گئی۔
”تُم مرد بوجھ دینا جانتے ہو، بوجھ اُٹھاتے نہیں۔“
بابُل کے گھر سے نِکلی، تو ماں کے یہاں پناہ لی۔ اب کے دِل کشی پہلے سے سِوا تھی۔ اور یہ اِدراک بھی، کِہ اُس جیسا کوئی اور نہیں ہے۔ بہت سوں نے اُس کی طرف ہاتھ بڑھایا، لیکن اُنھیں یہ کَہ کر ٹھُکراتی رہی، کِہ وہ اُس کے لائق نہیں ہیں۔
”مَیں اب اتنی تَربیت یافتہ ہو گئی تھی، بابا نے یہ سِکھا دیا تھا، کِہ کسی کے پیار کے جال میں نہیں پھنسنا۔ مُجھے مَتمَول مرد کی تلاش تھی، آسُودگی کی تَمنا۔ خیال تھا کِہ دولت مند کے یہاں اور کُچھ ہو نہ ہو، آسُودگی تو ہو گی۔“
سوتے میں حلق سے خراٹے لینے والا، پھُولی توند والا شخص، اُس کا آسُودہ حال سَر تاج تھا۔
”پھِر؟ تُمھیں آسُودگی حاصل ہوئی؟“
”آسُودگی کسے کہتے ہیں؟“ اُس نے گویا خُود سے پُوچھا ہو۔
”مُجھے کیا معلُوم۔ تُمھی کہو؟“
اُس لمحے ہَم بستر میں بے لباس لیٹے ہوئے تھے۔ میرے سوال کرنے پر وہ خاصی دیر تک چُپ رہی۔ جب اُس نے کہنے کے لیے لفظ جمع کرلیے، تو گویا ہوئی: ”میرے لیے ایک مُعمہ ہے۔۔۔ مُعمہ یہ کِہ مُجھے نہ پہلے خاوند کے ساتھ ہم بستری کا مزہ یاد ہے۔ نہ اُس کے دیے دَرد کا شِکوہ ہے۔۔۔ نہ بابا سے جسمانی تعلُق رکھنے پہ ندامت باقی ہے۔ پَر کیا ہے کِہ مُجھے وہ پِیر نہیں بھُولتا، جس کی قُربت میں، مَیں اپنے ہوش گنوا بیٹھتی تھی۔۔۔ قسم لے لو، اگر چہ اُس نے مُجھے لذت سے آشنا کِیا، لیکن پھِر بھی مُجھے نفرت ہے، اُس سے۔۔۔ کیا ہے، کِہ مَیں اب وہی شدت ڈُھونڈتی پھرتی ہوں۔ وہ لذت نہیں ملتی جو اُس پِیر کے وصل سے حاصل ہوئی تھی۔ مَیں آج تک کسی اور کے ساتھ اُس اِنتہا پر نہیں پہنچی، جیسے اُس کے ساتھ۔۔۔ تُم بتا سکتے ہو، کیوں؟“
جب کوئی آپ کو راز دار بنا لے، مشورہ چاہے، سوال کرے، تو بعض اوقات بڑی تکلیف دہ صُورت احوال سے گُزرنا پڑتا ہے۔ اُس سمے آپ پر ایک اذیت ناک کیفیت طاری ہو جاتی ہے، جب بے حَد سوچنے پر، بہت چاہتے ہوئے بھی، آپ فقط ایک ”کیوں“ کا جواب نہیں تلاش کر پاتے۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں