ارکان پارلیمان کی تنخواہ کیوں بڑھے؟

ہمارے ایک پرانے شناسا ہیں، نہایت شریف اور ایماندار،نام؟ نام میں کیا رکھا ہے۔ لیکن آسانی کے لیے انھیں فاروقی صاحب کہہ لیجیے- معروف آدمی ہیں اور شہر بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں- وکالت کرتے ہیں، محنتی ہیں اور مہینے میں اوسطاً سوا سے ڈیڑھ لاکھ روپیہ کماتے ہیں- تین بچے ہیں جو مناسب درجے کے پرائیویٹ سکولوں میں زیر تعلیم ہیں- مکان کرائے کا ہے – کرایہ، گاڑی کی قسط، بچوں کی فیس، ماہانہ گھریلو اخراجات ملا جلا کر کوئی ایک لاکھ کا خرچہ ہو جاتا ہے – بقایا آمدن بچت اور ناگہانی اخراجات کے لیے مخصوص ہے- خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں اور اعلیٰ متوسط طبقے میں شمار ہوتے ہیں – عرصے سے نظریاتی طور پر ایک سیاسی جماعت سے ہمدردی رکھتے ہیں اور اس کی سرگرمیوں میں بھی دامے درمے سخنے حصہ لیتے رہتے ہیں-
ملک میں جب انتخابات کی ہلچل مچی تو ان کی سیاسی جماعت کو اس حلقے سے فاروقی صاحب سے بہتر امیدوار نظر نہ آیا اور جماعت کے کارپردازگان نے ان سے انتخاب لڑنے کے لیے رابطہ کر لیا – فاروقی صاحب کے لئیے یہ بات بالکل غیر متوقع تھی، انہیں نے بہتیرا عذر کیا کہ انتخاب لڑنا تو کروڑوں کا خرچ ہے لہٰذا یہ ان کے بس کی بات نہیں- لیکن ان کی جماعت صرف سرمایہ داروں کو ہی ٹکٹ نہیں دیتی تھی بلکہ جہاں کوئی متوسط طبقے کا کارکن عوام میں مقبولیت رکھتا ہو وہاں اسے ٹکٹ دے کر پارٹی فنڈ سے اس کی انتخابی مہم بھی چلاتی تھی – پھر اس جماعت میں مخلص کارکنوں کی بہتات تھی جو جماعت کے حکم پر اپنا خرچہ کر کے امیدوار کی مہم میں مدد کرنے کو تیار رہتے تھے – چنانچہ جماعتی قیادت نے فاروقی صاحب کی ہچکچاہٹ کے باوجود نہ صرف انہیں ٹکٹ دیا بلکہ وہ انتخاب جیت کر اسمبلی کے ممبر بھی بن گئے-
کچھ عرصہ مصروفیات کے باعث فاروقی صاحب سے ملاقات نہ ہو سکی البتہ اسمبلی میں ان کی سرگرمیوں اور قانون سازی کے ضمن میں ان کی محنت کی خبریں ملتی رہیں – کوئی سال بھر کے بعد ایک روز اتفاقیہ ملاقات ہوئی تو کچھ پریشان نظر آئے- پہلے تو ٹالتے رہے لیکن پھر ہمارے کریدنے پر اپنی پریشانی کی وجہ بیان کر ہی ڈالی- معلوم ہوا کہ ممبر اسمبلی بننے کے بعد ان کی وکالت چوپٹ ہو کر رہ گئی ہے- اپنے شہر میں سیاسی اور سرکاری میٹنگوں کے علاوہ اسمبلی کے اجلاس کےلیےانہیں بار بار اسلام آباد جانا اور کئی کئی ہفتے وہاں رہنا پڑتا ہے- نتیجہ یہ نکلا کہ آہستہ آہستہ ان کے مؤکل انہیں چھوڑ کر دوسرے وکیلوں کے پاس جا رہے ہیں کیونکہ وہ یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ جب مقدمے میں پیشی ہو تو پتہ چلے کہ وکیل صاحب تو اسمبلی اجلاس کے لیے اسلام آباد گئے ہوئے ہیں اور نتیجتاً جج صاحب یا تو مقدمہ خارج کر دیں یا لمبی تاریخ دے دیں- کرتے کرتے ان کے پاس چند گنے چنے مقدمات ہی رہ گئے ہیں اور نیا مؤکل کوئی آ نہیں رہا لہٰذا آمدن بہت کم ہو گئی ہے- پھر فاروقی صاحب کو ہر وقت سائلین کا ہجوم گھیرے رکھتا ہے- درجنوں لوگ روزانہ اپنے کاموں کے لئیے ان کے گھر آ موجود ہوتے ہیں اور ان کا اصرار ہوتا ہے کہ صاحب ہم نے آپ کو ووٹ دیا تھا لہٰذا ہمارا کام تو آپ کو کرنا پڑے گا- فاروقی صاحب ان کا کام نہ بھی کر سکیں تو پھر بھی گھر آئے سائل کو کچھ خاطر مدارات کر کے چائے پانی پلا کرتسلی دے کر رخصت کرنا پڑتا ہے-
ہزاروں روپے اس مہمان نوازی پر اٹھ جاتے ہیں- تو صورتحال اب یوں ہے کہ آمدن بہت گھٹ گئی ہے جبکہ اخراجات کئی گنا بڑھ چکے ہیں – اسمبلی کا ممبر ہونے کی جو سرکاری تنخواہ ملتی ہے وہ تو فاروقی صاحب کی پرانی آمدن سے بھی کم ہے- اب تک تو بچت کے پرانے پیسے کام آ رہے تھے لیکن اب وہ جمع جتھا بھی ختم ہونے کو ہے اور فاروقی صاحب پریشان ہیں کہ اب کیا کریں گزر بسر کیسے ہو – تنگ آ کر سوچ رہے ہیں کہ استعفیٰ دے کر واپس آ جائیں-
ساری داستان سن کر پہلے تو ہمیں فاروقی صاحب پر جھنجھلاہٹ ہوئی کہ صاحب آپ کی کنپٹی پر کسی نے پستول رکھ کر زبردستی تو اسمبلی کا ممبر نہیں بنوایا- آپ کو پہلے اندازہ کیوں نہیں تھا کہ آپ کوئی جدی پشتی رئیس تو ہیں نہیں، محنت کر کے کماتے ہیں تو گھر کا خرچ چلتا ہے- جماعت کے اصرار کے باوجود ٹکٹ لینے سے انکار کر دیتے اور اپنی سفید پوشی کا بھرم قائم رکھتے- یہ سیاست تو امیروں کا چونچلہ ہے، آپ جیسے مڈل کلاسئیے کو کیا حق پہنچتا ہے سیاستدان بننے کا- لیکن پھر ہمیں وہ وقت یاد آیا جب ہم فاروقی صاحب کے ساتھ بیٹھ کر ملکی حالات پر گفتگو کرتے اور کڑھا کرتے تھے- ہم یہی نتیجہ نکالتے تھے کہ پاکستان کے مسائل کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہماری سیاست پر امراء قابض ہیں جنہیں عوامی مسائل سے نہ تو واقفیت ہے نہ ان کے حل سے دلچسپی- جب تک متوسط طبقے کے لوگ زیادہ سے زیادہ تعداد میں پارلیمنٹ میں موجود نہیں ہوں گے،تب تک عوام کی حالت بہتر ہونا مشکل ہے- فاروقی صاحب جیسے نظریاتی لوگ اسی آئیڈیلسٹ اور مثالیت پسند سوچ کے زیر اثر سیاست میں آتے ہیں-
یہ روداد ہمارے ذہن میں یوں تازہ ہوئی جب پچھلے ہفتے ممبران پارلیمنٹ کی تنخواہ بڑھا کر ڈیڑھ لاکھ کے قریب کر دی گئی تو اس اقدام پر تنقید کا بازار گرم ہو گیا، اگرچہ یہ تنخواہ بالائی سطح کے سرکاری ملازمین کی نسبت اب بھی کافی کم ہے – کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے ممبران پہلے ہی اتنے امیر ہیں کہ انھیں کسی قسم کی تنخواہ کی ضرورت ہی نہیں- ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ ان ممبران کی ایسی کوئی کارکردگی ہی نہیں کہ ان کی تنخواہ بڑھائی جائے- جہاں تک کارکردگی کا تعلق ہے تو اس کا بہترین فیصلہ تو ووٹر ہی کر سکتے ہیں کہ انھوں نے کسی شخص کو کن امیدوں کے ساتھ منتخب کیا تھا اور وہ ان پر پورا اترا ،یا نہیں- اس کارکردگی میں اسمبلی کی کاروائی کے علاوہ ووٹر کے مسائل کے حل میں مدد بھی شامل ہے- اسمبلی ممبر کے اس’’پرفارمنس ریویو‘‘; کا نتیجہ ووٹ کی صورت میں آئندہ انتخاب میں مل جاتا ہے-
زیادہ عام اعتراض یہی ہے کہ تنخواہ کی ان امیر ممبران کو کیا ضرورت ہے- دیکھا جائے تو کئی ممبران اسمبلی واقعی بہت امیر کبیر لوگ ہیں لیکن تنقید کرنے والے حضرات شائد ہمارے فاروقی صاحب جیسے متوسط طبقے کے صرف رزق حلال پر یقین رکھنے والے ممبران سے واقف نہیں جو اسمبلی میں اکثریت میں نہ سہی لیکن ایک واضح تعداد میں ضرور موجود ہیں اور جن کا انحصار صرف سرکاری تنخواہ پر ہے – جن لوگوں کے کندھوں پر ہم نے ملک و قوم کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کی ذمہ داری ڈالی ہے ان کے اخراجات پورے کرنے کے لئیے ان کے وقت کی ایک مناسب اجرت دینے میں کیا حرج ہے؟ کیا تنخواہیں منصب کی ذمہ داریوں کو مد نظر رکھ کر مقرر نہیں کی جاتیں؟ یہ تو کبھی نہیں کہا جاتا کہ کسی جج یا افسر کو اسی حساب سے تنخواہ ملے گی جیسی اس کی مالی حیثیت ہو گی- یہ بھی نہیں کہا جاتا کہ پولیس یا کسٹم کا ملازم تو لازماً بدعنوانی میں ملوث ہو گا اس لئیے اسے سرکاری خزانے سے تنخواہ دینے کی ضرورت نہیں ہے- ملک بھر میں عدلیہ، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، پولیس، فوج اور بیوروکریسی کے افسران سب کی تنخواہیں ایک مناسب معیار تک بڑھائی گئی ہیں تاکہ وہ دیانت داری سے اپنے فرائض منصبی انجام دے سکیں اور بدعنوانی پر مجبور نہ ہوں- یہی اصول ارکان اسمبلی پر کیوں لاگو نہیں ہوتا؟ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ صرف ملک کے امیر ترین لوگ ہی اسمبلیوں کے ممبر بنیں اور پھر ’’فی سبیل اللہ‘‘ ہماری بہتری کے لئیے کام کرتے رہیں ،یا ہم ان مناصب پر متوسط طبقے کے آگے آنے کا راستہ بھی کھلا رکھنا چاہتے ہیں؟ سیاست کی خرابیوں کو دور کرنے اور اس میں متوسط طبقے کے نفوذ کے اسباب پیدا کرنے کی ضرورت ہے – یہ نہ ہو کہ سستی جذباتیت کے ہاتھوں ہم اقتدار کے ایوانوں پر امراء کے قبضے کو مزید مضبوط بنا دیں اور فاروقی صاحب جیسے ایماندار لوگ استعفیٰ دے کر اپنی سفید پوشی کا بھرم رکھنے پر مجبور ہو جائیں-

Facebook Comments

کامران ریاض اختر
پیشہ: تزویراتی مشاورت ، شغل: جہاں گردی ، شغف: تاریخ عالم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 0 تبصرے برائے تحریر ”ارکان پارلیمان کی تنخواہ کیوں بڑھے؟

Leave a Reply