پاکستان کی پہچان

بیس نومبر اردو ادب کی تاریخ کا اہم سنگ میل ۔۔۔۔۔۔مایہء ناز شخصیات کے حوالے سے خود پر نازاں احمد ندیم قاسمی کا یوم پیدائش ۔۔۔۔۔محترمہ حسینہ معین کی سالگرہ کا دن اور ہمارے شہرہ آفاق قادرالکلام شاعر فیض احمد فیض کا یوم وفات ۔۔۔۔
محترمہ حسینہ معین ادیبہ اور ڈرامہ نگار ۔۔آج کل کالم لکھتی ہیں ۔۔۔۔۔۔پاکستان کی علمی و ادبی تاریخ ہمیشہ ان سب شخصیات کے ذکر کے بغیر ادھوری رہے گی ۔۔۔۔۔
اس طرح غالب و اقبال کے بعد اردو شاعری کوفیض پر بجا طور سے ناز ہے ۔۔۔۔۔ہم سب ہی ان کےعمومی تعارف سے واقف ہیں ۔۔فیض نے دائیں بازو یا بائیں بازو کے ہر لکھاری کے ساتھ ساتھ قاری کو بے حد متاثر کیا ہے ۔۔۔رومانوی شاعری کو بدرجہء اتم تک رنگ و خوشبو کے تمام استعاروں سے مزین کیا مزید ایک حسن آفریں ربط بنایا انقلابی ورژن کو رومانویت کے پردے میں پیش کیا اور اس طور پیش کیا کہ جذب سے نڈھال بندہ سرشار اور مست ہو جاتا ہے اور عشق سے عشق ہو جاتا ہے ۔۔۔
فیض کے ہم عصر، دوست ، رفیق کار ادیب شاعر افسانہ نگار ، اور صحافی کے طور پر احمد ندیم قاسمی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔۔۔یہاں ہی صبح سے چند احباب تعارف پیش کر چکے ہیں ۔۔ مگر کچھ شاعری کا عشق جو ہم کو لاحق ہے ۔۔۔۔کچھ قرض نگاہ یار ہم بھی اتار چلیں۔۔۔۔۔سو ہم فیض کے فیض سے آنکھیں چراتے ہوئے ان دو ادبی طور سے شاندار ورثے کے حامل ادیب و شاعر بالخصوص احمد ندیم قاسمی کے کلام کا جائزہ لیں گے ۔۔۔ فیض نے نظریاتی طور ہر شاعری کو حرز جاں بنا لیا تو قاسمی نے علم و ادب پر متعدد رجحانات کی آبیاری کی ۔۔۔
احمد ندیم قاسمی کا ادبی و تحریری سفر ۔۔مولانا محمد علی جوہر کے دورسے ہی آغاز ہوا تاہم پاکستان بننے کے بعد ایک خانقاہی نظام سے منسلک ہوتے ہوئے بھی ترقی پسند تحریک کے سرخیل رہے ۔۔۔اور یہی ترقی پسند تحریک سے منسلک ہونے کا الزام تھا جو ان کےعلمی و ادبی مقام کو گھٹانے کے لئے استعمال ہوا جب کہ ان کی شخصیت کی مثال ایک سورج سمان رہی ۔۔۔عوام کو ان کے بنیادی حقوق سے آگاہی کا مرض اکثر و بیشتر ادباء وشعراء کوہی رہا کرتا ہے ۔_اور کچھ ایسے بھی صاحب علم و ہنر ہوتے ہیں جو ادب کو اپنا علم بنا لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔فنون محص ایک ادبی جریدہ نہیں بلکہ ایک عہد کا نام ہے وہ عہد جو قاسمی صاحب کے نظم و نثر میں بیک وقت دسترس کا گواہ ہے ۔۔۔۔۔۔شاعری کی تب و تاب کے ساتھ حرف و قلم کا رشتہ بے حد مضبوط اور اور منفردرہا جس میدان میں گئے جھنڈے گاڑ آئے ۔۔۔۔۔افسانہ ہو ۔۔تنقید ہو ۔۔تحقیق ہو ۔۔۔تراجم ہوں یا کالم نگاری ۔۔۔قاسمی صاحب نے اپنا تخیل کمال درجے کی حلاوت کےساتھ پیش کیا ۔۔۔۔۔تہائی صدی تک تین نسلوں کے اذہان متاثر کئے ۔چاچا ہوں یا بابا کی شفقت تلے ۔۔۔۔پروین شاکر ، گلزار ، نوشی گیلانی اور ایسے بے شمار شعراء ادباء ہیں جن کا جوہر قابل قاسمی صاحب کی نظر شناس تربیت نے تراش خراش کے بعد جگمگاتے ہیروں کی صورت پیش کیا ۔۔۔۔یہ تو وہ نام جو میرے ناقص علم و یاداشت کا حصہ ہیں ۔۔بے شمار ادیب و صحافی رنگ قاسمی میں رنگے گئے ۔۔۔۔۔۔۔ حکومت پاکستان نےمتعدد بار ان کی عمی و ادبی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا ۔۔
ان کو نجی و سرکاری سطح پر سر آدم جی ایوارڈ ، پرائڈ آف ہرفارمنس اور ستارہء امتیاز سے نوازا گیا ۔۔۔ملکی ایوارڈذ کے علاوہ بے شمار غیر ملکی اعزازات بھی انکے پاس رہے

احمد ندیم قاسمی کو بہ حیثیت شاعر جاننا۔ ہو تو ان کے کلام کی سندرتا کو محسوس کیجئے ۔۔۔۔خیال کی ندرت ، پیشکش کا اعلی معیار ، زبان کی سلاست ، استعاروں اور کنایوں کے جواہر اور الفاظ کی غنائت نے کلام کو جو محاسن عطا کئے ہیں وہ ہی بہ طور کہنہ مشق صاحب طرز شاعر کے بہ حیثیت استاد کا مقام واضح طور سے بیان کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔پاکستان کی عملی و ادبی تاریخ کو بجا طور پر ناز ہے ۔ ناز آفریں کلام کی مثالیں ۔۔۔۔۔۔پیش خدمت ہیں ۔۔۔۔

گُل تیرا رنگ چُرا لائے ھیں ____ گلزاروں میں
جل رھا ھُوں _بھری برسات کی بوچھاڑوں میں

مجھ سے کترا کے نکل جا ،__مگر اے جانِ جہاں !!
دل کی لَو دیکھ رھا ھُوں __ تیرے رخساروں میں

مجھ کو نفرت سے نہیں __پیار سے مصلُوب کرو
میں بھی شامل ھُوں __محبت کے گنہگاروں میں

چُن لے بازارِ ھُنر سے ____ کوئی بہروپ ندیم
اب تو فنکار بھی شامل ھیں __ اداکاروں میں

مزید یہ کہ

تجھے کھو کر بھی تجھے پاؤں جہاں تک دیکھوں
حسنِ یزداں سے تجھے حسنِ بتاں تک دیکھوں
,
تو نے یوں دیکھا ہے جیسے کبھی دیکھا ہی نہ تھا
میں تو دل میں تیرے قدموں کے نشاں تک دیکھوں
,
صرف اس شوق میں پوچھی ہیں ہزاروں باتیں
میں تیرا حسن تیرے حسنِ بیاں تک دیکھوں
,
میرے ویرانہء جاں میں تیری یادوں کے طفیل
پھول کھلتے ہوئے نظر آتے ہیں جہاں تک دیکھوں
,
وقت نے ذہن میں دھندلادیئے تیرے خدوخال
یوں تو میں توٹتے تاروں کا دھواں تک دیکھوں
,
دل گیا تھا تو یہ آنکھیں بھی کوئی لے جاتا
میں فقط ایک ہی تصویر کہاں تک دیکھوں
,
ایک حقیقت سہی فردوس میں حوروں کا وجود
حسنِ انساں سے نمٹ لوں تو وہاں تک دیکھوں,,,,,,,!!!

متعدد اشعار زبان زد عام رہے اور محاورے کی سند پائی
زندگی شمع کی مانند جلاتا ہوں ندیم
بجھ تو جاوں گا مگر صبح تو کر جاوں گا

مجھ کو نفرت سے نہیں پیار سے مصلوب کرو
میں بھی شامل ہوں محبت کے گناہگاروں میں

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاوں گا
میں تو دریا ہوں ، سمندروں میں اتر جاوں گا

ایک اور پسندیدہ اور منفرد انتخاب
یہ غزل ہے یا حالات کی ممکمل منظر کشی

یہ کیا کہ لمحہء موجود کا ادب نہ کریں
اگر یہ شب ہے تو کیوں لوگ ذکر شب نہ کریں

کہیں وفا سر بازار بک نہ جائے ندیم
تو لوگ محبت بھی بے
سبب نہیں کرتے

اب قاسمی صاحب کی دعائیہ نظم جو ہر خاص
کے دل کی دھڑکن بن چکی ہے ۔
کتنے ہی پاکستانیوں کا خواب اور کتنے ہی خاندانوں کا آدرش ۔اور تو کچھ غرض بھی نہیں تھی تمام تر جدوجہد کا مرکز یہی تو آرزو رہی ۔۔۔۔

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو

یہاں جو پھول کھلے وہ کھِلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو

یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو

گھنی گھٹائیں یہاں ایسی بارشیں برسائیں
کہ پتھروں کو بھی روئیدگی محال نہ ہو

خدا کرے نہ کبھی خم سرِ وقارِ وطن
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو

ہر ایک خود ہو تہذیب و فن کا اوجِ کمال
کوئی ملول نہ ہو کوئی خستہ حال نہ ہو

خدا کرے کہ میرے اک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
احمد ندیم قاسمی

Facebook Comments

حبیبہ طلعت
تجزیہ نگار، نقاد اور لکھاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply