پشتون تحفظ موومنٹ اور حدود کا تعین ۔۔۔۔۔ایمل خٹک

پشتون تحفظ موومنٹ (  پی ٹی ایم ) کو ڈی جی آئی ایس پی آر کی جانب سے دھمکی آمیز بیان کے بعد حدود کے حوالے سے نئی بحث  چھڑ گئی ہے ۔ غیرجانبدار مبصرین کیلئے ایک پرامن جہدوجہد پر یقین رکھنے والی عوامی تحریک کو بلاوجہ حدود نہ کراس کرنے کی دھمکی دینا انتہائی اچھنبے اور حیرانگی کی بات ہے ۔ اس کے علاوہ حدود کے حوالے سے یہ سوال بھی اٹھنے لگا ہے کہ حدود کا تعین کون کریگا، ایک فرد یا ادارہ یا عوام اور اس کی منتخب پارلیمنٹ ۔  بعض مبصرین   کے  نزدیک ایک پیشہ ور قومی ادارے کی نمائندگی پر عوامی تحریکوں کے بارے میں کسی کو ایسے بیانات زیب نہیں دیتے۔ جائز  عوامی مطالبات  کو سننے اور ان کی مشکلات اور تکالیف کی داد رسی کے بجائے دھمکی آمیز بیانات کو بعض مبصرین ایک غیرداشمندانہ فعل اور غیرضروری اشتعال انگیزی قرار دے رہے ہیں ۔

پشتون تحفظ موومنٹ ایک پرامن عوامی تحریک ہے جو پشتون شورش زدہ علاقوں سے ابھر کر آہستہ آہستہ  پوری  پشتون بیلٹ میں پھیل رہی ہے اور پشتون تعلیم یافتہ اور باشعور حلقوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کی ہے ۔ پی ٹی ایم  میں اکثریت پشتون تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ہے ۔ ملک کے سنجیدہ حلقوں کے نزدیک قانونی دائرہ کار میں رہ کر پرامن جہدوجہد کی داعی تحریک پی ٹی ایم کو حدود میں رہنے کی دھمکی قابل افسوس بات ہے اور تحریک کو دیوار سے لگانے کی کوشش ہے ۔ ۔ پی ٹی ایم کو بزور دبانے پر پشتون عوام خاموش نہیں رہے گی۔

 جہاں تک پی ٹی ایم کے ابھرنے اور مقبولیت کا تعلق ہے تو اگر کچھ ریاستی ادارے اپنے آئینی مینڈیٹ کے اندر رہتے ہوئے اور شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا احترام کرتی تو شاید پی ٹی ایم جیسی تحریکیں نہ ابھرتیں  ۔ پی ٹی ایم کے ظہور میں آنے کے بعد کچھ ریاستی اداروں کی بوکھلاہٹ اور بدحواسی بھی پی ٹی ایم کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے ۔ پی ٹی ایم کو دبانے کی کوششوں سے بھی عوام میں اس کیلئے  ہمدردی اور حمایت بڑھ رہی ہے ۔  پی ٹی ایم پر بے سروپا اور بے بنیاد  الزامات بیک فائر  ہورہی ہے ۔ اور اس کے خلاف انتقامی کاروائیوں کو  اندرون ملک اور بیرون ملک شدید تنقید کا سامنا ہے ۔

اعلی فوجی حکام کی جانب سے پی ٹی ایم کے بیانات پر ردعمل اور اس کے بارے میں بیانات پی ٹی ایم کی کامیابی ہے ۔ پی ٹی ایم کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ پی ٹی ایم کو نظرانداز کرنا مشکل ہے ۔  بعض پشتون علاقوں میں پی ٹی ایم کو کاؤنٹر کرنے اور اس کے مقابلے کیلئے کئی   جعلی قسم کی پختون  تحفظ موومنٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی گئی اور ناکام اجتماعات منعقد کئے گئے ۔  پوسٹرز ، اشتہارات اور پمفلٹ چھاپے گئے ۔ مگر عوامی بیداری اور طاقت نے ان تمام شیطانی چالوں کو ناکام بنایا اس طرح ڈس انفارمیشن مہم  بھی ناکامی سے دوچار ہے ۔ اب ریاست طاقت کی زبان استعمال کرنے پر مجبور ہورہی  ہے ۔  دھمکی آمیز بیانات سے ریاستی اداروں کی بدحواسی اور بوکھلاہٹ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

جہاں تک حدود کی بات ہے تو یہ حدود توآئے روز ریاستی ادارے کراس کر رہی ہے جو ماورائے قانون اور عدالتی  اقدامات  کے  ذریعے  پی ٹی ایم کے  حقوق اور انصاف کیلئے کی جانے والی پرامن جہدوجہد کو دبانے کی کوشش کررہی ہے ۔ ان کے خلاف بے بنیاد ایف آئی آر  کاٹی  جارہی  ہیں، گرفتاریاں ہورہی ہیں ۔ کارکنوں کو مختلف طریقوں سے حراساں اور ڈرایا دھمکایا جارہا ہے۔ منظور پشتین کو کراچی جانے سے روکا گیا اور اب ان کی سندھ بدری ، علی وزیر اور محسن داوڑ  کو بیرون ملک جانے سے روکنا اور ملک بھر میں جگہ جگہ پی ٹی ایم کے کارکنوں کی گرفتاریاں اور اجتماعات کو مختلف طریقوں سے روکنے کی کوششیں  بد ترین انتقامی کاروائیاں ہیں۔   کارکنوں کو سب کو معلوم نامعلوم افراد کی جانب سے سنگین نتائج کی دھمکیاں مل رہی ہیں ۔

جنگل کا تو پتہ نہیں مگر انسانی معاشروں میں حدود کا تعین معاشرہ خود کرتا ہے ۔ حدود کا تعین ایک فرد یا ادارے کا کام نہیں بلکہ جمہور ہی اس کا تعین کرتی ہے۔ جمہوری معاشروں میں حدود کا تعین ملک کا آئین اور منتخب پارلیمان مسلمہ بنیادی انسانی حقوق کو مد نظر رکھ کر کرتی ہے ۔  ان حدود میں اہم حقوق یہ ہیں ۔ تمام  انسان آزاد اور حقوق اور عزت کے اعتبار سے برابر ہیں  اور انھیں اپنی جان ، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق حاصل ہے ۔ اور تمام انسانوں کو یہ حقوق بلا رنگ و نسل، زبان، جنس ، مذہب اور عقیدہ حاصل ہیں ۔ کسی بھی انسان کو جسمانی اذیت یا ظالمانہ ، انسانیت سوز یا ذلیل سلوک یا سزا نہیں دی جائیگی ۔ قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہیں ۔ کسی بھی فرد کو بلاوجہ گرفتار، نظربند یا جلاوطن نہیں کیا جاسکتا ۔ مقدمات کی سماعت آزاد اور غیرجانبدار عدالت میں اور کھلے عام منصفانہ انداز میں ہونی چاہیے ۔فرد کو اظہار رائے ، اجتماع کی آزادی ، تقریر کی آزادی اور انجمن سازی کا حق بھی حاصل ہے ۔ اس طرح ھر فرد کو نقل وحرکت اور سکونت کی آزادی بھی حاصل ہےوغیرہ ۔

جہاں تک حدود کو کراس کرنے کی بات ہے تو پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ان حدود کو سب سے زیادہ کراس کرنے والے فوجی ڈکٹیٹر رہے ہیں ۔  مارشل لاء  کا نفاذ یا فوجی ڈکٹیٹر شپ ان حدود کو کراس کرنے کی بدترین شکل ہے ۔ ملک کو نقصان بھی سب سے زیادہ فوجی ڈکٹیٹروں کے دور میں پہنچا ہے ۔ اس طرح چاہے مارشل  لا ہو یا سویلین حکومت ان حدود کو کراس کرنے والے محدودے چند افسران ہوتے ہیں ۔ جو ملک کے قانون اور آئین کو بالا طاق رکھتے ہوئے  بالواسطہ یا بلاواسطہ معاملات کو کنٹرول کرتے ہیں ۔ مینڈیٹ سے تجاوز کےنتیجے میں قانون کی بالادستی قائم نہیں رہتی ۔    پالیسی بنانے والے اور چلانے والے تو محدود لوگ ہوتے ہیں مگر بدنامی پورے ادارے کو ہوتی ہے اور اس کا خمیازہ  پورے ملک کو بھگتنا پڑتا ہے ۔

پی ٹی ایم تو پرامن جہدوجہد پر یقین رکھتی ہے اور آئینی اور قانونی حدود کے اندر کام کررہی ہے اور اپنے حقوق کے  حصول اور دفاع کیلئے آواز آٹھارہی ہے ۔  پی ٹی ایم اس بات کا باربار اعادہ کررہی ہے کہ وہ ملک کے آئین اور قانون کا احترام کرتے ہوئے  پرامن جہدوجہد کر رہی ہے۔ وہ کسی  ادارے یا فرد کے خلاف نہیں بلکہ ان ریاستی پالیسوں کی مخالف ہے یا ان کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے جس سے پشتون بیلٹ اور خاص کر قبائلی علاقوں میں انسانی حقوق کی پامالی اور شہریوں سے بے انصافی ہورہی  ہے ۔ اس لئے پی ٹی ایم کے حوالے سے یہ بات کہنا کہ وہ حدود کراس کررہی ہے ناقابل فہم بات ہے ۔

پشتون بیلٹ میں شورش کیوں اور کیسے شروع ہوئی  ۔ عسکریت پسندی کو کس نے کیوں اور کیسے متعارف  کرایا اور پروان چڑھایا۔ ان سوالات کا جواب پشتون بیلٹ خاص کر شورش زدہ علاقوں کا بچہ بچہ جانتا ہے ۔ ا س لئے پشتون بیلٹ میں عسکریت پسندی اور فوجی آپریشنوں کے دوران جتنی تباہی و بربادی پھیلی ہے عوام اس کے ذمہ دارریاستی اداروں کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں  کو سمجھتی ہے ۔ ریاستی ادارے عسکریت پسندوں کے ظلم وستم  اور آپریشنوں کے دوران تباہی اور بربادی سے اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے سکتے ۔ پی ٹی ایم کسی بھی ریاستی ادارے کے خلاف نہیں بلکہ غلط ریاستی پالیسیوں کے خلاف ہے ۔

ظلم اور بے انصافی کے خلاف آواز اٹھانا ، ریاستی اداروں کی زیادتیوں کی نشاندہی اور شکایت کرنا حدود کی خلاف ورزی نہیں بلکہ حدود تو انسانی حقوق سلب کرنے اور اس کی سنگین پامالیوں سے کراس ھوتی ہے ۔ ظلم وستم کے مارے افراد کی شکایات نہ سننا ، ان کے مسائل اور مشکلات حل کرنےاور مناسب دادرسی کی بجائے ان سے مسلسل پہلو تہی کرنا اور الٹا ان کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش سے ان کے لب و لہجے  میں اور بیانات میں تلخی اور جذباتی پن ایک قدرتی بات ہے ۔ ریاستی اداروں کا  پی ٹی ایم کے  ساتھ مسلسل مخصمانہ رویہ اور ان کے خلاف انتقامی کاروائیوں سے معاملات مزید بگڑ رہے ہیں ۔

جب تک ریاستی اداروں کی سیاسی معاملات میں مداخلت اور سیاسی بیانات کا سلسلہ بند نہیں ہوگا اس وقت تک عوامی حلقوں میں اس پر بات ہوگی ۔ پیشہ ور انہ  ادارے جب تک اپنے آپ کو اپنے پیشہ ورانہ فرائض اور اپنے آئینی مینڈیٹ تک محدود نہیں رکھیں گے اس وقت تک ان کے غیر پیشہ ورانہ کردار اور ماورائے آئین اقدامات پر سوالات اٹھیں گے اور ان پر عوامی سطح پر بحث اور مباحثہ ہوگا۔  انتخابات میں دھاندلی ، من پسند جماعت کے حق میں شہریوں کو ووٹ ڈالنے پر مجبور کرنا اور پی ٹی ایم کے پوسٹر پھاڑنا ان کا کام نہیں۔ جب تقریبا ً تمام اھم سیاسی قیادت کو غیر محب وطن یا  غدارٹھہرایا  جائیگا اور شب و روز ان  کی کردارکشی  ہوگی تو پھر ہر  قسم کے نعرے تو لگیں گے۔ جمہور کو زیادہ عرصے تک خاموش نہیں کرایا جاسکتا اور نہ وہ خاموش رہتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

جہاں بھی ظلم و زیادتی  ہوتی ہے اور بے انصافی  ہوتی  ہے عوام کے حقوق سلب ہوتے  ہیں یا انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی ہیں ،وہاں اس کے خلاف آواز اٹھتی ہے ۔ تحریکیں چلتی ہیں اور متعلقہ اداروں اور حکام کی توجہ اپنے مسائل اور مشکلات کی جانب  دلائی جاتی ہے۔ یہی کام پی ٹی ایم بھی کررہی ہے ۔ شورش زدہ علاقوں میں عوام کو درپیش گوناگوں مسائل اور مشکلات کو اٹھا رہی ہے ۔ اگر کچھ مسائل فوج اور اس کے ماتحت اداروں سے تعلق رکھتے ہیں  تو اس کو فوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام اور فوج کے درمیان جو دوریاں اور غلط فہمی پیدا ھورہی ہے اس کا ازالہ کیا جائے ۔

Facebook Comments

ایمل خٹک
ایمل خٹک علاقائی امور ، انتہاپسندی اور امن کے موضوعات پر لکھتے ھیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply