افسانہ (ف)۔۔۔۔۔ شکیل احمد چوہان

’’ف سے فرض۔۔۔ ف سے فائدہ۔۔۔ ف سے فلک۔۔۔ ف سے فیصلہ۔۔۔جی ہاں۔۔۔! فیصلہ غلط اور  صحیح  کا۔۔۔ اچھائی اور برائی کا۔۔۔ حیا اور بے حیائی کا۔‘‘ فاطمہ لغاری نے اپنی چادر اتارتے ہوئے کہا، پسینے کی وجہ سے اُس کے سر کے بال گیلے تھے۔
’’ ف سے فکر ہے تمھاری۔۔۔ یہ لو لیموں پانی پیو۔‘‘ فریحہ شیرازی نے شیشے کا گلاس فاطمہ لغاری کی طرف بڑھاتے ہوئے جواب دیا۔
’’فاطمہ پی لو۔۔۔ فری ماڈل صرف لیموں پانی ہی پلاتی ہے۔‘‘ فضیلہ فہد نے کریلے چھیلتے ہوئے کہا۔
’’آج رات کو تیرے لیے Bearلے کر آؤں گی۔ فاطمہ۔۔۔! اس سالی کا پینے کو دل کرتا ہے، تیرے ڈر کی وجہ سے نہیں پیتی۔‘‘ فریحہ مسکراتے ہوئے کرسی پر بیٹھ گئی۔
فاطمہ لغاری، فریحہ شیرازی اور فضیلہ فہد میں صرف ایک قدر مشترک تھی کہ وہ تینوں اپنے اپنے گھروں سے بھاگ کر کراچی پہنچی تھیں۔

فاطمہ لغاری اس لیے گھر سے بھاگی تھی کہ وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ قرآن کی حافظہ تھی۔ اُس کے گھر والے قرآن ہی سے اُس کا نکاح کرنا چاہتے تھے، صرف زمین کے چند مربعوں کے لیے ۔ اس کے برعکس فضیلہ گھر سے بھاگی تھی فہد سے شادی کرنے کے لیے۔ شادی تو ہو گئی فہد سے لیکن فہد اس کے نصیب میں نہیں تھا۔فضیلہ اپنی محبت کی آرتی اتارتی رہی اور فہد فضیلہ کی۔۔۔
فاطمہ شادی سے بھاگی اور فضیلہ شادی کے لیے بھاگی۔ فریحہ شیرازی فلم کے لیے بھاگی۔ وہ فلم ایکٹریس بننا چاہتی تھی، وہ فلم سے فیم چاہتی تھی۔

’’جو اللہ سے نہیں ڈرتا اُسے سب سے ڈرنا پڑتا ہے۔۔۔ اللہ سے ڈرنے والے کا خوف دور ہو جاتا ہے۔‘‘ فاطمہ کرسی پر فضیلہ اور فریحہ کے سامنے بیٹھ گئی ان کے درمیان پلاسٹک کی میز تھی۔
’’میرا بوائے فرینڈ فیصل خان کہتا ہے کلفٹن میں میرے فلیٹ میں شفٹ ہو جاؤ پر تم دونوں سے دور جانے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘ فریحہ نے Gold Leaf Lightسگریٹ سلگاتے ہوئے اسٹائل سے کہا جیسے اُس نے فاطمہ کی بات سنی ہی نہ ہو۔
’’فواد سے فرحان اور اب فیصل۔‘‘ فضیلہ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔
’’دو ماہ کے اندر یہ تیرا تیسرا بوائے فرینڈ ہے۔‘‘ فاطمہ نے منہ میں لاحول ولاقوۃ پڑھا اور افسوس سے گردن ہلائی۔
’’یہ لڑکے تیرے ساتھ مزے کرتے ہیں پھر تجھے چھوڑ دیتے ہیں۔‘‘ فضیلہ نے کرب میں ڈوبی ہوئی آواز سے فریحہ کی طرف دیکھ کر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
فریحہ کے چہرے پر مسکراہٹ اُبھری۔ اُس نے سگریٹ کا لمبا کش لگایا ناک اور منہ سے دھواں آزاد کیا۔
’’فوزی جانوں۔۔۔ مزے تو میں کر رہی ہوں، وہی مزے جو تیرا بے غیرت فہد تیرے ساتھ چھ مہینے تک کرتا رہا۔ یہ سالے مرد سمجھتے کیا ہیں۔۔۔ یہ مرد، عورت کے جسم سے کھیلتے ہیں میں ان کے جسموں کو جہنم میں لے کر جاؤں گی۔‘‘
’’کیا اسکور کر چکی ہو اب تک؟‘‘ فضیلہ نے تجسس سے پوچھا۔
’’گیارہ!‘‘
’’گیارہ؟‘‘ فضیلہ نے فریحہ کے جواب کو دہرایا۔
’’ان میں سے تین چھکے تھے۔‘‘ فریحہ نے سگریٹ کو ایش ٹرے کے حوالے کیا۔
’’چھکے مطلب؟‘‘ فضیلہ نے پھر جلدی سے پوچھا۔
فاطمہ یہ سن کر وہاں سے غصے میں اُٹھی اور وضو کرنے چلی گئی۔ عصر کا وقت ہو چکا تھا۔فاطمہ ایک دین دار لڑکی تھی، فضیلہ دین اور دنیا کے درمیان سینڈوچ بنی ہوئی تھی۔فریحہ کے لیے دنیا ہی سب کچھ تھی، وہ دنیا میں ہی جنت تلاش کر رہی تھی۔
’’چھکے مطلب، دردِ سر، ان کو صرف باتوں کا شوق ہوتا ہے۔ بک بک سُن لو ان کی اردو انگلش کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ لفظ ایسے بولتے ہیں کہ الفاظ ٹوٹ نہ جائیں۔ نزاکت ہی نزاکت… چھکوں کے پاس جا کر درد کو آرام نہیں ملتا بلکہ درد بڑھ جاتا ہے۔‘‘
’’درد مطلب؟‘‘ فضیلہ بھولی صورت بنا کر بولی۔
’’مجھے تو لگتا ہے۔۔۔فہد بھی چھکا ہی تھا۔‘‘ فریحہ نے جانچتی نگاہوں سے دیکھا فضیلہ کی طرف جس نے شرما کر گردن جھکا لی تھی۔
’’نہیں تو۔۔۔ وہ تو۔۔۔ کریلے سے کڑوا۔۔۔شہد سے میٹھا تھا۔۔۔ کبھی نیندیں بنجر کر دیتا۔۔۔کبھی محبت کی زرخیز زمیں پر سلاتا۔۔۔وہ چھکا نہیں تھا وہ تو میرا چوکا تھا۔ جس نے چاروں شانے چت کر دیا مجھے۔‘‘ فضیلہ، فریحہ کی آنکھوں میں دیکھ کر بول رہی تھی، چھری ٹرے میں پڑی تھی اور کریلا فضیلہ کے ہاتھ میں۔
’’فاطمہ کے سامنے کتنی شریف بنتی ہو اندر سے پوری گُھنی ہو۔ تم نے اپنا اسکور تو بتایا ہی نہیں؟‘‘
’’میں نے ایک ہی گیند کھیلی تھی جس پر میں نے چوکا لگایا۔۔۔ میرا فہد میرا چوکا تھا۔‘‘ فضیلہ کے ہونٹوں پر فہد کا لمس، آنکھوں میں فہد کی تصویر تھی اور اُس کی سانسیں فہد کی سانسوں سے معطر ہو چکی تھیں۔
فضیلہ کو اپنے گھر سے بھاگنے کا کبھی افسوس نہیں ہوا۔ وجہ اس کی سوتیلی ماں تھی، فہد اُس کا بچپن سے پڑوسی تھا۔ فہد نے فضیلہ کے لیے رشتہ بھیجا تھا پر فضیلہ کی سوتیلی ماں کے سامنے اس کے باپ کی نہ چل سکی۔ فضیلہ کا باپ فہد کے حق میں تھا۔

’’فری ایک بات مانو گی میری؟‘‘ فضیلہ نے سنجیدگی سے کہا۔ فریحہ نے اثبات میں سر کو جنبش دی پر فضیلہ کچھ نہ کہہ سکی۔ وہ پتھرائی ہوئی آنکھوں سے فریحہ کو تک رہی تھی۔فریحہ کو فکر لاحق ہوئی۔ اس نے فضیلہ کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لیا جس ہاتھ میں کریلا تھا۔
’’بولو فوزی۔۔۔کیا بات ہے۔۔۔ میں مانوں گی۔‘‘
’’فری تم فہد کو گالیاں مت دیا کرو۔۔۔ پلیز۔‘‘فضیلہ نے ایسے کہا جیسے وہ فریحہ سے آخری خواہش کا اظہار کر رہی ہو۔ فریحہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ابھری۔
فریحہ نے سگریٹ نکالا اور اسے آگ سے سزا دی جیسے اس کا بچپن غربت کی آگ میں جلا تھا، جب اس کا باپ چل بسا۔۔۔چار بہنوں میں تیسرا نمبر فریحہ کا تھا۔ ماں کو اپنی چار بیٹیوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے ہر روز کسی نہ کسی کا بستر سجانا پڑتا۔ ماں کی ہڈیوں میں سے جوانی کا رس ختم ہوتا گیا۔ بیٹیوں کی کلیاں کھلتی گئیں۔ جب فریحہ کی باری آئی تو وہ گھر سے بھاگ آئی۔فریحہ کا ماننا تھا کہ اگر مقدر میں بکنا ہی ہے تو اپنی قیمت بڑھا لو۔ قیمت بڑھانے کے لیے نام بنانا پڑتا ہے، نام بنانے کے لیے وہ فلم ایکٹریس بننا چاہتی تھی۔
فریحہ فلم ایکٹریس تو نہیں بن سکی البتہ ماڈل بن گئی، کئی کمرشلز وہ کر چکی تھی۔ امیرزادوں کی جیب سے پیسہ نکالنا اسے آتا تھا۔
’’فاطمہ سے اس کا اسکور نہیں پوچھو گی؟‘‘ فریحہ نے فضیلہ کے چہرے پر سنجیدگی دیکھ کر بات بدلی۔ فاطمہ عصر کی نماز پڑھ کر ان کی طرف واپس آ رہی تھی۔
’’اکیلا کھلاڑی کہاں اسکور بنا سکتا ہے۔‘‘ فضیلہ نے فاطمہ کو دیکھ کر کہا۔
’’شکر ہے تم دونوں کی بے ہودہ باتیں تو ختم ہوئیں۔‘‘ فاطمہ نے بیٹھتے ہوئے کہا۔فریحہ اور فضیلہ نے ہنسنا شروع کر دیا۔
’’فضیلہ نماز تو پڑھ لو۔۔۔ ان کو کہنا تو فضول ہے۔‘‘ فاطمہ نے فریحہ کی طرف دیکھ کر کہا۔
فضیلہ نے سبزی والی ٹرے اٹھائی اور کچن کی طرف چل دی۔
’’نماز پڑھ لو۔۔۔رات کا کھانا مت بنانا۔‘‘ فریحہ کی آواز نے فضیلہ کا تعاقب کیا۔ فاطمہ اور فضیلہ ڈیڑھ سال سے فریحہ کے فلیٹ میں اس کے ساتھ رہ رہی تھیں۔
ڈیڑھ سال پہلے ریلوے اسٹیشن سے باہر آتے ہوئے فریحہ کی نظر فاطمہ پر پڑی جو مریل گائے کی طرح دم سادھے ہولے ہولے اسٹیشن سے باہر نکلی۔ فریحہ کو ایسی ہی گائے کی تلاش تھی جو اس کا خیال رکھے اس کی خدمت کرے صرف حکم مانے سوال نہ پوچھے۔ چوبیس گھنٹے اس کی جی حضوری میں لگی رہے۔

فاطمہ نے چند دن بعد فریحہ کو پوچھے بغیر ایک اسکول میں بچوں کو قرآن پڑھانے کی نوکری کر لی۔ اسی اسکول میں فہد چوکیدار تھا۔ فہد کے غائب ہونے کے بعد فضیلہ کو فاطمہ اپنے ساتھ لے آئی۔ فریحہ کے فلیٹ پر گھر کا سارا کام فضیلہ کرتی۔ فاطمہ نے گھر کے کچن کا خرچہ اٹھایا ہوا تھا۔ پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران فریحہ میں بہت تبدیلی آئی۔ پہلے فاطمہ اور فضیلہ کو وہ اپنی کنیزیں سمجھتی تھی۔ اب بہنوں کی طرح چاہتی۔۔۔
’’کھانا کیوں نہ بنائے؟‘‘
’’گرمی بہت ہے کلفٹن چلتے ہیں اس کے بعد کسی اچھے ریسٹورنٹ میں ڈنر کرواتی ہوں۔‘‘
’’تم فضیلہ کو لے جاؤ، میں نہیں جا سکتی۔‘‘ فاطمہ نے حتمی بات کہہ دی۔
’’فاطمہ تم میری سمجھ سے باہر ہو۔‘‘ فریحہ نے ناراضی سے کہا۔
’’آج میں ایک سچ بولنا چاہتی ہوں مگر میری ایک شرط بھی ہے۔‘‘ فاطمہ نے ہاں میں پلکوں کو جنبش دی۔
’’ڈیڑھ سال پہلے میں تمھیں اپنی خدمت کے لیے لائی تھی۔ مجھے تم جیسی لڑکی کی ضرورت تھی، جو گھر واپس نہ جائے باہر نہ نکلے ، میری باتیں کسی سے نہ کرے ، چند دن کے اندر ہی مجھے اندازہ ہو گیا کہ تم میرے رازوں کو راز رکھو گی، خدمت کی جگہ تم مجھ سے محبت کرنے لگی، میں جسے کنیز سمجھ رہی تھی وہ شہزادی نکلی، جب تم نے میری اجازت کے بغیر نوکری کر لی مجھے بہت غصہ آیا پھر تم مجھ سے پوچھے بغیر فضیلہ کو اپنے ساتھ لے آئی فضیلہ میری سوچ سے بڑھ کر تھی۔ چند دن بعد مجھے لگا کہ تم چلی جاو گی جب میں نے نشے کی حالت میں تم سے بدتمیزی کی تھی۔‘‘
فریحہ بات کرتے کرتے رک گئی۔ سگریٹ سلگ سلگ کر انتقال کر چکا تھا۔ فریحہ نے دوسرا سگریٹ پیکٹ سے نکالا اس سے پہلے وہ اسے جلاتی فاطمہ نے سگریٹ پکڑا اور واپس لٹا دیا پیکٹ کے اندر۔
’’مجھے معاف کر دو فاطمہ!‘‘ فریحہ نے نظریں جھکا کر کہا۔ فاطمہ مسکراتے ہوئے بولی:
’’اب اپنی شرط بتاؤ؟‘‘
’’شرط یہ ہے کہ… آج تم اپنے بارے میں مجھے سب کچھ سچ سچ بتاؤ گی۔‘‘
’’سچ ۔۔۔! وہ سچ جو ہم لکھتے ہیں، پڑھتے ہیں، صرف بولتے نہیں ہیں۔ میرا باپ ایک بہت بڑا زمیندار تھا۔ ابا اور تایا کی زمین اکٹھی تھی، میں اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد ہوں۔ لوگ کہتے ہیں میرے تایا نے خود میرے والدین کا ایکسیڈنٹ کروایا تھا۔‘‘ فاطمہ نے اپنے اشکوں کو رخساروں سے مٹایا۔ تھوڑی دیر خاموشی رہی پھر بولی:
’’میرا تایا میری شادی قرآن سے کروا کر ساری جائیداد اپنے پاس رکھنا چاہتا تھا۔ مجھے جائیداد نہیں آزادی چاہیے تھی۔ گھر سے بھاگنے میں میرے ابا کے ایک وفادار ملازم اور اس کی بیوی نے میری مدد کی۔‘‘ فاطمہ پھر تھوڑی دیر خاموش رہی گردن جھکائے فریحہ اس کے چہرے کو غور سے دیکھ رہی تھی۔ اب فریحہ نے بولنا شروع کیا۔
’’کوئی دولت پانے کے لیے گھر سے بھاگتا ہے، تم دولت سے جان بچا کر گھر سے بھاگی۔ غربت مار دیتی ہے اور دولت جینے نہیں دیتی۔ صرف محبت زندہ رکھتی ہے۔ فضیلہ کو دیکھ لو اُس بے وفا فہد کی محبت کے ساتھ زندہ ہے۔‘‘
’’فہد بے وفا نہیں تھا بس زندگی نے اس سے وفا نہیں کی۔‘‘ فضیلہ بول رہی تھی فریحہ کے پیچھے کھڑی ہوئی۔ اس کے بعد وہ ٹیرس سے کمرے کے اندر چلی گئی، فریحہ کی نظریں فضیلہ کے ساتھ ساتھ کمرے تک گئیں۔
’’فہد ایک بم بلاسٹ میں جاں بحق ہوا تھا۔ اسے فہیم صاحب نے اسکول کے کام کے لیے بازار بھیجا تھا، وہاں پر حادثہ پیش آ گیا۔‘‘ فاطمہ نے باقی کہانی فریحہ کو سنائی۔
’’فہیم صاحب نے مجھ سے کہا فضیلہ اور آپ کو میں کواٹر لے دیتا ہوں اس ماڈل کے ساتھ مت رہو وہ اچھی لڑکی نہیں ہے لیکن میں نے انکار کر دیا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘ فریحہ نے پوچھا۔
’’تم کافر ہو۔۔۔ منافق نہیں۔۔۔ گناہ کو گناہ سمجھ کر کرتی ہو۔۔۔ حلال اور حرام کی تمیز رکھتی ہو۔۔۔ تمھارے باطن اور ظاہر میں کوئی فرق نہیں ہے۔۔۔ میں نے تمھیں راتوں میں روتے دیکھا ہے۔ فریحہ میرے استاد فرمایا کرتے تھے:
’’فاطمہ یاد رکھنا۔۔۔! لوہے کو لوہا کاٹ سکتا ہے۔۔۔غم کو غم دور کرتا ہے اور اللہ کی یاد میں آنسو بہانے سے آنسو رک سکتے ہیں۔تمھارے جو آنسوتکیے پر گرتے ہیں وہ آنسو اگر سجدے میں گریں جائے نماز کے اوپر تو تکیے پر بڑی پُرسکون نیند آئے گی۔ تمھیں دونوں رستوں کی خبر ہے، غلط اور سہی۔۔۔فریحہ تم نے صرف ’’ف‘‘ سے فیصلہ کرنا ہے، سیدھے راستے پر چلنے کا۔ اس میں تمھارا ہی فائدہ ہے، تم فرائض ادا کرو پھر دیکھنا اللہ تمھیں فلک سے اونچا مقام عطا کرے گا۔‘‘
فریحہ اپنی کرسی سے اٹھی اور جلدی سے فاطمہ کے ساتھ لپٹ گئی جو کہ اپنی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ فریحہ بلک بلک کر رو رہی تھی۔ فضیلہ کمرے کے دروازے میں کھڑی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی فضیلہ آئی اور فریحہ کی کمر سے لپٹ گئی۔
’’تم دونوں یہ رونا بند کرو میں ایک خوشخبری سناتی ہوں۔‘‘ فاطمہ نے فریحہ اور فضیلہ کو خود سے جدا کیا۔
’’فہیم صاحب نے مجھے نکاح کا پیغام بھجوایا تھا اور میں نے ہاں کہہ دی ہے۔ پرسوں رات کو عشاء کی نماز کے بعد نکاح ہے۔‘‘
’’فہیم صاحب تو۔۔۔‘‘ فضیلہ نے حیرت سے کہا۔
’’اس رنڈوے سے شادی کرو گی جو دوبچوں کا باپ بھی ہے تمھاری اور اس کی عمر میں ۔۔۔‘‘
’’دس کا فرق ہے۔۔۔میں بائیس سال کی، فہیم صاحب بتیس سال کے۔‘‘ فریحہ کی بات کو فاطمہ نے مکمل کیا۔
’’اس فیصلے کی وجہ پوچھ سکتی ہوں؟‘‘ فریحہ نے اپنا چہرہ صاف کیا اور اپنے بکھرے بالوں کا جوڑا بنایا۔
’’فہیم صاحب شریف آدمی ہیں۔ ڈیڑھ سال ہو گیا ان کے اسکول میں نوکری کرتے ہوئے۔ انھوں نے کبھی بری نظر سے نہیں دیکھا۔ اسکول کی دوسری ٹیچرز بھی ان کی شرافت کی گواہی دیتی ہیں۔‘‘
’’صرف فہیم کی شرافت کی وجہ سے اس سے شادی کر رہی ہو؟‘‘ فریحہ نے خفگی سے کہا۔
’’فاطمہ تم اچھے خاندان سے ہو، قرآن کی حافظہ ہو، انتہائی حسین ہو، میں تمھارے لیے کسی بڑے خاندان سے لڑکا ڈھونڈتی ہوں جو تمھارے قابل ہوگا۔‘‘
’’سچ کہوں تو مجھے فہیم صاحب اچھے لگتے ہیں اور میری بھی خواہش تھی کہ میری اُن سے شادی ہو جائے۔‘‘ فاطمہ نے جواب دیا اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ پھیل گئی۔
’’فہیم صاحب واقعی بہت اچھے آدمی ہیں۔‘‘ فضیلہ نے فاطمہ کی بات کی تائید کی۔
’’مجھ کافر کو مسلمان تو کرتی جاؤ۔‘‘ فریحہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
’’فاطمہ تمھارے ساتھ ہوتی ہوں تو تم جیسی بننا چاہتی ہوں۔ جب شوٹ پر جاتی ہوں تو تمھاری باتیں ہوا ہو جاتی ہیں۔۔۔ یہ سالی گناہوں کی گٹھڑی سر سے اترتی ہی نہیں۔‘‘
’’ایمان کی چادر سر پر اوڑھ لو گناہوں کی گٹھڑی خود بخود اتر جائے گی۔‘‘ فاطمہ نے پیار سے فریحہ کا دایاں ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر جواب دیا۔
’’تم دونوں جلدی سے تیار ہو جاؤ آج کا ڈنر میری طرف سے۔‘‘ فاطمہ نے فریحہ اور فضیلہ سے کہا۔
’’بہت ذہین ہو فاطمہ۔۔۔! میری کمائی کا ایک لقمہ نہیں کھایا اس ڈیڑھ سال میں۔ مجھ سے محبت کرتی ہو اور میری کمائی کو حرام بھی سمجھتی ہو۔‘‘ فریحہ نے فاطمہ سے گلہ کیا۔
’’کفر سے نفرت کرنی چاہیے۔۔۔ کافر سے نہیں۔‘‘ فاطمہ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

مغرب کے بعد وہ تینوں اپنی بلڈنگ سے نکلی کلفٹن جانے کے لیے۔ ہفتے کی شام ہونے کی وجہ سے بازار میں بہت رونق تھی۔ فریحہ نے ٹیکسی کو رکنے کا اشارہ کیا اس سے پہلے وہ تینوں ٹیکسی میں سوار ہوتیں ایک زور دار دھماکاہوا۔ دھماکا خود کش تھا، اس دھماکے میں تیرہ افراد جاں بحق ہوئے اور سترہ زخمی۔ تیرہ میں فاطمہ، فریحہ اور فضیلہ بھی شامل تھیں۔
اگلے دن بازار میں پھر سے رونق تھی۔ تیرہ قیمتی جانوں کے ضیاع سے بازار میں کسی کو’’ ف‘‘ سے فرق نہیں پڑا تھا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply