واضح انکار۔۔مرزا مدثر نواز

وہ دونوں ایک ہی ادارے میں ملازمت کرتے ہیں ‘ ادارے میں شمولیت کا دن اور گروپ مشترکہ ہے‘ بخوبی ایکدوسرے کو جانتے ہیں اور کچھ عرصہ پہلے ایک ہی اقامت گاہ میں مقیم تھے۔ ایک کے پاس ان دنوں اپنی سواری نہیں تھی اور کچھ دن بعد اس کو اپنے مہمان کے لیے سواری کی ضرورت تھی لہٰذا اس نے ماضی کے تعلقات کے پیش نظر بڑے مان سے اپنے دوسرے دوست سے فلاں دن کچھ وقت کے لیے موٹر سائیکل دینے کا کہاجس نے رضامندی کا اظہار کر دیا۔ مہمان کی آمد کے بعد پہلا دوسرے سے چابی لینے گیا جس نے عین وقت پر کم ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغیر کسی وجہ کے صاف انکار کردیا۔ اگر یہی انکار وہ پہلے دن کر دیتا تو پہلے کو اپنے مہمان کے سامنے خفت کا سامنا نہ کرنا پڑتا اور وہ کوئی متبادل انتظام کر لیتا۔وقت گزر گیا‘ پہلے نے اس واقعہ کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنی ذاتی سواری خرید لی لیکن شاید وہ اس دن کے انکار کو زندگی بھر نہ بھول سکے۔
وہ ایک یونیورسٹی میں لیب انجنیئر ہے‘ با اخلاق‘ انتہائی ذہین اور سیمولیشن ٹولز پر کام کرنے کا ماہر ہے۔ پیشہ ورانہ مہارت کے باعث کئی طالب علم اس سے مدد کا مطالبہ کرتے ہیں اور وہ فوراََ حامی بھر لیتا ہے۔ آج تک شاید ہی کسی کو انکار کیا ہو لیکن بہت ہی کم ہوں گے جن کا کام مکمل کیا ہو گا وہ بھی ایک لمبے عرصہ کی منت سماجت اور صبر آزما مشقت کے بعد۔ آپ نے اس کو کام دیا اور صبر شروع‘ ہفتہ‘ مہینہ کے پے در پے وعدوں کے بعد کم از کم شاید سال‘ دو سال بعد خوش قسمتی سے آپ کا کام ہو جائے‘ وہ کسی کو واضح انکار کرتا ہے نہ وقت پر کام کرتا ہے بلکہ تاریخ پہ تاریخ کے نہ پورا ہونے والے وعدوں کا ایک سلسلہ چل نکلتا ہے۔ اسی طرح ایک جاننے والے اپنے نام کی طرح شہزادے آدمی ہیں‘ کبھی کسی کو انکار نہیں کیا اور بہت ہی کم کسی کا کام کرنے کا اتفاق ہوا ہو گا۔ سیاسی لوگوں اور ان کے آگے پیچھے منڈلانے والوں کو آپ کوئی بھی کام کہہ دیں‘ وہ جواب دیں گے کہ ہو جائے گا‘ مسئلہ ہی کوئی نہیں لیکن کیا وہ کام ہوتا ہے؟اس سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ جھوٹے وعدے کو موجودہ دور میں میٹھی گولی دینا بھی کہتے ہیں اور ہمارے نزدیک اب یہ کوئی اخلاقی یا مذہبی گناہ یا جرم نہیں رہا۔ ہم دن میں کتنی بارجھوٹے وعدوں کے مرتکب ہوتے ہیں اور اس پر کسی پشیمانی کا اظہار بھی نہیں فرماتے‘ اخلاقی طور پر ہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید پستی کی طرف گامزن ہیں۔ اگر سمجھا جائے تو بروقت واضح انکار‘ جھوٹا وعدہ کرنے کی نسبت کئی گناہ بہتر ہے۔
کسی سے جو وعدہ یا کسی قسم کا قول و قرار کر لیا جائے اس کو پورا کرنا ایک راست باز کا شعار ہے۔ جس طرح اللہ تعٰالیٰ اپنے وعدہ کا سچا اور اپنے عہد کا پکا ہے‘ اسی طرح اس کے بندوں کی خوبیوں میں سے ایک بڑی خوبی یہ ہونی چاہیے کہ وہ کسی سے جو وعدہ کریں اور جو قول و قرار کریں اس کے پابند رہیں‘ سمندر اپنا رخ پھیر دے تو پھیر دے اور پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو ٹل جائے‘ مگر کسی مسلمان کی یہ شان نہ ہو کہ منہ سے جو کہے وہ اس کو پورا نہ کرے اور کسی سے جو قول و قرار کرے اس کا پابند نہ رہے۔ عام طور پر لوگ عہد کے معانی صرف قول و قرار کے سمجھتے ہیں‘ لیکن اسلام کی نگاہ میں اس کی حقیقت بہت وسیع ہے‘ وہ اخلاق‘ معاشرت‘ مذہب اور معاملات کی ان تمام صورتوں پر مشتمل ہے جن کی پابندی انسان پر عقلاََ‘ شرعاََ‘ قانوناََ‘اور اخلاقاََ فرض ہے اور اس لحاظ سے یہ مختصر سا لفظ انسان کے بہت سے عقلی‘ شرعی‘ قانونی‘ اخلاقی اور معاشرتی فضائل کا مجموعہ ہے۔وعدہ کر کے اس کے خلاف کرنا بہت بڑی برائی ہے اور یہ بھی حقیقت میں جھوٹ کی ایک قسم ہے۔ کسی قوم اور اس کے افراد کی عزت کا  دارو مدار بہت کچھ اس پر ہے کہ وہ اپنے وعدوں کے کتنے سچے اور اپنی بات کے کیسے پکے ہیں۔ جب کوئی شخص کوئی وعدہ کر لیتا ہے تو اپنے اوپر ایک ذمہ داری اوڑھ لیتا ہے‘ فرمایا۔
’’ترجمہ: بے شک وعدہ کی باز پرس ہو گی۔‘‘(بنی اسرائیل۔۳۴)
اور جس کی باز پرس اللہ فرمائے اس کی اہمیت کتنی بڑی ہو گی۔ ایک دفعہ آپﷺ نے فرمایا کہ ’’ مجھ سے تین باتوں کا ذمہ لو تو میں تمہارے لیے جنت کا ذمہ لیتا ہوں‘ جب بولو تو سچ بولواور جب وعدہ کرو تو پورا کرو اور جب امین بنو تو خیانت نہ کرو‘‘۔ آپ نے اپنی ایک مشہور حدیث میں فرمایا ہے اور حضرت انسؓ کہتے ہیں کہ آپ ہر خطبہ میں اس کو ضرور فرمایا کرتے تھے ’’ جس میں عہد نہیں‘ اس میں دین نہیں‘‘۔ یعنی اس قول و قرارکو جو بندہ اللہ سے کرتا ہے یا بندہ بندے سے کرتا ہے‘ پورا کرنا حق اللہ اور حق العباد کو ادا کرنا ہے‘ جس کے مجموعے کا نام دین ہے‘ اب جو اس عہد کو پورا نہیں کرتا‘ وہ دین کی روح سے محروم ہے۔

Facebook Comments

مرِزا مدثر نواز
پی ٹی سی ایل میں اسسٹنٹ مینجر۔ ایم ایس سی ٹیلی کمیونیکیشن انجنیئرنگ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply