نقب ” زن “۔۔راحیلہ کوثر

کل تک ہم بھارت کا تذکرہ ایک ریپسٹ ملک کے نام سے کیا کرتے تھے کہ وہاں خواتین اور بچے، بچیاں مردوں کے ہاتھوں  محفوظ نہیں اور آج ہم خود اسی صورتحال سے دوچار ہیں۔  اس ملک میں عورت کی عزت و آبرو کا غیر محفوظ رہنا اب روزانہ کا معمول سا بنتا جارہا ہے۔آئے روز یہی بھیانک خبریں سننے کو مل رہی ہیں کہ فلاں بچی کو ریپ کے بعد مار دیا گیا فلاں بچے کو جنسی تشدد کا نشانہ بنا دیا گیا ۔ گویا کہ یہاں جنگل کا قانون رائج ہوچکا ہے۔ یوں گماں ہوتا ہے کہ ریاست مدینہ کے دعوے داروں نے خود اپنے بیانیے کو دفنا دیا ہو۔ افسوس در افسوس کہ مدینے جیسی ریاست تو دور اب تو ہمارے حکمرانوں، اداروں اور اس قوم کے افراد جن کے ہا تھوں میں اقبال نےقوم کی تقدیر تھمائی تھی ، نے اپنے مظالم و عدل کی عدم دستیابی سے اس ملک کو درست معنی میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی نہ رہنے دیا۔

یہ بات سچ ہے، جو حالات چل رہے ہیں رات کے وقت عورت کو تو سو دفعہ سوچ کر ہی باہر نکلنا چاہیے۔ کیونکہ اب ہمارے مُلک میں لا دینیت اور ہوس کا یہ عالم ہے کہ نہ پانچ سال کا بچہ محفوظ ہے نہ ہی پچاس سال کی عورت نہ قبروں میں زنانہ لاش ، ہوس اور درندگی ہے کہ بڑھتی ہی چلی جا رہی ہےاس ملک میں ایک بند گاڑی میں اپنے بچوں کے ہمراہ بیٹھی عورت محفوظ ہے۔
نہ ہاتھ میں دس روپے کا نوٹ لیکر گلی کے کونے والی دکان پر جانے والی آٹھ سالہ بچی ۔۔۔
ارے یہاں تو ہوس کے مارے درندے پالتو جانوروں کو بھی جنسی تسکین کا نشانہ بنا ڈالتے ہیں ۔۔۔

لاہور موٹر وے پر فیول ختم ہوجانے پرکھڑی ہونے والی گاڑی میں موجود ماں کو جب اسکے بچوں کے سامنےاجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ہوگا تب انسان تو نہیں انسانیت ضرور شرمائی ہوگی ۔ اس ملک میں تو کہیں بھی عورت کی عزت محفوظ نہیں نہ مرنے سے پہلے نہ مرنے کے بعد ۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

سی سی پی او کے مطابق بھی سارے کامن سینس عورت کے لئے مختص ہیں مجرموں تو بے لگام گھوڑے ہیں ان پر لگامیں تو ڈالنا نہیں کسی نے بس مشورے آسان ہیں عورت یہ نہ کرتی عورت وہ نہ کرتی ۔
ریپ کا شکار صرف اور صرف مظلوم ہے۔ اگر مگر لیکن چونکہ چنانچہ کی تاویلات صرف مجرمان کو فائدہ دیتی ہیں۔
اور یہ جو محرم محرم والی رٹ لوگوں نے لگا رکھی ہے کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ مجرم اسلحہ سے لیس تھے گاڑی کھڑی دیکھی تو لوٹنے آگئے عورت دیکھ کر ریپ بھی کر دیا۔ کیا اگر ساتھ محرم بھی ہوتا تو کیا کر لیتا؟
“خاتون کے اکیلے سفر کرنے کو ریپ کی وجہ قرار دینے والوں کے دلائل اور سوچ بھی نربھیا کا ریپ کرنے والے مجرموں کی سی ہی ہے۔ ریپ کی اصل وجہ ہی عورت کو حوس کا سامان سمجھنے والی نفسیات ہے ۔ کسی نقب زن کی مانند وجود زن پر گھات لگانا اور داو لگتے ہی اسے لوٹ کا مال سمجھ کر نوچنے مسلنےکو اپنا حق بھی سمجھنا شیطانیت ہی نہیں سراسرحیوانیت ہے ۔
اس کا سد باب یہی ہے کہ ہر ریپ کے مجرم کو سرعام پھانسی دے دی جائے۔
مگر جب سر عام پھانسی کی بات کرو عبرت ناک سزا کی تحریک چلانے لگو تو یہ قانون بھی عورت کی علمبردار موم بتی لنڈے کی لبرل مافیا اور این جی اوز ہی پاس نہیں ہونے دیتیں۔ اگر ہم اب بھی یکتا نا ہو پائے تو کبھی بھی نا ہو پائیں گے عورت پر تنقید کی بجائے ان جنسی درندوں کو فوری اور سر عام پھانسی دینے کے لیئے تحریک چلانا چاہیئے۔ ورنہ دن بہ دن ان کا حوصلہ مزید بڑھتا جائے گا۔ پھر رات کیا دن کے اُجالے میں بھی کوئی عورت محفوظ نہیں رہ سکے گی۔ اور ہمارے بچے خوف اور وحشت کی فضا میں پروان چڑھ کر نفسیاتی مریض بن جائیں گے۔

Facebook Comments